میں ابن آدم ہوں

عورت کی مظلو میت پر آ نسو بہانے کے ساتھ ساتھ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھا جائے کہ عورت خصو صا ہمارے معاشرے کی عورت کس طرح ہمیشہ اپنے حق سے زیادہ لینے کے با وجود مزید کی طلب میں سر گر داں رہتی ہے یقینا جس کی ضرب صنف مخالف یعنی بے چا رے مرد پر پڑ تی ہے ۔مرد اور بے چا رہ ؟ یقین نہیں آ تا لیکن ہے حقیقت! کس طرح؟ آ ئیے دیکھتے ہیں
""congratulation!It is a boy! "

( مبارک ہو ! بیٹا ہوا ہے )کا نعرہ ہر دور ،ہر طبقے،ہر معاشرے میں یکساں پسندیدہ ہے ۔ یہ پیغام ٹیلی فون سے ملے موبا ئیل پر SMSکے ذریعے! مشرق کے والدین کو ملے یا مغرب کے والدین کو ملے! ہر صورت میں دل خوش کن ہو تا ہے اور پیدا ہو نے والا بیٹا بھی اپنے اس استقبال پر خو شی سے پھولے نہیں سماتا کہ یہ جگہ تو جنت سے بھی زیادہ اچھی ہو گی ۔ اس کی آ مد پر لڈو با نٹے جا تے ہیں مگر کچھ ہی دن گزرتے ہیں  کہ خو شی کا رنگ پھیکا پڑ نا شروع ہو جا تا ہے۔

اس کو اتنی توجہ اور محبت نہیں ملتی جتنی بہن کو بلتی ہے اگر بہن کے لیے دس چیزیں آ ئیں گی تو اس بے چارے کے لیے صرف دو! اور پھر تو یہ سلسلہ چل نکلتا ہے ۔ وہ اس نا انصا فی پر آ واز تو بلند نہیں کر سکتا لہذا توڑ پھوڑ مچا کر اپنی بھڑا س نکا لتا ہے ۔ الٹا یہ کہ تعذیب کا نشا نہ بنتا ہے ۔پھر بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ اس رویہ میں اضا فہ ہو تا جا تا ہے ۔گھر میں شور شرابا ہو ،لڑا ئی جھگڑا یا کوئی اور معا ملہ اس کو ہی ڈا نٹ کا سا منا ہو تا ہے بیٹی کو کمزور سمجھ کر ماں با پ کم ہی ہا تھ لگا تے ہیں ہاں اس بے چارے کی تو آ ئے دن مر مت ہو تی رہتی ہے ۔ کوئی کا م بگڑے اسی کا نا م آ تا ہے ۔ با پ کی تنقید اورسختی کا کوڑا صرف اور صرف اسی پر بر ستا ہے ۔ گھر سے باہر ہو تو کہا جاتا ہے کہ اڑا اڑا رہتا ہے اور اگر گھر میں رہے تو لو گوں سے ملنے جلنے کی تلقین کی جا تی ہے ۔ ۔کوئی کام ہو تو اس کو ہی دوڑا یا جاتا ہے ۔ بیٹی کے تحفظ کے خیا ل سے اسے ادھر ادھر بھیجنے سے گریز کیا جا تا ہے چنا نچہ وہ پڑ ھا ئی میں اتنا وقت نہیں دے پا تا اور اگر پڑ ھا ئی میں پھسڈی ہو تو تنبیہ میں اور اضا فہ ہو جا تا ہے کہ کیرئیر بنا نے کا ارادہ نہیں ہے ؟؟

عید بقر عید یا تقریبات کے موقع پر صرف اور صرف بہن کی تیا ریاں ہو تی ہیں اس بے چارے عین وقت پر قمیض شلوار یا پینٹ بو شرٹ دلوا کر چھٹی ہو جا تی ہے ( اب تو اس کے بھی بننے سنورنے کا نظر یہ عام ہو گیا ہے لیکن کیا کہ اس کی ضرب بھی خود اسی کی جیب پر پڑ تی ہے !) چنا نچہ وہ ان موا قعوں پر بہت گھبرا یا ہوا رہتا ہے ۔پورے مہینے ترا ویح کی مشقت وہ کر تا ہے اور بہن کی عید کی شا پنگ آ خری لمحو ں تک مکمل نہیں ہو تی بقر عید میں جانور کی خرید سے لے کر دیکھ بھال اور قصائی کی معا ونت سے گوشت کی تقسیم تک وہ تھک کر چور ہو جا تا ہے جبکہ بہن بن سنور کر تہوار منا نے میں مصروف ہو تی ہے۔

اس کادل اپنی ہئیت کذائی اور نا انصا فی پر بسورتا رہتا ہے ۔اگر کبھی بہن سے زیادتی کرے تو ڈا نٹ پڑ تی ہے کہ پرا یا دھن ہے کیوں ستاتے ہو؟ بہن بڑی ہو تو اس کے حقو ق کا داویلا ،چھوٹی ہو تو اس کے حقوق کی دہا ئی ۔ہر صورت میں یہ ہی بے چا رہ سینڈوچ بنتا ہے ۔

یہ کیفیت صرف گھر میں ہی نہیں ہوتی بلکہ تعلیمی ادارے میں بھی اسی کشمکش کا سا منا ہو تا ہے ۔ کوئی بھی سخت کام ہو اسی کے حوالے کیا جا تا ہے۔

کسی بھی پرا جیکٹ کا مشکل ترین حصہ اس کے ذمہ آ تا ہے ۔موسم،وقت ،حالات اور طاقت نہ ہونے کی چھوٹ (exemption)صرف لڑ کیوں کے حصے میں آ تی ہے اور لڑ کا کوئی بہانہ استعمال نہیں کر سکتا چنانچہ یہاں بھی لڑ کیاں اپنا زیادہ وقت پڑ ھائی میں خرچ کر نے کے با عث اعلٰی کامیابی حا صل کر تی ہیں۔(ہاں اب تھوڑا ریلیف ملا ہے جب سے” عورت کسی سے کم نہیں !“کا سلوگن استعمال کر تے ہوئے بے وقوف لڑ کیاں انہونی سے کام کر رہی ہیں) ۔

گھر اور تعلیمی ادارے کے باہر بھی یہی صورت حا ل ہوتی ہے ۔سڑک پر کسی خاتون کی گا ڑی کو دھکالگا نا ہو یا ٹا ئر بدلنا ہو اس کی مر دانگی کو چیلنج ہوتا ہے۔ یا پھر ویگن کا سفر درپیش ہو تو خود خواہ کتنی ہی تکلیف سے گزر رہا ہو مگر کسی خاتون کے لیے سیٹ چھوڑنا اس کی مجبوری ہے ورنہ لوگ گھور گھور کر دیکھنے لگتے ہیں ( ہاں اب برابری کے نعرے کے عام ہونے سے اس آزمائش سے کم ہی واسطہ ہو تا ہے) اس کو ہر جگہ قطار لگانی پڑ تی ہے جبکہ عورت اپنے استحقاق کی بنیاد پر ہر جگہ جلد فارغ ہو جاتی ہے ۔کارخانے مرد کو ہی چلانے پڑ تے ہیں ،جنازے اسی کو پڑ ھا نے ہو تے ہیں ،جنگیں اسی کو لڑ نی پڑ تی ہیں ۔ کچھ ذمہ داریاں اور فرائض تو اسلام نے اس کے ذمہ رکھے ہیں کچھ معاشرے کا دباﺅ ہو تا ہے اوراب سب سے بڑ ھ کر زندگی مغرب زدہ ہونے کی وجہ سے بجٹ بڑھنے کا اثر مرد پر ہی پڑ تا ہے۔

تعلیم کے بعد جب عملی دنیا میں قدم رکھنے کا وقت آ تا ہے تو بھی یہ مسائل ہوتے ہیں ۔بہن خواہ کتنی ہی اعلٰی تعلیم یافتہ ہو اور کتنے ہی شاندار نمبروں سے پاس کرے اس پر ملازمت کا کوئی دباﺅ نہیں جبکہ اس بے چارے کو اچھی سے اچھی ملازمت حا صل کر نے اور خوب کمانے کا مسلسل دباﺅاپنی لپیٹ میں لیے رکھتا ہے آخر اسے فیملی کو سپورٹ بھی تو کر نا ہے۔ جب وہ انٹر ویو کے لیے پہنچتا ہے تو یہی بنت حوا جو روز اول سے اس پر حاوی ہے یہا ں بھی اس سے بازی لے جا نے کی منتظر ہو تی ہے ۔ چنانچہ اپنے شاندار تعلیمی کوائف اور عورت ہو نے کی بنیاد پر ملاز مت حا صل کر لیتی ہے اور یہ بے چا رہ منہ دیکھتا رہ جا تا ہے ۔ آ خر جو تیاں چٹخانے کے بعد ملازمت ملتی ہے تو یہاں بھی عورت جو شوقیہ کررہی ہو تی ہے اس کے برابر تنخواہ حا صل کر نے کے باوجود کام کا بوجھ کہیں کم اٹھا تی ہے ۔ موسم خراب ہو یا حالات عورت کو کام پر پہنچنے سے استثنا مل جا تا ہے ۔ گھریلو حالات یا بچوں کی ذمہ داریوں کی وجہ سے اکثر و بیشتر عورت اپنی ڈیو ٹی پر پہنچنے سے قاصر ہو تی ہے ۔ یہاں پر بھی مرد کو ہی اس کے حصے کا کام پڑ تا ہے ۔اور عورت یہ سب کچھ for granted لیتی ہے۔

زندگی کا ایک اہم موڑ شادی ہو تا ہے ۔اس معاملے میں بھی اس کو منہ کی کھانی پڑ تی ہے ۔ اس کے والدین دن رات اپنی بیٹیوں کی شادی کی فکر میں گھلتے رہتے ہیں اور اس کے با رے میں تو بس یہی سوچا جا تا ہے کہ اچھی طرح کما کر گھر بنا لو پھر شادی کی فکر کر نا! کبھی تو ایسا ہو تا ہے کہ اسے اپنی بہن کا گھر بچا نے کے لیے اس کی نند سے شادی کر نی پر تی ہے اور کبھی والدین اسے بد لے میں دے کر اپنی بیٹی کا گھر بسا تے ہیں ۔اور کبھی یوں ہو تا ہے کہ اس کی گودوں کھلائی بہن کے بچے جب بڑے ہو نے لگتے ہیں تو انہیں اپنے ما موں کی شادی کا شوق چراتا ہے ۔

ماں ، بہن اور کز نز کی مہم جوئی یہ مر حلہ سر کر تی ہے تو پھر شادی کے جملہ اخرا جات ،مہر کی رقم کے علاوہ بری کے زیورات اور جوڑے تو ڑے اس کا کچو مر نکال کر رکھ دیتے ہیں۔ اور اکثر وہ مہر کی رقم پر ڈنڈی مار دیتا ہے اور خود گناہگار بن جا تا ہے ۔ شاید اسی لیے جس لڑکے کو موقع ملے وہ غیر ملکی عورت کو تر جیح دیتا ہے کیونکہ وہاں صرف ایک ویڈنگ رنگ سے کام چل جا تا ہے اور اس کی ذمہ داریا ں بھی پا کستانی عورت کے مقابلے میں کم ہو تی ہیں ۔

شادی کے بعد مرد کی مظلومیت کا ایک نیا باب کھل جا تا ہے کیونکہ گھر میں بیوی کے آ نے سے اختیارات اور اقتدار کا توازن بگڑ نے لگتا ہے ۔ ایک نیام میں دو تلواریں بھلا کہاں سما سکتی ہیں ؟ لہذا بہو میں علیحدگی پسند تحریک زور پکڑ نے لگتی ہے ۔ اس تمام تر لڑا ئی میں بے چارہ مرد ہی سینڈوچ بنتا ہے۔ پھر الگ گھر لیا جا تا ہے جو میکے سے قریب اور سسرال سے کوسوں دور ہو تا ہے ۔ اپنی گلی میں تو کتا بھی شیر ہی ہو تا ہے !

یہاں آ کر مرد کو آ ٹے دال کا بھاﺅ پتہ چل جا تا ہے جب اسے ذہنی اور مالی چوٹ کا سامنا ہوتا ہے ۔مشترکہ رہا ئش میں بہت سی چیزوں کا پتہ نہیں چلتا مگر یہاں آ کر نہ صرف ہر چیز بنا نی پڑ تی ہے بلکہ گھر کے کا موں میں بیوی کا ہاتھ بٹا نا پڑ تا ہے ۔ اور چونکہ سسرال قریب ہو تا ہے لہذا ساس ، سسر اور سالے سالیوں کے نخرے بھی اٹھا نے پڑ تے ہیں ۔

جب اپنے والدین سے ملنے جا تا ہے تو وہاں اسے ماں کا یہ جملہ بھڑ کانے کے لیے کا فی ہو تا ہے کہ دکھ تو اٹھا ئیں ماں باپ اور اور عیش اٹھا ئے بیوی ! والدین کے حقوق کا اسے بھی علم ہے مگر وہ وقت اور پیسہ کہاں سے لائے ؟ بیوی کوہر وقت اپنے حقوق کے تحفظ کی فکر ہو تی ہے اور وہ بھی اس سلسلے میں قرآن اور حدیث کا حوالہ دے کر شوہر کا منہ بند کر دیتی ہے ۔ بیوی کو صرف اتنا پتہ ہے کہ عورت شوہر کی کمائی کی واحد حق دار ہے اب اگر شوہر اسے یہ بات بتانے کی کو شش کرے کہ مرد اپنی بیوی کے نان نفقے کا ذمہ دار ہے ،یہ نہیں کہ ساری کمائی لاکر اس کے ہاتھ پر رکھ دے اور پائی پائی کا حساب دے تو بس آنسوﺅں کی بر سات شروع ہو جا تی ہے کہ عورت پر ظلم ہو رہا ہے ! اس سلسلے میں عورت چاہے کتنی ہی قصور وار ہو ظالم مرد ہی گر دانا جا تا ہے جس طرح کہ سڑک پر حا دثے کی صورت میں خواہ قصور سائیکل سوار ہی کا کیوں نہ ہو زیادتی ٹرک ڈرائیور کی ہی کہلاتی ہے ۔

ان معاملات میں صرف بیوی ہی کافی نہیں ہو تی اس کے رشتہ دار بھی آ گے آ گے ہو تے ہیں ۔ بیوی کی خالہ سے ملنے گئے تو انہوں نے چھوٹتے ہی کہا ”اے ہے تمہارا رنگ کتنا زرد ہو رہا ہے ! ارشد سے لہو کہ جوسر خرید لے کہ جوس پی کرکچھ طاقت آ ئے۔“ یہ جملہ سن کر بے چارے ارشد کے دل پر کیا گزرتی ہے ؟ وہ جوسر تو کسی نہ کسی طرح خرید لے مگر جوس نکالنے کے لیے فروٹ کی پیٹی کہاں سے روزانہ لائے گا؟ اپنی جان ہی پیش کر سکتا ہے ۔ یا پھر کوئی سہیلی ملاقات کو آ جائے تو منہ بنا کر کہتی ہے ”تمہارا رنگ کتنا جل گیا ہے ! ظفر بھائی سے کہو A.C لگوائیں ! “ بے چارہ ظفر جوڑ توڑ کر کے A.C تو لگوا لے مگر ہر ماہ بجلی کا بل کون دے گا؟؟

بس ان فر مائشوں کو پورا کر نے کے لیے اسے پارٹ ٹائم یا ڈبل نوکری کر نی پڑ تی ہے اور اس پر ستم یہ کہ گھر پہنچے تو بیطی تیار بیٹھی ہو کہ باہر چل کر کھا نا کھائیں میں بہت تھک گئی ہوں یا پھر اتنا بد مزہ کھا نا ملے کہ کہ کاش دن بھر ککنگ چینل دیکھنے کے بجائے کچھ سیکھ کر اپلائی بھی کیا جائے۔

یا پھر گھر پہنچنے پر بچے حوالے کر دیے جائیں کہ میں صبح سے سنبھال رہی ہوں اب آ پ دیکھیں !! اور وہ جل کر سوچتا ہے کہ بہن بھائیوں کے بچے پال پال کر تو زندگی گزاری ہے اب اپنوں کو تو پالنا ہی ہے اور پھر آ جکل کے بچے؟؟ انہیں بھی اپنے حقوق کا اچھی طرح علم ہے ۔اس لئے وہ بڑی بڑی فر مائشیں کر نے سے نہیں چوکتے کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ اس کو پورا کر نا باپ کی ذمہ داری ہے ۔ چونکہ بچے ایک جنریشن آ گے ہو تے ہیں لہذا ان کی خوا ہشات بھی باپ کی سوچ سے ہمیشہ آ گے ہی چلتی ہیں اپنی تمام ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کے بعد جب آ رام کا وقت آ تا ہے تو یہاں بھی عورت کا پلہ بھا ری ہو تا ہے ۔ چونکہ عورت مرد سے زیا دہ نڈ ھال اور بیمار ہو تی ہے لہذااس کی دیکھ بھا لاور علاج معالجہ شوہر کے ذمہ ہی ہو تا ہے کیونکہ اولادیں تو اپنی اپنی راہ لیتی ہیں ۔ آ خری عمر میں سر پکڑے بے چارہ ابن آ دم سوچتا ہے کہ ناحق ہی باوا آ دم نے جنت کی تنہائی سے گھبرا کر ساتھی کا مطا لبہ کیا تھا یا پھر اس خوش فہمی پر آ زردہ ہوتا ہے کہ جب اس کی دنیا میں آ مد پر Hay! It's boy کا نعرہ ڈاکٹر سے لے کر جمعدار نے لگا یا تھا ۔

دیکھا آ پ نے بے چارے مرد کی مظلو میت !! اور اس کی مظلو میت کا المناک پہلو یہ ہے کہ اس کی مظلو میت تو گر دانی ہی نہیں جا تی ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جہاں عورت کی مظلو میت پر لکھنے ور پڑ ھنے سے آ نکھوں میں آ نسو آ جاتے ہیں وہاں مرد کی مظلو میت کا تذ کرہ کر نے سے ہونٹوں کے گو شے قہقہہ لگا نے کو بے تاب ہو جا تے ہیں ۔
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 80553 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.