(کراچی سے شائع ہونے والے
روزنامہ امت، اخبار کی 12جون2012ءکی اشاعت میں صفحہ4پر ڈاکٹر ضیا ءالدین
نامی کالم نگار نے اپنے کالم میں ناسمجھی و کم علمی کی بناءپر امیر
المومنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر چند الزامات عائد کیے ہیں۔ اس مذموم
تحریر کی تردید کے لیے سطور ہٰذا حوالہ قرطاس کی گئیں)
بحیثیت مسلمان ہمیں سب سے پہلے خاتم المعصومین سیدالانبیاءحضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے عشق ہے اور اپنی جان سے بڑھ کر ہے۔ اسی عشق
محمدﷺ کی وجہ سے ہمیں اصحابؓ محمدﷺ سے بھی عشق ہے کیوں کہ یہ حضرات نبیﷺ کی
محنت ہیں اور ہر شخص کو اپنی محنت سے پیار ہوتا ہے اور اپنی محنت پر اعتراض
یا حملہ کرنے والے کو محنت کرنے والا پسند نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ خالق
ارض و سماءنے سورہ فتح کے آخری رکوع میں صحابہ کرامؓ کو نبیﷺ کی محنت قرار
دیتے ہوئے کسان کی کاشت کی ہوئی فصل سے تشبیہ دی اور نبیﷺ کی خوشی کا سبب
وجود صحابہؓ کو قرار دیا اور ساتھ ہی دشمنان صحابہ کے لیے وعید بھی ذکر
فرما دی۔ آمدم برسر مطلب روزنامہ امت، کی 12جون، 2012ءکی اشاعت کے صفحہ 4
پر شائع ہونے والے کالم ”آخری امید“ میں کالم نگار نے نبی ﷺ کے ایک پیارے
صحابی، امیر المومنین سیدنا معاویہ ؓ کے متعلق کچھ ایسی باتیں تحریر کر دیں
جو ہماری دانست میں کالم نگار کی کم علمی اور قرآن و سنت سے منحرف ہوتے
ہوئے تاریخی روایات پر یقین کرلینے کا نتیجہ ہیں۔ جب کہ اصول تفسیر و حدیث
میں علماءو فقہاءکے ہاں یہ امر مسلّمہ ہے کہ قرآن و سنت کے خلاف مضبوط سے
مضبوط تاریخی روایت بھی مردود ہے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر کیے گئے اعتراضات کا جواب دینے سے پہلے مناسب
ہے کہ انتہائی مختصر انداز میں سیرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر طائرانہ
نظر ڈالی جائے تاکہ قارئین کو مندرجہ بالا اعتراضات کا جواب سمجھنے میں
دشواری نہ ہو۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ عمرةالقضاء۷ہجری میں مشرف بہ
اسلام ہوئے اور اپنے اسلام کا اظہار فتح مکہ کہ موقع پر کی اور اس وقت آپؓ
کے والد گرامی قدر سیدنا ابوسفیانؓ، والدہ محترمہ سیدہ ہندؓ اور برادر اکبر
جناب سیدنا یزیدؓ بن ابوسفیانؓ بھی آپؓ کے ہمراہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نبیﷺ
کی حیات مبارکہ میں کفار سے جتنے بھی معرکے ہوئے ان میں کسی بھی معرکہ میں
سیدنا معاویہؓ اہل اسلام کے مقابل کفار کے ہمراہ نہیں نظر آتے۔ اور فتح مکہ
سے قبل سیدنا معاویہؓ نے عمرہ کے موقع پر مروہ پہاڑی کے قریب نبیؓ کے سر کے
بال مبارک بھی تراشے۔ اس سلسلہ میں کئی احادیث مبارکہ بھی وارد ہیں اور
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی اس حقیقت کی تائید کرتے ہیں۔ ان
حضرات کے ایمان لانے کے بعد نبیﷺ نے سیدنا ابوسفیانؓ کے گھر کو دارالامن
قراردیا۔ خیال رہے کہ اس وقت خانہ کعبہ کو بھی دارالامن قرار دیا گیا تھا۔
بنیادی دینی تعلیم کے فقدان کے باعث بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ
سیدنا ابوسفیانؓ نبیﷺ کے سُسر، سیدہ ہندؓ نبیﷺ کی ساس اور سیدنا یزیدؓبن
ابوسفیانؓ و سیدنا معاویہؓ بن ابوسفیانؓ نبی ﷺ کے برادر نسبتی ہیں کیوں کہ
ام المومنین سیدہ ام حبیبہؓ سیدناابوسفیانؓ و سیدہ ہندؓ کی دختر نیک اختر
اور سیدین یزیدؓبن ابوسفیانؓ و معاویہؓ بن ابوسفیانؓ کی بہن ہیں۔سیدنا ابو
بکر و عمررضی اللہ عنہما نے حضرت یزیدؓ بن ابو سفیانؓ کو کئی جنگوں میں
امیر بنا کر کفار کے مقابلہ پر بھیجا۔ سیدنا معاویہ ؓ نے نبیؓ سے براہ راست
163 احادیث مبارکہ روایت فرمائی ہیں۔ نبیﷺ نے متعدد مواقع پر سیدنا معاویہؓ
کے بارے میں دعائیں ارشاد فرمائیں، آپؓ کو کاتب قرآن مقرر فرمایا، آپؓ کو
کئی خطور اِملا کروائے۔ اور نبیﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ میری امت کا پہلا
لشکر جو بحری جہاد کا آغاز کرے گا اس پر جنت واجب ہے۔ اور یہ ایک ناقابل
تردید حقیقت ہے کہ سیدنا عثمانؓ کے دور خلافت میں بحری جہاد کاآغاز سیدنا
معاویہؓ نے کیا اور 500 بحری جہازوں کے ساتھ جزیرہ قبرص پر علمِ اسلام بلند
کیا۔ سیدنا عمرؓ وعثمانؓ کے دور خلافت میں آپؓ شام کے امیر رہے۔ اور سیدنا
حسنؓ کی چھ ماہ کی خلافت کے بعد جب سیدنا حسنؓ نے آپؓ کی بیعت فرما لی تو
آپ امت مسلمہ کے متفقہ خلیفہ کے منصب پر رونق افروز ہوئے۔ ساتھ ہی نبیﷺ کی
یہ پیش گوئی کہ اللہ حضرت حسنؓ کے ذریعہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح
کروا دے گا، پوری ہوئی۔ پھر تقریباً 20 سال تک سیدنا معاویہؓ خلیفہ رہے اور
نصف سے زائد دنیا یعنی 65لاکھ64ہزار مربع میل پر پرچم اسلام لہرایا۔ اسی
دور خلافت میں اسلام مکران، افغانستان، چارسدہ و باب خیبر (پاکستان)،
افریقہ، قسطنطنیہ، قبرص وغیرہ تک پہنچا۔ یہ تو سیدنا معاویہؓ اور ان کے اہل
خانہ کا انتہائی مختصر تعارف تھا۔ سیدنا معاویہ ؓ کے بارے جو اعتراضات کیے
گئے اب ان پر اختصار سے باری باری چند سطور زیب قرطاس کرتے ہیں۔
اس کالم میں کالم نگار نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق تحریر کیا کہ
(۱)حضرت معاویہؓ نے اولاد کے معاملہ میں کمزوری دکھائی اور آزمائش پر پورے
نہ اتر سکے۔
(۲)انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محض اپنے اقتدار کے لیے جنگ کی اور
(۳)اپنے بعد اپنے بیٹے کی حکمرانی کا رستہ بھی ہموار کیا۔ اور پھر کالم
نگار نے خود ہی سوال وارد کیا کہ
(۴)کیا یہ تاریخ کا حصہ نہیں کہ اسلام میں ملوکیت و بادشاہت کا بیج حضرت
امیر معاویہؓ کے فیصلے نے بویا؟
سیدنا معاویہؓ نبیؓ کے صحابی ہیں اور صحابی کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ اپنا
سب کچھ نبیﷺ کے لائے ہوئے دین اور اتباع رسول پر ہمہ دم قربان کر دینے کو
مستعد رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے بیٹے سے دوران
گفتگو کہا کہ اگر تم جنگ میں میرے سامنے آتے تو میں تمہیں بیٹا سمجھ کر
معاف نہ کرتا بلکہ دین کا دشمن سمجھتے ہوئے قتل کر دیتا۔ اور سیدنا عمرؓ نے
بھی اپنے بیٹے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان پر حد جاری فرما دی تھی۔ سیدنا
معاویہؓ بھی اسی قافلہ ¿ صحابیت سے تعلق رکھتے تھے جو کہ ہمہ وقت اپنے مربی
و نبیﷺ کی تعلیمات کو حرز جاں بنائے رکھتا تھا تو وہ کیسے اپنی اولاد کے
معاملہ میں کمزور ہو سکتے ہیں اور کیسے آزمائش پر پورے نہ اتر سکے؟ پھر یہ
کہنا کہ سیدنا معاویہؓ نے اپنے بیٹے کی حکمرانی کا رستہ بھی ہموار کیا،
انتہائی زیادتی اور حقائق سے عدم واقفیت ہے۔ یہاں ایک بات ذہن میں رکھنی
چاہیے کہ صحابہ کرامؓ کی حیات مبارکہ کو عام انسانوں کی مانند نہیں پرکھنا
چاہیے کیوں کہ صحابہ کرامؓ انبیاءکے بعد سب سے افضل و اشرف مخلوق ہیں اور
ایسے عظیم انسان کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہی ان سے اپنی رضا و جنت کا
اعلان قرآن کریم کی آیات بنا کر فرما دیا۔ انتخاب خلیفہ کے لیے یہ کوئی شرط
نہیں کہ اپنے بیٹے کو خلیفہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر دین میں ایسی کوئی
ممانعت ہوتی تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ لازماً واضح طور پر اس سے منع فرما
دیتے۔ بوقت شہادت زخمی حالت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سیدنا حسنؓ کو
خلیفہ بنانے کے متعلق پوچھا گیا تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ
میں یہ کہتا ہوں اور نہ ہی اس سے منع کرتا ہوں۔ ذرا سوچیے کیا یہ بات منصب
و مقام صحابیت کے خلاف نہیں کہ جس بات کو غلط سمجھے برملا اس کا اظہار کر
دے۔ پس سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ بیٹے کو
خلیفہ منتخب کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اور قرآن و سنت کے معیار پر تاریخ
کا مطالعہ یہ حقیقت اظہر من الشمس کر دیتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ
نے شفقت پدری سے مغلوب ہو کر یزید کو خلیفہ کے عہدہ کے لیے نہیں مقرر
فرمایا تھا بلکہ بذریعہ شوریٰ یہ کام سر انجام دیا گیا۔اس سے یہ بھی پتہ
چلا کہ سیدنا معاویہؓ کے منصب صحابیت اور تربیت رسولﷺ سے یہ بات بالا تر ہے
کہ وہ اپنے بیٹے کی حکمرانی کی راہ ہموار کرنے میں امت مسلمہ کو مصروف
کریں۔ اور باپ کے بعد بیٹے کا منصب خلافت پر آنا ملوکیت /بادشاہت نہیں۔ عصر
حاضر میں شاذ و نادر ہی کوئی ایسی سیاسی و مذہبی جماعت یا دینی و دنیاوی
منصب ہے جہاں باپ کے بعد بیٹے کو نامزد نہیں کیا جاتا۔ مگر اس طرز عمل کو
کوئی ملوکیت یا بادشاہت سے تعبیر نہیں کرتا محض صحابی رسول پر زبان و قلم
کی توانائی صرف کی جاتی ہے۔
ایک اعتراض یہ بھی کیا گیا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے اقتدار کے
لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی۔ یہ بھی قرآن و سنت کو پس پشت ڈالتے
ہوئے تاریخ سے تمسک کا نتیجہ ہے۔ اوپر ہم نے ایک حدیث مبارکہ ذکر کی ہے جس
سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیدنا حسنؓ کا سیدنا معاویہؓ کے دست مبارک پر بیعت کرنا
نبیﷺ کی اس پیش گوئی کا مصداق ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ دونوں
جماعتیں یا گروہ مسلمانوں کی بڑی تعداد پر مشتمل ہوں گی کہ نبیﷺ نے دونوں
کو بڑی جماعت سے تعبیر کیا ہے کسی ایک جماعت کو دوسری جماعت پر فضیلت نہیں
دی۔پھر یہ کہنا تو انتہائی نامعقول بات ہے کہ سیدنا معاویہؓ نے سیدنا علیؓ
سے حصول اقتدار کے لیے جنگ کی۔ اصل مسئلہ قصاص عثمانؓ کا مطالبہ تھا۔ سیدنا
علیؓ و سیدنا معاویہؓ کے مابین صرف یہ اختلاف تھا کہ قصاص عثمانؓ کس وقت
لیا جائے؟ سیدنا علی ؓ کا خیا ل تھا کہ پہلے بیعت مکمل ہو جائے پھر قصاص
لیا جائے گا جبکہ سیدنا معاویہ ؓ اس رائے کی حامی تھے کہ پہلے شہید و مظلوم
خلیفہ کا قصاص لیا جائے پھر بیعت کی تکمیل کی جائے۔ یہ دونوں بزرگ صحابہؓ
اپنے مو ¿قف کو صحیح سمجھتے تھے اور اس سے دست برداری کو اللہ کے ہاں گنا ہ
تصور کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ محض رضاءباری تعالیٰ کے لیے اپنے اپنے مو
¿قف پر ڈٹے رہے۔ دونوں طرف تقریباً برابر تعداد تھی۔ اور یہی وہ حقیقت ہے
جو قرآن و سنت کے معیار پر تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتی ہے۔اس نازک دور
میں شاہ روم نے سمجھا کہ اب مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں تو اس نے سیدنا علیؓ
پر عقبی علاقہ سے حملہ کا ارادہ کیا تو سیدنا معاویہؓ نے اس کو لکھا کہ او
رومی کتے! اگر تو نے علیؓ کی طرف قدم بڑھایا تو علیؓ کی فوج کا پہلا سپاہی
معاویہؓ تیرا مقابلہ کرے گا۔ یہ للکار اور سیدنا علیؓ سے سیدنا معاویہؓ کا
پیار دیکھ کر رومی بادشاہ دبک گیا۔ ارباب عقل و دانش اس سے سمجھ سکتے ہیں
کہ ان دونوں کاتبین وحی اور جلیل القدر صحابہؓ کے مابین اختلاف ذاتی نوعیت
کا نہ تھا بلکہ محض قصاص عثمانؓ پر تھا۔
آخر میں ہم پھر انتظامیہ روزنامہ امت سے درخواست کریں گے کہ اپنی صفوں سے
ایسے عناصر کو نکال دیں جو اسلام و پاکستان کے وفادار نہیں اور جو امت
مسلمہ کے مسلّمہ مسائل کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کر کے انتشار و افتراق
کی فضاءپیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جب کہ اس نازک دور میں اتحاد بین المومنین کی
اشد ضرورت ہے۔اللہ اسلام و پاکستان کو عزت و تحفظ عطا فرما دے، اٰمین۔ |