اختلاف بجا لیکن ملکی وقار اپنی جگہ

وطنِ عزیز میں ایک عجیب رسم چلی ہے کہ جس کو کسی سے شکایت ہے یا کسی پر بجا یا بے جا الزام لگانا ہو تو بجائے قانون کا سہارا لینے کے فوراَ َمیڈیا کا رخ کیا جاتا ہے شایداسکی وجہ یہ ہے کہ قانون عام آدمی کی پہنچ سے بہت دور ہے اور اسکی پیچیدگیاں اُسکی سمجھ سے بالا تر ہیں اور ساتھ ہی اُس کے پاس غمِ روزگار کے بعد اتنا وقت بھی نہیں بچتا کہ وہ عدالتوں کے چکر کاٹے، وکیلوں کے اخراجات بھگتائے لہذا اُس کے پاس آسان ذریعہ یہی رہ جاتاہے کہ وہ میڈیا کا رُخ کرے اور اپنے مسائل اور اپنا خوف اتنا مشتہر کرے کہ نقصان کی صورت میں ثبوت مہیارہے۔

عام آدمی کی حد تک تو اگر یہ سب درست نہیں تو قابلِ قبول ضرور سمجھا جاسکتا ہے لیکن خود کو قانون کے ماہر سمجھنے والے بھی جب یہ راستہ اپنا ئیں تو حیرت ضرور ہوتی ہے کہ پسِ پردہ کچھ اور عوامل اور مقاصدتو کارفرمانہیں۔ابھی حال ہی میں پاکستان کی مشہورومعروف وکیل ، سپریم کورٹ بار کی سابقہ صدر اور انسانی حقوق کی علمبردار محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ نے اپنی جان کے خوف کا اظہار کیا ہے اور یہ خوف انہیں سکیورٹی ایجنسیزسے ہے ۔ وزارتِ دفاع نے اِس بات کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہو ئے انہیں سکیورٹی دینے کی پیشکش کی جسے ا نہوں نے لینے سے انکار کردیا۔ یہ اقرار اور انکاران کا حق ہے کہ وہ یہ سہولت حاصل کریں یا نہیں اور شک کا اظہار بھی اُن کا حق ہے لیکن کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ بطور قانون دان وہ کسی ایسے فورم کا انتخاب کرتیں جہاں انکی یہ بات سنجیدگی سے لی جاتی اور صرف کسی کو بدنام کرنے کی کوشش نہ گردانی جاتی ۔ سکیورٹی اداروں کے بارے میں ایسے شکوک اور شبہات کا اظہار اب اہمیت حاصل کرنے کا ایک حربہ نظر آتا ہے۔ ملک میں جہاں کچھ ہوااُسے فوراََخفیہ اداروں کے سر تھوپ دیاجاتا ہے۔ کراچی میں سیاسی جماعتوں کی گڑبڑ ہے تو خفیہ اِدارے، شمالی علاقاجات میں فرقہ ورانہ چپقلش ہے توخفیہ اِدارے، بلوچستان میں دوقبائل کی لڑائی ہے تو خفیہ ادارے ۔میںیہ ہرگز نہیں کہتی کہ خفیہ اِدارے کسی چیز میں ملوث نہیں ہونگے کچھ نہ کچھ انکے حصے میں ہوگا لیکن یوں ہر غلط کام کا الزام اِنہی پر دھرنے سے ہم دوسرے مجرموں کو کھلی چھٹی دے رہے ہوتے ہیں۔ اب خفیہ اِداروں کی آڑ میں کوئی کچھ کرتا پھرے اور آزاد رہے اپنے موجودہ جرائم پر بھی اور مستقبل کے جرائم پر بھی ۔ لہذا اصل مجرم تک پہنچنے کی کوشش ضرور ہونی چاہیے اور یہ رویہ بھی ختم ہونا چاہیے کہ مسائل کی خواہ مخواہ کی تشہیر کی جائے اس طرح انہیںگلیمرائز توکیا جاسکتا ہے حل نہیں اور محترمہ عاصمہ صاحبہ جیسے جو خود کو رہبری کے قابل اور حقدار سمجھتے ہیںانہیں اسطرح کے مسائل کو اُجاگر کرنے کے لیے نہ صرف خودایک درست راستہ اختیار کرنا چاہیے بلکہ اُس عام آدمی کی بھی مدد کرنی چاہیے جو بیچارہ قانونی پیچیدگیوںسے خوفزدہ اور پریشان ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ میڈیا نے بہت سارے مسائل کو سامنے لا کر کم ازکم ان کی اہمیت سے ا ٓگاہی پیدا کر دی ہے لیکن عاصمہ جہانگیر کے الزام کے معاملے میں خدانخواستہ اس کے زیادہ مضر اثرات ہو سکتے ہیں آج معاشرے میں کسی کی جان محفوظ نہیں اور اگر ہم اس طرح کے الزامات کو یوں سرعام کسی کے سر تھوپ دیں گے تو دیگر عناصر ان حالات کا فائدہ اٹھا کر بھی بری الذمہ قرار پا سکتے ہیں تو کیا اس کے لیے بہتر نہ ہوتا کہ عاصمہ جہانگیرخود اپنے ادارے یعنی سپریم کورٹ پر ہی بھروسہ کرلیتی اور بجائے مذکورہ اعلان کرنے کے وہاں سے قانونی تحفظ حاصل کرلیتی ۔ کیونکہ اُن جیسی شخصیات جتنی ایک طبقے میں مقبول ہوتی ہیں اتنی ہی دوسرے طبقے میں غیرمقبول ہوتی ہیں۔ اگرچہ میں عاصمہ صاحبہ کے سامنے ہر لحاظ سے طفلِ مکتب ہوں لیکن پھر بھی ان سے التماس ہے کہ خود بھی ایسے مسائل میں اپنی سوجھ بوجھ کو بہتر طریقے سے استعمال کریں اور دوسروں کی بھی رہنمائی کریں اور ساتھ ہی اپنے اِداروںکی تذلیل کرنا چھوڑدیں جیسا کہ وہ اکثر قومی سلامتی کے اِداروں سے شاکی رہتی ہیںکیونکہ اگریہ ادارے نہ ہونگے تو آپ ہرگزاس ملک کی حفاظت نہ کرسکیںگی۔ قانون دان کا کام قانون کی حکمرانی ہے تو ملک کی حفاظت ایک بہت اہم فریضہ ہے جو یہ ادارے اداکررہے ہیں۔شخصیات سے اختلاف کیجیے وہ آپکا حق ہے لیکن جس طرح آپکا ادارہ قابل تعظیم ہے اُسی طرح ملک کا ہر ادارہ قابلِ عزت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آپ سپریم کورٹ سے ناراض ہوکر بھی اس پر عدمِ اعتماد ظاہر کرچکی ہے﴿میموگیٹ کے کیس میں﴾ اختلاف اپنی جگہ لیکن ملکی وقار اپنی جگہ اس سے بڑھ کر اہم ہے-
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552614 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.