صحرائے ِتھل

تحریر-:محمداکرم اعوان

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مالا مال دھرتی ِپاک جسے مالک ِکائنات نے اپنی بے پناہ رحمتوں، برکتوں سے نوازاور اپنی کبریائی کا اظہار، عالم ِجہاں کے بلندپہاڑ، وادیاں،خوبصورت ترین مناظر، بلند برفانی چوٹیاں ( گلیشیئرز) ،میدان ،ندی نالے،دریا، دُنیا کے بہترین آبپاشی نظام پرمشتمل ان دریاﺅں سے جاری طویل نہریں،سمندر اوربے مثال قدرتی بندرگاہیں،پسندیدہ موسم (گرم،سرد،بہار،خزاں) عطاءکئے وہیں اپنے بے پناہ خزانوں سے مالا مال وسیع وعریض صحرا ﺅں سے بھی نوازاہے۔

جغرافیائی اعتبار سے صحرائے ِ چولستان اور صحرائے ِتھر سے مشابہت رکھنے والا صحرائےِ تھل، دریائے ِجہلم اور دریائے ِسندھ کے درمیانی حصّہ" سندساگر دوآب "کے مقام سے شروع ہوکر 305کلومیٹر شمالاََجنوباََپھیلا ہوا ہے۔صحرائے تھل کی آبادیاں روڈہ تھل ، منکیرہ تھل، دُلے ولاتھل،شاہ والا،شاہی شمالی،پپلاں،کندیاں،کوٹ اعظم،رنگ پور،بگھور، آ د ھی کو ٹ، ماڑی شاہ صغیرہ، نورپورتھل ،بھکر،خوشاب، میانوالی، جھنگ، لیہ ، مظفرگڑھ کے نواحی علاقوں پر مشتمل ہیں اوریہاں کے بااثرقبائل میںسید،سیال ،چھینہ ، بھچر،بلوچ،ٹوانہ،بگھور،گاہی ، آ ہیر ، لاشاری ،راجپوت،کھر،کھوکھر،کلواوردیگر زمیندارقبیلے شامل ہیں۔
 

image

حدِ نگاہ تک لق و دق اور ہموار ریگزار میںدُور اُفق سے طلوع ِ آفتاب کے دلکش اور ناقابلِ فراموش نظارے کے دوران ،پہاڑ، درخت کوئی چیز درمیان میں حائل نہ ہونے کے سبب ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ُسورج اس دھرتی سے جنم لے رہا ہو۔ اسی طرح شام ڈھلے،پرندوں کا اپنے ٹھکانوں کو لو ٹنا اور دن بھر آگ برساتے سورج کی پُرتھکن اور پُرعطاطاقت کے باوجود دُوردُور تک الوداعی سُر خی بکھیرتی نوید ِقمراورسکونِ شب کی ندا دیتی کرنوں کا تھل کی نیم پتھریلی ریت پر ٹکرانا مکین اور مسافرکے الوداعی قلابے جیسے یاد گارجذباتی منظرکے بعد صحرائے ِتھل کی پُرسکون رات میں چاند، ستاروں کے آپس میں تعلق کا نظارہ اور چاندکی مٹھاس چکھنے کاصحیح معنوں میں تجربہ کرنے کے لئے بھی صحرا سے بہتر کوئی مقام نہیں۔

اس پورے خطہ ءکا موسم سردیوں میں شدید سرداور گرمیوں کے موسم میں دن کے وقت شدید گرم جبکہ کہ رات کو ہوا چلنے کی وجہ سے یہاں کاموسم نسبتاََ خواشگوارہوجاتا ہے ۔گرمیوں میں جوں جوں سورج بُلند ہوتا ہے، یہاں کا درجہ حرارت بڑھنے سے صحرا ایک تپتے جھلستے آوے میں بدل جاتا ہے ۔

ملک کے دیگرحصّوں کی نسبت یہاں بارش بہت کم ہوتی ہے۔ صرف جولائی سے ستمبر تک جب مُون سُون کی ہوائیں چلتی ہیںتو یہاں بارش ہوتی ہے۔ اور یہ اِنتہائی قلیل مقداربارش سال بھرکی پیاسی دھرتی کی شدت ِپیاس کے لئے ناکافی ہوتی ہے۔اس کے علاوہ یہاں پوراسال بارش بالکل نہیں ہوتی۔صحرائے تھل کی گرم،بے آب وگیاہ اورمدتوںسے پیاسی دھرتی کی شدتِ پیاس یہاں بسنے والے لوگ ہی جان سکتے ہے ۔

یہ لوگ بند باندھ کر بارش کا پانی محفوظ کرتے ہیں جسے اپنے اور جانوروں کو پلانے کے لئے استعمال میں لاتے ہیں۔جبکہ زیر ِزمین پانی کی ابتدائی تہہ کھاری ، ناقابل ِ استعمال ہے اور میٹھا پانی بہت زیادہ گہرا ہے۔ ریتلی زمین ہونے کے سبب کنوﺅں کی میٹھے پانی کی سطح تک کھودائی کے دوران مٹی گرنے کے حادثات کی وجہ سے یہاں گہرا کنواں کھودناجوئے شیر لانے کے مترادف اور مشکل ترین کام ہے۔ کہ اکثراوقات اس کوشش کے دوران ریتلی مٹی کا گرنا جان لیوا حادثہ ثابت ہوتا ہے۔
 

image

صحرائے ِتھل کی بیشتر آبادی خانہ بدوش ہے۔ یہ لوگ (بن)جوہڑوں میں ذخیرہ شُدہ پانی ختم ہونے کے سبب اپنے مال مویشیوں کو ہانک کرکسی اور جگہ پر پانی کی تلاش میں نکلتے ہیں اور جہاں پانی میسر آئے وہیں ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ پُختہ گھرتعمیر نہیں کرتے۔ ان کے گھر کچی دیواروں، لکڑی اور گھاس کے چھت اور جھونپڑی نما ہوتے ہیں۔یہاں کے گھر ہی صرف سادہ نہیں بلکہ یہاں کے لوگوں کا طرز ِزندگی بھی سادہ اور منافقت سے پاک ہے۔

یہاں کے لوگوں کارہن سہن، رسم ورواج ، لباس انتہائی سادہ اوریہاں کی زبان دُنیا کی میٹھی ترین سرائیکی زبان ہے جبکہ کئی حصّوں میں پنجابی بھی بولی جاتی ہے۔یہاں کا روایتی لباس لمبے جوتے اور لمبے کھلے شلوار قمیض،بھاری پگڑی جبکہ نوجوان پگڑی کی بجائے شیشہ دار مرحابی ٹوپی پہننے کو ترجیح دیتے ہیں۔
صحرائے ِتھل کے نواحی علاقوں کے لوگ آج بھی نقل وحمل اور مال برداری کے لئے اونٹ، گھوڑے و دیگرجانوراستعمال کرتے ہیں۔ان کا پیشہ کاشت کاری ،اُونٹ بھیڑ،بکریاں پالناہے۔ اس طرح سے اس علاقے کے لوگ ملکی سطح پر گوشت کی ضروریات کوپورا کرنے میں بھی ایک طرح سے بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

اس خطہ ءکے لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ تیتر، بٹیر، مرغابی، چکور، ہرن، ہُریاڑ، خرگوش سمیت دیگرخطرناک جنگلی جانوروں کا شکارہے۔ اس کے علاوہ یورپ،وسط ِ ایشیائ،ہندوستان، ہمالیہ کے پہاڑی سلسلہ سمیت دُنیابھر کے سرد علاقوں سے ہرسال ہزاروں پرندے ہجرت کرکے صحرائے ِتھل کے خشک ریتلے علاقے کا رُخ کرتے ہیںتو ساتھ ہی اس علاقے میں ملک بھر سے شکارکے شوقین حضرات کی آمدکا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے ۔

1873سے مختلف وجوہات اورمصلحتوں کی وجہ سے تاخیرکا شکارصحرائے تھل کی آباد کاری اوریہاں کی خشک مگرزخیز زمین کی آبپاشی اور اسے قابل ِکاشت بنانے کے لئے دریائے سندھ سے نکالی جانی والی نہر" گریٹرتھل کینال "کی تکمیل کے بعداب اس علاقے کا کچھ رقبہّ قابل ِ کاشت بننے اور پانی میسر آنے سے لوگوں نے سکھ کاسانس لیا۔یہاں کی فصلوں میں گندم، جوار ، باجرہ، سرسوں،تارامیرا،گووارہ، کالے اور سفید ہردوقسم کے چنے پاکستان سمیت دُنیابھر میں مشہور اور معیشت کی ترقی میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔
 

image

اس ریگزار میں ہروقت تیز آندھی اور ہواچلنے کی وجہ سے ریت سڑک کو ڈھانپ لیتی ہے اور سڑک کی بجائے خودرو، راستہ(پگڈنڈی) محسوس ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کے لوگ رات کی بجائے دن کے وقت سفرکرنے کوترجیح دیتے ہیں۔لیکن شدید گرمی کے موسم اور سورج کی تپش میں جب دن کے وقت سفر کرنا ممکن نہ ہوتوصحرائے تھل کے لوگ رات کے وقت، سفر کے دوران راستے کی پہچان ، دُرست سمت کا تعین اوراندازہ ستاروں کو دیکھ کر ہی لگاتے ہیں۔

اس خطہءکے لوگوں کی زندگی میں قیامت کی جفاکشی ہے۔یہاں کے لوگ دراز قد، خوبصورت، صحت مند،مضبوط جسم کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ حوصلہ ا ورمزاج بھی مانندِوسعت ِصحرا رکھتے ہیں۔ کہ یہاں کے باسی اس بیکراںویرانے اور بے رنگ زندگی کے باوجوداُجاڑ دِل ہونے کی بجائے زندگی سے لُطف اندوز ہونے کے ہُنرسے واقف ہیں۔

صحرائے ِتھل کی نرم ریت کے سخت جان لوگوں کی صفت ِ وفا کا ثبوت اور اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے۔کہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی صاف پانی، صحت، تعلیم جیسے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہونے کے باوجود کسی قیمت پر بھی یہاں سے کسی اور شہر یا علاقے میں منتقل ہونے کی بجائے یہیں سکونت پر ترجیح دیتے ہیں۔

صحرائے ِ تھل کے لوگ صدیوں سے یہاں آباد ہونے کی وجہ سے کلچر، لوک ورثہ ، روایات، موسیقی اور ڈانس میں منفرد اور الگ پہچان رکھتے ہیں۔ اسی طرح صحرا کی وسعتوں سے جنم لیتی شاعری میںجہاں کُوک ،ہُوک ،طرز ِ کُونج کے نالہءہجر و فراق کااظہار ِحقیقی ہے وہیںپیار،محبت،خلوص اور وفاکے عہدوپیماں نبھانے کی داستانوں کا حسین و لطیف امتزاج بھی موجود ہے۔

لگی والیاں نو ں نیند نئیں آﺅندی
تیری کیویں نی اکھ لگ گئی
رات چن دی تے اُڈد ا چکور سی
روندا پیار وِچ پیہلاں پا کے مور سی
ڈاروں وچھڑ کے کُونج کُرلاندی
لگی والیاں نو ں نیند نئیں آﺅندی
تیری کیویں نی اکھ لگ گئی

صحرائے ِتھل کے مختلف حصوں میں مدتوں سے ہر سال فصل کی کٹائی کے بعد مشہورومعروف میلوں کا انعقاد کیا جاتاہے ۔ جن میں "میلہ بابا سیدن شاہ " نورپوتھل اور "میلہ پیر شاہ صغیرہ " ماڑی شاہ صغیرہ قابل ِ ذکر ہیں۔ ان میلوں میں شرکت کے شوقین سال بھر بے چینی سے منتظرو بے تا ب نظر آتے ہیںاورمیلہ شروع ہونے سے کئی روز پہلے مختلف علاقوں کی پیدوار ودیگر سامان یہاں پہنچنا شروع ہوجاتاہے۔ان میلوں میں کبڈی، والی بال، رسہ کشی، نیزا بازی اور مختلف کھیلوں کے علاوہ موسیقی ،ڈانس دیگر ثقافتی اور رنگا رنگ تفریحی پروگرام ترتیب دئیے جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ صحرائے ِتھل کی تلخ زندگی کو کچھ دنوں کے لئے بھول کراس علاقے میں منعقدہونے والے ہر میلے میں بھرپورطریقے سے شریک ہوکر خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔

صحرائے ِتھل کے قصبہ جات اور دورافتادہ علاقہ میں بسنے والے بے یارو مددگار لوگ جوروزگار ، تعلیم،صحت،پختہ سڑک،پانی اور دوسرے بنیادی انسانی حقوق سے محروم،انتہائی پسماندگی کی زندگی گزارنے کے باوجود ،دہشت گردی، خودغرضی،افراتفری، احتجاج کے بہانے سرکاری اور نجی املاک کونقصان پہنچانے،غصب کئے گئے حقوق کے حصول کےلئے روزبروز بلندہوتی صداﺅں کے موجودہ دور میں بھی،جلسہ، جلوس سے بے خبر اور بے پرواہ ہوکر پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار انتہائی خاموشی سے ادا کررہے ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی سمیت تما م بنیادی ضرورتوںکی یقینی دستیابی کابندوبست کرتے ہوئے اس خطہءکو ہرطرح کی پسماندگی سے نجات دلانے کے لئے اپنی ترجیحات میں شامل کرے اور میانوالی ،لیہ،بھکر،مظفرگڑھ میں سیلاب متاثرین کے لئے "ماڈل و ِلیج " کی طرزپر شروع کئے گئے ، عوام دوست اورفلاحی منصوبے میں توسیع کرتے ہوئے پورے تھل کے غریب ومظلوم عوام کو گھر مہیا کرے۔ کہ آگ براستے صحرائے ِتھل کے مضافات اور نواحی علاقوں میں ، آب ودانہ کے لئے دربدربھٹکتے لوگ بھی آخراِسی" مملکت ِ خدادادپاکستان" کے شہری ہیں۔
MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 97419 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.