دہلی ہائی کورٹ میں جامعہ نگر
تھانہ کے ایس ایچ او مسٹر ستیہ ویر ڈاگر نے ایک حلف نامہ (IE: 12 June)میں
کہا ہے کہ اس تھانہ علاقے کے باشندگان سرکار، پولیس اور قانون کا زرہ بھر
بھی احترام نہیں کرتے۔ ہرچند کہ یہ کوئی انوکھا انکشاف نہیں ہے، تاہم لائق
افسر نے بیان حلفی میں یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اس علاقے میں اکثریت اقلیتی
فرقہ کے کم پڑھے لکھے لوگوں کی ہے اور زرا سی پولیس کاروائی پر فرقہ ورانہ
بنیاد پر لام بند ہوجاتے ہےں۔ اس سے یہ غلط تاثر پیدا ہوتا ہے کہ پولیس پر
اعتماد اور قانون کا احترام نہ ہونے کا کچھ تعلق اس بات سے بھی ہے کہ علاقہ
میںایک خاص فرقہ یا طبقہ کی اکثریت ہے ۔یہ تاثر درست نہیں ہے۔ صحیح بات یہ
ہے کہ ملک بھر میں پولیس اور قانون کے تعلق سے صورتحال ایسی ہی ہے اور یہ
ایک فطری بات ہے کہ جہاںجس طبقہ یا فرقہ کی اکثریت ہوگی وہاں پیش پیش اسی
کے افراد نظر آئیں گے۔ اب اگر جامعہ نگر کے علاقے میںکوئی واقعہ پیش آتا ہے
تو اس علاقے کے باشندے ہی آگے آئیں گے۔ہر جگہ یہی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر
ابھی بہار میں برہمیشور مکھیا کے قتل پر جوپرتشدد احتجاج ہوا، اس میں اعلا
ذات طبقہ کے ہندو آگے تھے۔ ہریانہ کے مرچ پور گاﺅں میں دلت لڑکی سمن اور اس
کے والد کو زندہ جلائے جانے کے بعد دلت سماج کے لوگ ہی احتجاج کےلئے جمع
ہوئے تھے اور کسان لیڈر مہندر سنگھ ٹکیٹ کی سربراہی میں کئی مرتبہ کسانوں
نے پر تشدد مظاہرے کئے تھے۔ اس طرح کے مواقع پر تشدد کا تعلق بھی کچھ اس
بات سے نہیں کہ مظاہرین کتنے تعلیم یافتہ ہیں ۔ اسی سال فروری میں کرکڑڈوما
کورٹ کے وکلاءکے احتجاج کے دوران نصف درجن سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی ہوئے
اور ان کی دو گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔یہ ان ڈگری یافتہ لوگوںکا مظاہرہ
تھا جو قانون سے خوب واقف ہیں اور ٹکراﺅ پولیس سے ہوا تھا جو قانون کی
محافظ سمجھی جاتی ہے۔
چنانچہ ان واقعات کی بنیاد پر یہ نتیجہ تو نہیں نکالا جاسکتا کہ بہار کے
اعلاذات کے ہندو، یا ہریانہ کے دلت یا یوپی کے کسان قانون اور پولیس کا زرہ
برابر بھی احترام نہیں کرتے۔ قاعدہ یہی ہے کہ جس پر چوٹ پڑتی ہے وہی روتا
ہے اور اسی کے متعلقین جمع ہوتے ہیں۔ چنانچہ کسی خاص طبقہ یا فرقہ کو
نشانزد کرنے کے بجائے سماج اور پولیس دونوں کو یہ غور کرنا چاہئے کہ اس
صورتحال کی اصل اسبات کیا ہیں؟کیوں لوگوں نے پولیس اور قانون پر بھروسہ
کرنا بند کردیا؟ انگریزوں کے دور میں تھانے کے ایک سپاہی بلکہ بسا اوقات
ایک مقامی چوکیدار کاجو رعب عوام کے اوپرہوتا تھا، اب وہ افسران اور حکام
کا بھی کیوںنہیں رہا؟
چند اہم وجوہات
اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ یہ جمہوریت کا دورہے۔ عوام میں اپنے
حقوق کے بارے میں بیداری آئی ہے۔ گاندھی جی نے ان کو یہ سبق سکھا دیا ہے کہ
وہ نا انصافی کا خلاف خاموش نہ بیٹھیں، بزدلی نہ دکھائیں اور متحدہوکر اس
کا مقابلہ کریں۔ ان کے اسی سبق نے پوری قوم کو انگریز جیسی جابر حکومت کے
خلاف کھڑا کردیا تھا ۔ چنانچہ آزاد ہندستان کے باشندوں میں یہ حوصلہ پیدا
ہوگیاہے کہ وہ زیادتیوں اور ناانصافیوں کے خلاف متحد ہوکر کھڑے ہو جاتے
ہیں۔ پولیس کے خلاف اگر ان میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے اور وہ عموماً
پولیس کو شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں تو اس میںکچھ مبالغہ تو ہوسکتا ہے، مگر
اکثر وجہ اس کی خود پولیس کا رویہ ہے۔پولیس میں اچھے افسران بھی ہیں،جو
عوام سے رابطہ میں رہتے ہیں اور لوگ ان پر بھروسہ کرتے ہیں، لیکن عموماً
پولیس کا رویہ شکایت کا باعث ہوتا ہے۔
عوام میں قانون کی عدم پاسداری پر تشویش کااظہار بجا ہے، لیکن افسوس کی بات
یہ ہے کہ ہماری جمہوری نظام میں عام طور سے خود سرکاری مشینری کا رویہ صاف
نہیں۔بیجا جانبداری کی شکایات عام ہیں۔رشوت خوری اور سیاسی مداخلت نے
معاملات کو مزید سنگین کردیا ہے۔ اس سے بھی سنگین بات یہ ہے عوام کی چنی
ہوئی سرکاریں ، جن کے ماتحت پولیس کام کرتی ہے، خود قانون کی پامالی میں
ملوّث پائی جاتی ہیں۔ اگر یہ کہا جاتا ہے کہ ملک بھر میں قانون کے محافظین
ہی قانون کی پامالی میں پیش پیش ہیں تو اس میں مبالغہ تو ہوسکتا ہے، لیکن
اس الزام کو یکسر مسترد نہیںکیا جاسکتا۔ایسی صورت میں عوام سے کسی بہتر
رویہ کی امید کیونکر کی جاسکتی ہے؟
یو پی کی تازہ مثال
سرکاری مشینری کے ہاتھوں سنگین قانون شکنی کی ایک تازہ مثال حال ہی میں اتر
پردیش میں پیش آئی ہے جہاں اکھلیش یادو کی سرکار میں اقلیتی فرقہ سے تعلق
رکھنے والے ایک بڑے لیڈر بطور کلیدی وزیر چھائے ہوئے ہیں۔ 23 مئی کو جامعة
الفلاح، بلریا گنج ، ضلع اعظم گڑھ کے دو طلباءوسیم بھٹ اور سجاد بھٹ کیفیات
ایکسپریس سے دہلی کےلئے روانہ ہوئے۔ 24مئی کی صبح 6.30بجے جب ٹرین علی گڑھ
ریلوے اسٹیشن پہنچی تو پولیس کے چندمسلح افراد نے ڈبے میں گھس کر ان
طلباءکودبوچ لیا۔ جب مسافروں نے اعتراض کیا تو کہا گیا کہ ان کا تعلق یوپی
پولیس کے انسداد دہشت گردی دستے (اے ٹی ایس) سے ہے اور یہ طلباءدہشت گردی
کے کسی معاملے میں مطلوب ہیں۔ چنانچہ ان طلباءکوٹرین سے اٹھالیا گیا اور
پانچ ، چھ دن تک ان کا کچھ پتہ نہیںچلا۔
بیشک پولیس کو یہ حق ہے کہ مشتبہ افراد کو اپنی حراست میں لیکر پوچھ تاچھ
کرے، لیکن اس کے بھی کچھ ضابطے اور قانون ہیں۔ مثلاً گرفتاری کرنے والااپنی
سرکاری ڈریس میںہو، اس کے نام کی پلیٹ نمایاں ہو اور گرفتاری سے پہلے وہ
اپنی شناخت کرائے۔اپنی ڈایری میں اس مقام اور وقت کا ٹھیک ٹھیک اندراج کرے
اور 24گھنٹے کے اندرملزم کو عدالت میں پیش کرکے ریمانڈپرلے اور اسی دوران
اس کے اہل خاندان کو اس کی اطلاع دے۔وغیرہ۔ مگر وسیم اور سجاد کو نہ تو کسی
مقامی عدالت میں پیش کیا گیا، نہ ریمانڈ پر لیا گیا اور نہ ان کے اہل
خاندان اور جامعہ کو اس کی اطلاع دی گئی۔ دوسرے دن مقامی اخباروں میں جب یہ
خبر چھپی کہ کیفیات ایکسپریس سے یو پی اے ٹی ایس نے دہشت گردی کے معاملے
میں دو طلباءکو پکڑا ہے، تب جامعہ کے ذمہ داروں اور بعض صحافیوں نے لکھنو
اور اعظم گڑھ میں پولیس کے اعلا ذمہ داروں سے رابطہ کیا اور سب نے اپنی
لاعلمی کا اظہار کیا۔ اٹھائے جانے کے چھٹے دن 30مئی کو کشمیر پولیس نے ان
کی گرفتاری جموں ریلوے اسٹیشن سے دکھائی ۔ یہاں اس واقعہ کی جملہ تفصیلات
بیان کرنا مقصود نہیں ہے ۔ مقصود یہ نشاندہی کرنا ہے کہ ملک بھر میں قانون
کے محافظ کس حد تک قانون کی سنگین پامالیوں میں ملوّث ہیں۔یو پی پولیس کی
طرح کشمیر پولیس بھی یہ بتانے کو تیار نہیں ہے کہ ان لڑکوں کوکس نے ٹرین سے
اٹھایا تھا اور کس طرح علی گڑھ سے جموں لایا گیا؟ ان پانچ دن کے دوران ان
کو غیر قانونی حراست میں کہاںرکھا گیا؟ ان میں سے اگر کوئی اس کو پہلے سے
مطلوب تھا ،اس کو باضابطہ طلب کیوں نہیں کیا گیا اور جامعہ کو کیوں مطلع
نہیںکیا گیا کہ ایک طالب دہشت گردی کے معاملے میں مطلوب ہے؟
یہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے
یہ ایک الگ بات ہے کہ ان طلباءکو تعلق اقلیتی فرقہ سے ہے،لیکن یہ سچائی کسی
سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ فرضی اینکاﺅٹر ہو چاہے حراستی اموات ، چاہے بیجا
گرفتاریاں، ان کا شکار کسی مخصوص فرقہ یا طبقہ کے ہی لوگ نہیں ہوتے بلکہ ہر
خطہ ، ہر فرقہ اور ہر طبقہ کے لوگ اس کی زد میں آتے ہیں۔پنجاب میں سکھ
نوجوانوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا، شمال مشرقی ریاستوں میں اور کئی
دیگرریاستوں میں ہندوﺅں اورآدی باسیوں کے ساتھ کیا کچھ ظلم نہیں
ہوتا۔چنانچہ اس طرح کے واقعات پر فرقہ پرستی کا لیبل لگادیناٹھیک نہیں۔وسیع
تر پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ قانون کے محافظوں کے ہاتھوں انسانی حقوق
اور ملک کے باشندوںکے قانونی حقوق کی پامالی کے معاملے ہیں۔مختلف عنوانات
سے ملک بھر کے عوام ، جو ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات کرتے ہیں،
اسی طرح نشانہ بنائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں پولیس اور حکومت
کا کوئی احترام باقی نہیں رہ گیا ہے۔
عوامی سرکار کی بے حسی
جمہوری نظام حکومت میں عوام کے دکھ درد کی خیر خبر لینے کی ذمہ داری ان کی
نمائندہ سرکاروں کی ہوتی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پولیس و انتظامیہ
سے بڑھ کر عوام کی نمائندہ سرکاریں خود قانون کی پرواہ نہیں کرتیں اور نفاذ
قانون کی ایجنسیوں کی قانون شکنیوں کی پردہ پوشی کرتی ہیں۔اس کی مثالیں جا
بجا مل جائیں گی۔ وسیم اور سجاد کا معاملہ بھی بطور مثال پیش کیا جاسکتا
ہے۔ اس معاملہ کوپیش آئے ہوئے دو ہفتہ سے زیادہ گزر چکے ہیں مگر ایسی کوئی
خبر نہیں کہ یوپی کی سماجوادی سرکار نے تادم تحریر (13جون)اس پر کوئی
سنجیدہ نوٹس لیا ہو۔ حد تو یہ ہے کہ ان طلباءکے علی گڑھ اسٹیشن سے اٹھائے
جانے کی خبر کے حوالے سے جامعہ کے سربراہ مولانا طاہر مدنی نے 25مئی کو جو
فیکس یوپی کے وزیر اعلا کو بھیجا تھااس پر فوری کاروائی تو دور کی بات ،
سرکار نے کوئی رسید بھی نہیں دی ۔ یہ حال اس عوامی نمائندہ سرکار کا ہے جس
نے یہ وعدہ کیا تھا دہشت گردی کے الزام میں بغیر ثبوت ظلماًگرفتار سبھی
نوجوانوں کو فوری رہا جائے گا۔ ان کی رہائی تو کیا ہوتی ، مزید گرفتاریوں
اور قانون کی پامالیوں کا سلسلہ تک بند نہیں ہوا ہے۔ایسی صورت میں اگر عوام
حکومت اور پولیس کا احترام نہ کریں تو آخر قصور کس کا ہے؟
غیر قانونی تعمیرات
مسٹر ڈاگر نے اپنے بیان حلفی میں بجا طور پریہ نشاندہی کی ہے اس علاقے میں
بہت سار ے مسائل غیر قانونی تعمیرات کی وجہ سے بھی پیدا ہورہے ہیں۔ لیکن اس
طرح کی غیر قانونی تعمیرات کہاں نہیں ہورہی ہیں؟ دہلی کے ہر علاقے میں ان
کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے نتیجہ میں یہ مسائل بھی ہر جگہ پیدا ہورہے ہیں۔
اسکے لئے خاص جامعہ نگر کو نامزد کرنا درست نہیں۔ اب غیر مجاز کالونیوں میں
اگر غیرقانونی تعمیرات ہورہی ہیں تو اس کےلئے بھی رہایش کے ضروت مند شہری
نہیں بلکہ سرکار کی ڈھل مل پالیسی ذمہ دار ہے۔ کیوں حقائق سے آنکھیں بند
کرکے خیالی ماسٹر پلان کاخواب دیکھا جاتا ہے ؟یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ
قومی راجدھانی کی سرکار ضرورت کے مطابق رہائشی سہولتیں فراہم کرنے میں بری
طرح ناکام ہوچکی ہے۔ اب جبکہ ہرسیکٹر میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے اصول
کو تسلیم کرلیا گیاہے سرکار چھوٹے سرمایہ داروں کےلئے تعمیراتی سیکٹر میں
راہ کیوں نہیں کھولتی ہے؟ اس وقت ان کالونیوں میںکیا ہورہا ہے؟ جس کے پاس
پلاٹ ہے وہ بلڈر سے معاملہ طے کرتا ہے۔ بلڈر بھی بڑے سرمایہ دار نہیں بلکہ
تھوڑی تھوڑی پونچی والے کئی کئی لوگ مل کر عمارت تعمیر کراتے ہیں ۔ اس سے
بلڈروں کو ہی نہیں دیگرہزاروںلوگوں کوبھی روزگار ملتا ہے، روپیہ کا
سرکولیشن بڑھتا ہے اور ضرورتمندوں کو حسب گنجائش سر چھپانے کو ٹھکانہ مل
جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ہورہا ہے مگر سرکار اس بات کےلئے آمادہ نہیں کہ یہ کام
پلاننگ کے ساتھ ہوجائے اور بلڈنگ کی تعمیر سے پہلے اس کو نقشہ منظور
ہوجائے۔ اگر سرکار جمود سے باہر آکر ان کالونیوںکو منظوری دیدے تو ان کے
باشندگان بخوشی ترقیاتی فنڈ اور پراپرٹی ٹیکس دینے پر آمادہ ہیں ، جس سے
سرکار کو خطیر رقم مل سکتی ہے۔ یہ جو چھوٹے چھوٹے کم سرمایہ کے بلڈر ان
کالونیوں میں رسک اٹھا رہے ہیں وہ بھی اپنی چھوٹی چھوٹی کمپنیاں بناکر
محفوظ کاروبار کرسکتے ہیں جس سے سرکار کی آمدنی بھی بڑھے گی۔ ہمارے خیال
میں لائق پولیس افسرمسٹر ڈاگر نے اپنے بیان حلفی میں جو مسائل بیان کئے ہیں
ان پر مثبت انداز میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا حل علاقے کے باشندوں کے
پاس نہیں بلکہ سرکار کے پاس ہے۔ باشندگان علاقہ تو باعزت طور پر رہنے کے
خواہش مند ہیں۔ سرکار اورپولیس کو ہی اپنا رویہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ مسٹر
ڈاگر نے باٹلہ ہاﺅس انکاﺅنٹر کا بھی ذکر کیا ہے ،جس پر بہت کچھ لکھا اور
کہا جاچکا ہے۔ ہم صر ف اتنا ہی عرض کردیں کہ اگر پولیس نے علاقے کے ذمہ
داروںکو اعتماد میں لیکر کاروائی کی ہوتی تو یہ سانحہ رونما نہیں ہوتا اور
قانون کے تقاضے بھی پورے ہوجاتے ۔معاملے کی عدالتی جانچ سے انکار کرکے اور
مقدمہ کی کاروائی کو طول دیکر حکومت نے شکوک و شبہات کو مزید تقویت پہنچانے
کا کام کیا ہے۔ اس طرح کے واقعات کا ردعمل فطری بات ہے اور اس کا اثر بھی
دیر تک رہتا ہے۔(ختم) |