ہوسٹل لائف اور اس کے اثرات

بیٹا اب میرے لیے مصیبتیں اور پریشانیوں اور بھی بڑھ گئی ہیں ،پہلے ہی بڑی مشکل سے جنید جو راولپنڈی میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کی تعلیم دینے والے ایک ادارے میں 3rd ایئر کا طالب ہے کے کالج کی فیس،ہاسٹل فیس اور ماہانہ اخراجات کی مد میں ہزاروں روپے بڑی مشکل سے ادا کر رہا تھا کہ اب جب پھل پکنے کا وقت قریب آ رہا ہے تب مجھے نا امیدی اور اپنی محنت ضائع ہوتے ہوئے دکھائی دے رہی ہے ۔یہ الفاظ تھے 42 سالہ محمد ارشادکے جو ایک سیالکوٹ میں سپورٹس کی مصنوعات تیار کرنے والی فیکٹری میں اکاﺅنٹس کے شعبے میں گزشتہ 7سال سے کام کر رہے ہیں چندماہ قبل مجھے ملنے آئے تھے،تب وہ بتانے لگے کہ ان کی ماہانہ آمدن 18ہزار روپے ہے جس کیلئے وہ صبح آٹھ بجے سے رات آٹھ بجے تک کام کرتے ہیں اور بعض اوقات ان کو رات گئے تک بھی کام کرنا پڑتا ہے ،چاربچوں میں جنید واحد لڑکا ہے جبکہ باقی تینوں لڑکیاں ہیں ان میں سے ایک جنید سے عمر میں بڑی ہے جو آبائی شہر میں گورنمنٹ کالج میں ماسٹرز کر رہی ہے جبکہ باقی دونوں بچیاں میٹرک اور انٹر میں ہیں۔جنید کو شروع سے پرائیو یٹ سکول میں پڑھایا گیا اس نے ذہانت اورادارے کی محنت کے بل بوتے پر میٹرک اعزازی نمبر سے پاس کی تو خاندان کے دیگر معززین نے مشورہ دیا کہ بچے کو کسی بڑے شہر میں اچھے کالج میں داخل کروا دیں،جنید کی دلچسپی ٹیکنیکل تعلیم کی طرف تھی اور اس کے بعض کلاس فیلوز نے بھی مشورہ دیا کہ راولپنڈی کے ایک معروف ٹیکنیکل ادارے میں وہ بھی داخلہ لے رہے ہیں اس لیے جنید کو بھی وہیں داخلہ دلوا دیں،داخلہ تو ان کے کہنے پر کروا دیا لیکن ادارے کے اپنے ہاسٹل میں تو جگہ ندارد تھی سو باقی لڑکوں کے ساتھ جنید نے بھی پرائیویٹ ہاسٹل میں رہائش رکھ لی ،ماہانہ 5 ہزار روپے ہاسٹل کے اخراجات کے علاوہ کالج کی فیس اور دیگر لوازمات کی مد میں قریباً10ہزار روپے کم سے کم ماہانہ اس کے اخراجات ہیں جبکہ گھر کے ہم باقی افراد 8ہزار میں گزر اوقات اور اپنے لوازمات ادا کر رہے ہیں ،لیکن گزشتہ ماہ جب مجھے کالج انتظامیہ میں سے ایک با اعتمادشخص نے مجھے فون کیا ،اپنا تعارف کروایا اور مجھے کسی دن ادارہ ہذا میں آنے کا کہا لیکن ساتھ یہ پابندی بھی لگائی کہ کالج آنے کی اطلاع جنید کو نہ ہو پائے ،میں نے دو دن بعد ہی چھٹی لی اور کالج پہنچ کر متعلقہ سٹاف ممبر سے ملاقات کی، اس مہربان نے مجھے جنید کے متعلق جو معلومات دیں وہ سن کر میرے پاﺅںتلے جیسے زمین ہی نکل گئی ،میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ گھر میں پانچ وقت کی نماز پڑھنے والا بچہ اب جمعہ کی نماز کو بھی کبھی کبھار ہی جاتا ہے ،کلاس میں نمایاں پوزیشن لینے والا بچہ گزشتہ امتحان میں بری طرح فیل ہوا ہے اور کالج میں اس کی حاضری بھی انتہائی کم ہے ،مجھے معلوم تک نہیں کہ جھگڑا کرنے پر وہ تھانہ تک بھی جاچکا اور اس سب کے بعد سگریٹ وغیرہ پینا اس کیلئے کوئی بڑی برائی معلوم نہیں ہو رہی تھی ۔ وہ لمحات میرے لیے ایسے تھے کہ مجھے اپنی محنت و دیگر گھر والوں کی قربانی ڈوبتی ہوئی نظر آئی ،مجھے اپنے بیٹے پر یقین نہیں ہو رہا تھا کیونکہ ہماری ہر ہفتے فون پر بات ہو جایا کرتی تھی اس لیے میں نے اپنے طور پر جنید کے دوستوں اور کلاس فیلوز سے معلومات لینے کے علاوہ ہاسٹل انتظامیہ سے معلومات لی تو مجھے ان معلومات پر یقین ہو گیا جو مجھے دی گئی تھیں ،کالج انتظامیہ نے فیصلہ مجھ پر چھوڑ دیا کہ بچے کو یہاں سے ہٹا دیں یا یہیں رکھ دیں ۔ میں واپس گھر آرہا تھا کہ خاندان والے مہربانوں اور گھر والوں سے مشورہ کر سکوں کہ اب بیٹے کاکیا کِیا جائے۔۔! راستے میں اخبار پر آپ کا کالم پڑھنے کو ملا ساتھ رابطہ نمبر بھی لکھا ہوا تھا، آپ سے فون پر رابطہ کیا اور گھر اور خاندان والوں سے پہلے آپ سے مشورہ لینے پہنچ گیا ۔محمد ارشادخان نے گیند کو میرے ناتواں کندھوں پر ڈال دیا، اب میرے لیے فیصلہ کرنا اور ان کو بہتر مشورہ دینا خاصامشکل تھا کیونکہ ایک ایسے نوجوان کی زندگی جس پر کل گھر کی بھاری ذمہ داری پڑنا تھی ،جس نے کل اپنے باپ کا ہاتھ مضبوط کر کہ خود کی اور اپنی تین بہنوں کی شادی کرنا تھی اس کے مستقبل کے بارے میں مجھ سے مشورہ لیا جارہا تھا میں نے محمد ارشاد خان کو مشورہ دیا کہ بیٹے کو پہلی فرصت میں گھر بلا دیں ،آرام وسکون کے ساتھ سب گھر والوں کی موجودگی میں بچے کو تمام حالات سے آگاہ کریں،آمدن اور گھریلو خرچ کی تفصیل اس کو بتائیں تا کہ وہ آمدن و اخراجات کا موازنہ کر سکے اور اس کو دیگر افراد کی اس کیلئے دی جانے والی قربانی کا احساس ہو سکے، اس کے وقار کا خیال کرتے ہوئے اسکوآنے والے وقت میں اس کی ذمہ داریاں کا تفصیل سے بتادیں ،تعلیم مکمل نہ کرنے کہ نقصانات سے آگاہ کریں جس راہ پر وہ ابھی چل رہا ہے اس کی متوقع منزل کے بارے میں بتائیں اور آخر میں اس سے تجویز لیں کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں کیا فیصلہ کرتا ہے ۔۔۔!جو وہ فیصلہ کر دے اگر جائز ہو تواس کو ہی تسلیم کر لیں۔اگر نہ ہو تا پاسپورٹ بنوا کر فوری طور پرکہیں دیار غیر میں مزدوری کیلئے بھیج دیں شاید یہی اس کے اور آپ کے حق میں بہتر ہو ۔

ہاسٹل لائف اور گھریلو لائف پر غور کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو بنی نو انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہوتی ہیں،جیسے انسان کو زند ہ رہنے کیلئے انرجی کی ضرورت رہتی ہے اور انرجی کیلئے خوراک کی ضرورت رہتی ہے اسی طرح انسان کو جسم ڈھانپنے کیلئے لباس او ر سر ڈھانپنے کیلئے رہائیش کی بھی انتہائی ضروری ہے ،اپنا گھر اس دنیا میں گوشہ جنت کی مانند ہوتا ہے لیکن وقت و کام کی تیز رفتاری کی وجہ سے موجودہ وقت میں انسان نے خود کو اپنے مسکن سے دور کر دیا ہے ،پڑھائی،کاروبار،ملازمت اور دیگر بہت سے معاشرتی عوامل کی وجہ سے شہروں میں نقل مکانی ایک معمول سا بن چکی ہے ،شہروں میں سب کو گھر ملنا ناممکن سا ہے اس لیے ملازمت پیشہ افراد اور طلبائ( بشمول خواتین طالبات) کی ایک بڑی تعداد ہوسٹلز میں رہائش پذیر ہو جاتے ہیں ،ہوسٹل سے ملازمت پیشہ افراد اور طلباءکی رہائیش کی ضروریات تو پوری ہو جاتی ہیں ۔ہوسٹل کی اگر تفصیل جاننا چاہیں تو جان لیں کہ ہوسٹل ایک بڑی سی عمارت ہوتی ہے جہاں پر مشترکہ مفادات ومقاصد کے لوگ نظریہ ضرورت کے تحت مل جل کر رہتے ہیں ،ہوسٹل مالکان ماہانہ کرایہ وصول کر کہ انہیں کھانے پینے ،سونے اور دیگر سہولیات گراہم کرتے ہیں ،ہوسٹل کے ایک کمرہ میں دو سے لے کر عموماً آٹھ افراد تک رہتے ہیں ،ہوسٹل میں زیادہ تر ایسے افراد رہائیش پذیر ہوتے ہیں جو فرد واحد ہوتے ہیں جہاں ایسے بہت سے افراد ساتھ مل کر رہتے ہیں بڑے بزرگوں اور والدین کا سایہ یہاں سر پر نہ ہونے کی وجہ سے وہ آزاد پنچھی کی طرح موج مستی کرتے ہیں،زیادہ تر دیکھنے میں آتا ہے کہ ہوسٹل انتظامیہ برائے نام ہی چیک اینڈ بیلنس رکھتی ہے ،قواعد و قوانین اور پابندیاں رسمی سی اور زیادہ تر کاغذات کی حد تک ہی ہوتی ہیں ہوسٹل مالکان کو اپنے کرائے سے مطلب ہوتا ہے ۔کام کاج کے بعد آنے والوں اور سکول، کالجز اور یونیورسٹیز سے آنے والے ہوسٹل رہائیشیوں کے پاس فرصت ہی فرصت ہوتی ہے ،فرصت کے وقت میں انٹرٹینمنٹ ہی واحد راستہ ہوتا ہے جس کیلئے بعض منفی سرگرمیاں سامنے آ جاتی ہیں جن میں منشیات ،موبائل پیکجزاور انٹرنیٹ کا غلط استعمال اس کے علاوہ بھی بے شمار ایسے مشغلے اور برائیاں شامل ہیں جو ان میں بگاڑ پھیلانے کا باعث بنتی ہیں اس کے علاوہ ہوسٹل کے یہ طلباءآزاد پنچھیوں کی مانند مل کر پارکوں ،مارکیٹوںاور سیروسیاحت کی جگہوں پر ''ڈیٹ مارنے کے نام پر'' جاتے ہیں اور وہاں فیملیوں کو تنگ کرنا ،موبائل کیمروں سے تصاویر اور دیگر ایسے کہیں مشغلے کرتے ہیں جن سے میری شاید واقفیت تک نہیں ہے ۔یہاں ایک بات کا ذکر میں خاص طور پر کرنا چاہوں گا کہ ہوسٹلز میں رہنے والی لڑکیوں میں لڑکوں کی طرح جس طرح منشیات کا استعمال اور اس کی خرید و فروخت بڑھ رہی ہے وہ انتہائی خطرناک ہے کیونکہ ان ہوسٹلز میں جب کوئی ایک آدھ لڑکی ایسے کسی کام میں ملوث ہو جاتی ہے تو آہستہ آہستہ یہ لت پورے ہوسٹل میں پھیل جاتی ہے ،یہی لڑکیاں اپنے گھروں میںمصوم سی ہوتی ہیں ہوسٹلز میں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی فیشن میں حدیں تک کراس کر جاتی ہیں ،جو لڑکیاں کھاتے پیتے گھرانے سے ہوں وہ تو با آسانی نئے نئے فیشن کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں لیکن متوسط اور کم متوسط طبقے کی لڑکیاں متبادل راستوں سے اخراجات پورے کرنے کی دوڑ میں لگ جاتی ہیں جس کی وجہ سے برائیوں میں اضافہ ہونا لازمی امر بن جاتا ہے کیونکہ معاشرے میں ایسے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں جو ان لڑکیوں کی جائز و ناجائز فرمائیشیں پوری کر کہ انہیں استعمال کرنے کی تاک میں ہوتے ہیں ۔ہوسٹلز میں جو بھی طلباءرہتے ہیں ان میں سے زیادہ تر کو گھر کی طرف سے جو اخراجات کی مد میں رقم دی جاتی ہے اس سے یہ بمشکل اپنا گزر بسر ہی کر پاتے ہیں اس لیے منشیات اور دیگر انٹرٹینمنٹ کے اخراجات پورے کرنے کیلئے ان متعلقہ طلباءمیں چھوٹی چھوٹی چوریوں کی عادت بھی پڑ جاتی ہے جو آہستہ آہستہ انہیں عادی مجرم تک بنا دیتی ہے ایسے طلبہ کا پڑھائی سے دھیان کم ہو کر دوسری طرف مائل ہو جاتا ہے ،رات گئے تک تفریحی پروگراموں کے ساتھ ساتھ فون پر لمبی لمبی کالز ان کا معمول بن جاتا ہے ،صرف یہی نہیں پوری پوری رات جاگنا ،بے وقت کھانا پینا ،،غیر اخلاقی گفتگو ،انٹر نیٹ پر غیر اخلاقی سائیٹس کا استعمال معمول بن جاتا ہے۔گھر کے افراد سے دوری ان ہوسٹل زدہ لوگوں کو معاشرتی طو ر پر بے حس سی بنا دیتی ہے ۔معاشرتی طور پر جو نقصانات ہوسٹل لائف کہ تو نقصان ہیں ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ غیر متوازن اور بے وقت کھانے پینے اور جاگنے سونے سے صحت پر بھی انتہائی مضر اثرات پڑتا ہے ،سستی اشیائے خوردونوش اور مصالحہ جات کے بے جا استعمال اور کچی پکی خوراک سے ہوسٹل میں رہنے والوں میں معدے ،السر اور دیگر پیٹ کے امراض لاحق ہو جاتے ہیں ۔مشاہدے میں آیا ہے کہ و طلبہ میٹرک میںبہت اچھے نمبرات حاصل کر تے ہیں کالج میں ہوسٹل میں رہ کر پڑھتے ہیں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ انٹر اور بیچلر میں ان کا رزلٹ ویسا شاندار نہیں رہتا جس کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ محمد ارشاد کے بیٹے جنید کی طرح لاکھوں طلبہ کو نا سمجھی و کم عمری میں ہی آزادنہ ہوسٹلزمیں آزادانہ نہیں نہ چھوڑا جائے،ایسے کہیں واقعات خبروں کی زینت بنتے دیکھے ہیں جن میں ہوسٹلز میں رہنے والے لڑکے اور لڑکیاں کسی غیر اخلاقی سرگرمی کے باعث اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں جس سے والدین کی عزت خاک میں مل جاتی ہے اس لیے والدین کو چاہیے کہ ہوسٹلز کی عمارت اور یا انتظامیہ کی چاپلوسی پر ہی نا جائیں بلکہ یہ دیکھیے کہ ہوسٹل لائف ان کے بچوںکیلئے کتنے مفاد میں رہے گی اور کیا نقصان دے گی ،دوسری طرف ہوسٹل مالکان کی طرف دیکھا جائے تو زیادہ تر مالکان صرف پیسوں کے پجاری ہوتے ہیں جو چرب زبانی سے معصوم لوگوں کو بھلا بھسلا کر بچوں کی ذمہ داری اٹھا تو لیتے ہیں لیکن بلیک میلنگ ،منشیات سمگلنگ طریقہ کار،فراڈ اور دیگر ایسی برائیوں میں بھی یہی پھنسا دیتے ہیں ۔یہاں پر یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ تمام ہوسٹلز کا ماحول خراب نہیں ہوتا اور تمام طلبہ ہوسٹلز میں رہ کربھٹکتے بھی نہیں ،بہت سے ایسے ہونہار طلبہ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ہاسٹلز میں رہ کر بھی اخلاقیات کو برقرار رکھا اور اعزازی نمبرات سے بورڈز اور یونیورسٹیز میں پوزیشنز حاصل کیں لیکن ایسے طلبہ کی تعداداونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہوتی ہے اس لیے اس زیرہ کو خاطر میں رکھتے ہوئے اپنے بچوں کو دلدل میں نہیں ڈالا جا سکتا ۔

محمد ارشاد کا چند دن پہلے پھر فون آیا تو انہوں نے اطلاع دی کہ جنید کو گھر بلاکر 2گھنٹے تک اس کے ساتھ نشست کی تھی ،بیٹے کو اب احساس ہو چلاہے کہ وہ گمراہی کے راستے پر چل نکلا تھا جس سے واپسی اب اسے مشکل ہو رہی تھی لیکن اس کوہماری مناسب حکمت عملی نے اسے ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹا دیا ہے ،اب اس نے واپس جاتے ہی ہوسٹل تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم کام شروع کر دیا ہے ۔اب محمد ارشاد خان کو تسلی ہو چلی ہے کہ اس کی محنت اور گھر والوں کی قربانی ضائع نہیں ہو گی ۔

نا جانے ہمارے ملک میں کتنے ہی جنید جیسے بچے ہیں اورمحمد ارشاد جیسے والدین ہیں جن کے بچے ہوسٹلز کے آزادنہ ماحول میں زیادہ ہی 'آزاد' ہو جاتے ہیں لیکن ان کے والدین خود ان کی نگرانی نہیں کرتے اور ان کو تب اطلاع ہوتی ہے جب پانی سر سے چڑھ جاتا ہے اس لیے والدین کو اپنی اولادوں کے مستقبل کے فیصلے کرتے ہوئے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے چاہیے اور اگر بچوں کو ہوسٹلز میں رکھنا انتہائی ضروری ہی ہے تو کم سے کم ان کی ماہانہ کارکردگی و کریکٹر رپورٹ کو اپنے ذرائع سے ضرور لینی چاہیے کیونکہ چند روپیوں کی بچت کی خاطر اپنی اولادوں کو اندھے کنویں میں دھکیلنا عقل مندی نہیں ہو تی ۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 59232 views Columnist/Writer.. View More