ہم غور نہیں کرتے، لیکن جب بھی
ہم کسی عالمی ادارے کی تعلیم پر کی گئی تحقیق پڑھتے ہیں تو دل ڈوبنے لگتا
ہے۔ ناخواندگی کا معاملہ ہو یا غربت کا مسئلہ، چائلڈ لیبر کی بات ہو یا
کرپشن کا معاملہ، ہر غلط اور برے کام میں پیارے پاکستان کا نام بہت نمایا ں
ہوتا ہے۔ گزشتہ دوتین دنوں میں ”جنگ“ میں شائع ہونے والی عالمی بینک کی
تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والے سات
ممالک میں سے ایک ہے۔ چائلڈ لیبر کی بات آئی تو بھی دنیا بھر میں پاکستان
پہلے دس ممالک میں سے ایک ہے، اوراگر کرپشن کا معاملہ ہوتا ہے تو پاکستان
نمایاں مقام پر کھڑا ہوتا ہے۔
اس معاملے کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ جن سات یا دس ممالک میں
پاکستان شامل ہوتا ہے ، ان کے نام ایتھوپیا، جمہوریہ کونگو، لائبیریا،
نائجیریا، صومالیہ، زمبیااورگنی وغیرہ جیسے ہوتے ہیں۔ لیکن ان ممالک کی
فہرست میں شامل ہونے پر وطن عزیز کے کسی طبقے کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی،
اورنہ ہی ان شرمناک معاملات سے نمٹنے کی کوشش کی جاتی ہے، دعووں کی حد تک
تو تعلیم واقعی حکمرانوں کی اولین ترجیح ہے، مگر عمل اس کے برعکس ہے ،بجٹ
میں مختص کی گئی رقم اور دعوے حکمرانوں کے قول وفعل کا کھلا تضاد ہیں۔
پنجاب حکومت اپنے طور پر تعلیم کے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دے رہی
ہے، ان کے پاس دانش سکول، پوزیشن لینے والے بچوں کے لئے لاکھوں روپے کے
انعامات ، مستحق طلبا کے لئے وظائف اور ادبی مقابلوں میں کروڑوں کے انعامات
جیسے اقدامات اظہار تفاخرا ور حصول تحسین کے لئے موجود ہیں۔ ان میں سے اکثر
پر مخالفین تنقید کے ڈونگرے برساتے رہتے ہیں، جن میں دانش سکول، لیپ ٹاپ
اور دیگر مقابلوں میں ضرورت سے بہت بڑے انعامات شامل ہیں۔
تعلیم کے میدان میں پنجاب حکومت کا سب سے بڑااور قابل تحسین اقدام پنجاب
ایجوکیشن فاؤنڈیشن ہے، اس کا قیام تو اس وقت عمل میں آیا تھا جب میاں نواز
شریف پہلی مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تھے ، تاہم اس کو
نئی(موجودہ) زندگی چوہدری پرویز الٰہی کے دور میں ملی ، جب پنجاب حکومت نے
فاؤنڈیشن کے ذریعے عمارت کے لئے قرضہ دینے کی بجائے کم فیس والے پرائیویٹ
سکولوں کے طلبہ کو مفت تعلیم دینے کا فیصلہ کیا۔ تب کے فاؤنڈیشن کے ایم ڈی
ڈاکٹر اللہ بخش ملک کی رہنمائی میں فاو ¿نڈیشن نے حکومتی اداروں میں ایک
نمایاں مقام حاصل کرلیا، میرٹ کے ذریعے منتخب ہونے والے سکولوں سے فاؤنڈیشن
کا کوئی عہدیدار اب بھی پانی کا گلاس نہیں پی سکتا۔
موجودہ حکومت نے بھی اس پروگرام کو جاری رکھ کر علم دوستی کا ثبوت دیا ، اس
سال کے بجٹ میں فاؤنڈیشن کے سکولوں کے لئے ساڑھے چھ ارب روپے مختص کئے گئے
ہیں، فاؤنڈیشن اس وقت تقریباًً چودہ سو سکولوں کی مالی معاونت کررہی ہے، جن
میں مانیٹرنگ کا سخت نظام قائم ہے، فاؤنڈیشن خود ان بچوں کا امتحان بھی
لیتی ہے۔ راجہ محمد انور کی قیادت میں اب یہ سکول معیاری تعلیم مہیا کررہے
ہیں، ان کی ذاتی دلچسپی سے سکولوں کو لائبریریاں اور لیبز فراہم کی جارہی
ہیں، ان کو کتابیں بھی مفت دستیاب ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت پنجاب
اپنے سرکاری سکولوں کو بہتر طریقے سے چلانے میں تمام تر کوششوں کے باوجود
ناکام ہے،سرکاری سکول کے بچے پر ڈیڑھ ہزار سے کم خرچ نہیں اٹھتا، جبکہ
فاؤنڈیشن کے ایک بچے پر شاید ایک ہزار روپیہ بھی خرچ نہ ہوتا جبکہ بچے کو
تعلیمی معیار سمیت تمام ضروری سہولتیں بھی دستیاب ہوتی ہیں۔حکومت کو چاہیئے
کہ وہ ناکام ہوجانے والے سرکاری سکول اور بقایا پرائیویٹ سکول فاؤنڈیشن کے
حوالے کردے ۔ راجہ انور ان سب کو لائن پہ لے آئیں گے، قوم کے بچے مفت اور
معیاری تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوسکیں گے، ترقی کی راہیں بھی خود ہی کھل
جائیں گی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک طرف پاکستان اپنے تعلیمی زوال
میں آخری حدوں کو چھو رہا ہے تو دوسری طرف پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو
عالمی اداروں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے، اور اسے مثالی قرار دیا
جارہا ہے۔اگر دنیا اس کو مان گئی ہے تو کیوں نہ اس مثال کو آگے بڑھایا
جائے۔ |