میں پیسے کمانے والی مشین بن گیا

مسائل ہیں ،پریشانیاں ہیں ،غربت بڑھتی چلی جارہی ہے ۔مجھے ایک دوست کابتایاہوا وہ واقعہ یاد آگیابتارہے تھے کہ کسی کسی کی تحریرمیں میں نے ایک دل کو ہلادینے والا واقعہ پڑھا اسلام آباد میں سفرکرتے ہوئے میرا گزر ایک چوراہے سے ہوا کیا دیکھتاہوں کہ ایک خاتون میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس بچے کو زور زور سے پیٹ رہی ہے ۔اتنی بے دردی ،بچہ بے بس پرندے کی طرح تڑپ رہاتھا۔مجھ سے رہانہ گیا ۔میں نے اپنی گاڑی سڑک کے ایک طرف روکی ۔اتر کر اس خاتون کے پاس چلاگیا ۔

خاتون؟کس سفاکی سے آپ اس ننھے سے بچے کو مارہی ہیں ؟اچھا یہ تو بتائیں اس کا جرم کیا ہے ؟کیا غلطی کردی اس نے؟

خاتوں:پاغل دا پتر نہ ہوے تے ۔کل دوپہری روٹی کھدی تے ہن فرمنگاں ۔کتھوں دیاں روٹیاں ،آپ ٹڈے بچ مروڑ پہ پینے ۔(یہ روٹی مانگ رہاہے ۔کل اس نے روٹی کھائی تھی آج پھر روٹی مانگ رہاہے میں کہاں سے لأوں ؟)
میں نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگائے توبہ کی ۔نہ جانے رونے کا ارادہ کرنے کے باوجود رو نہ سکا۔آنسو خشک ہوگئے۔سوچنے لگاکہ اس ملک کی بدحالی کا کیا عالَم ہوگاجس کے دارالحکومت میں ۲۴گھنٹے گزرنے کے بعد بھی ایک وقت کے ایک ہی روٹی مانگنا اتنابڑاجرم ہے کہ مارپیٹ و زدوکوب کے صعوبتیں جھیلنی پڑتی ہیں۔

اے ایوانوں کے مزے لوٹنے والو!غریب کی غربت سے مزاح کرنے والے ،یاد رکھو!تمہارا انجام دوسروں کے لیے عبرت کی داستان ہوگا۔ابھی وقت ہے ۔ان غریب ،نادار،غیور چہروں کے رونقوں کو مت چھینو!کہیں ایسانہ ہوکہ تمہاری داستان تک نہ ہو داستانوں میں ۔

میں جناب یوسف رضا گیلانی ،صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو اک فکر دیتاہوں ۔یادرکھو!جس کریم رب نے آپ کو صاحبِ منصب بنایاہے ۔اسی رب نے قارون و ہامان کو تاریخ کا عبرتناک درس بنادیا۔کہیں ایسانہ ہو کہ اس کے قہر کی ،اس کے عتاب سے آپ کی آتی نسلیں بھی نہ بچ سکیں ۔ہم لکھنے یا بولنے والے لوگ صرف کہہ سکتے ہیں ۔جہاد باالقلم ہمارا فریضہ ہے۔آپ سے میراکوئی زمین کا تنازع نہیں ،کوئی لالچ و طمع نہیں ۔اختلاف ہے تو وہ صرف اور صرف رعایاکی حق تلفی ۔کیا معلوم کسی صاحب منصب کی نظر پڑھ ہی جائے میری غیور ،عظیم ،نڈر ،بے باک ،خودار عوام کی آواز مضوط بلاک و اینٹوں سے بنے مضبوط ایونوں تک پہنچ ہی جائے ۔سوچیے گاضرور۔

محترم قارئین :مجھ سے کسی کا دکھ دیکھانہیں جاتا۔میں جب صبح آفس کے لیے نکلتاہوں ،رات کو واپس آتاہوں ۔مجھے یوں لگتاہے مجھے حالات نے پیسے کمانے والی مشین بنادیاہے ۔وہ رشتوں کا پاس ،وہ میل جول،سانجھی خوشیاں غمیاں ،نہ جانے سب کہاں چلاگیاکچھ پتاہی نہیں ۔حالانکہ میں ایک متوسطہ طبقہ سے تعلق رکھتاہوں ۔منوں وزن اُٹھائے جھرجھری پڑے بوڑھوں کو دیکھتاہوں تو تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے ۔لیکن محترم قارئین :یہی ٹھان لی ہے کہ جتنامیں کرسکتاہوں اتناکرتاہوں ۔

پیسے کمانے والی مشین کو فرصت ملے گی تو کچھ اور کریگی ۔۔۔۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 547576 views i am scholar.serve the humainbeing... View More