آ ج کل ہر طرف افرا تفری ،
گھریلو جھگڑے، اولا د کا نا فرمان ہو نا ، بے روز گاری، انتشار، شوہر کو
مٹھی میں رکھنا ،بے راہ راوی ،بے حیائی ،لوٹ مار، کرپشن ،غیروں کے سامنے سر
نیچا کر نے کی دوڑ، نظرآ رہی ہے اورآ ج ہر انسان ان کمزوریوں کو ختم کرنے
میں اپنا دن رات ایک کیئے ہو ئے ہے کہ ان کمزوریوں کو ختم کر کے اس کی
زندگی میں ایک نئی امید کی کرن اور زندہ دلی کی وہ چمک آ جا ئے جو اسے
دوسروں سے منفرد ،ممتاز ا ور اہم ترین بنا دے اور لوگوں کے ان بے اختیار
خوابوں ،خواہشات اوراسی کمی کا فائدہ نام نہا د علماءکر ام اور جعلی نجومی
و پیر اٹھا رہے ہیں جو اس معاشرے میں کثرت ے پائے جا تے ہیں اوریہی جعلی
نجومی و پیر اور عامل لوگوں کی زندگیوں سے کھیل ر ہے ہیں اور عوامی امنگوں
اور ان کے خوابوں کو روندتے جا رہے ہیں ان سب کے اشتہارات کو دیکھا جا ئے
تو ان میں کئی چیزیں مشترک نظرآ ئیں گی جن میں سب سے پہلے محبت میں
ناکامی،محبو ب آ پ کے”قدموں میں“ ۔محبت میں ناکامی کیوں، شوہر آ پ کی مٹھی
میں، ”ساس آ ئے گی راس“، سا س بہو کا جھگڑا”ہمیشہ کے لئے ختم،”عورتوں کی
مخصوصہ بیماریوں کا علاج،جادوٹونہ،کاروبار کا نہ ہو نا یا چلتے چلتے ٹھپ ہو
جانا، انعامی چانس غرض اس قسم کے ہزاروں مسئلوں کو حل کر نے والے اشتہارات
اور بینرز کیبل و اخبارات پر اشتہارات ہمیں روز کئی بار دیکھنے ،پڑھنے اور
سنے کو ملتے ہیں جن میں ہر قسم کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ”خصوصی عمل “
کیئے جاتے ہیں اور لوگوں کی مایوسیوں کی زندگیوں کو روشنی اور کامیابی میں
بدل دیا جاتا ہے ہر مسئلے کو خوشی میں تبدیل کر نے کے بلندو بالا دعوے کیئے
جاتے ہیں اور اس میں کئی ایسی چیزوں کو بھی بیان کیاجا تا ہے کہ اچھے بھلے
اور پڑھے لکھے لوگ بھی ان کے جال میں پھنس کر خود کو اور اپنی زندگی کے
ساتھ ساتھ اپنے روپے پیسے کو برباد کر لیتے ہیں اور ان ہی لوگوں کے کرشمے
ہیں کہ آ ج پویس بھی ان نام نہاد عاملوں کر گرد گھیرا تنگ کر نے سے مسلسل
ہچکچاہٹ کا مظاہر ہ کر رہی ہے اور اگر ان عاملوں کے ذاتی زندگی پر نظر
ڈورائی جائے تو یہ لوگ ملک میں موجود اکثر درباروں پر اورگلیوں بازاروں پر
نشہ کیئے ہوئے ملیں گے ۔اور تواور کئی کئی ماہ نہانا بھی اپنے لئے ”عذاب“
سمجھتے ہیں اور کئی ایسے بھی”سائیں“صاحب بھی درباروں اور سڑکوں پر بکثرت
نظرآ تے ہیں جوکئی کئی سال سے پانی سے ایسے دور ہیں جیسے زہر سے انسان دور
رہتا ہے یہ نہ تو اپنے جسم کی صفائی پر توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی اپنے
اردگرد کے ماحول کو بدلتے ہیں جو کہ صرف لوگوں کو اپنے جھانسے میں پھنسانے
کےلئے جال کا کام کر تاہے اگر اسی بات کو لیا جائے اور اس بات کو حقیقت مان
لیا جائے کہ اس طرح رہنے سے انسانی ضروریات اور خواہشات پوری ہو جاتی ہیں
تو ان لوگوں کی آ نکھیں کھولنے کےلئے یہ دین اسلام نے ہی فرمایا ہے کہ
”صفائی نصف ایمان ہے“ تو پھر یہ لوگ کس دعوے اور کس بنیاد پر خودی اپنی
حالت کو اس طرح رکھتے ہیں؟ کہ پاس جانا تو دور کی با ت ان کو دیکھنے سے بھی
گن محسوس ہو تی ہے اور یہ دنیاکے لوگوں کی مشکلات اس حالت میں ”حل “ کر تے
ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے بہروپیئے ہیں جو عوام کو ہماری قوم کو
ورغلانے میں مصروف ہیں اور حکومتی اقدامات کی ماری ہو ئی غریب عوام ان کے
نرغے میں آ جا تی ہے اور پھر ان کی من مانیاں پوری کر تے کر تے خو د ختم ہو
جا تی ہے اور کئی ایک ”پیر صاحب“ تو اپنے ”مرشدوں “ سے قربانی بھی لیتے
ہیںکبھی ان کی اولاد کی جانی قربانی سے کام چلایا جا تا ہے تو کبھی اس مرشد
کی بیوی کو اپنی شیطانی خواہشات کا نشانہ بنایا جا تا ہے اور پھر جب عزت ہی
ختم ہو جاتی ہے تو گھریلو مشکلات تو ویسے ہی ختم ہو جا تی ہیں ۔ اور ان بے
حسوں کے کارنامے اکثر ہمارے معاشرے کو پڑھنے کو ملتے ہیں اور زیادہ ترٹین
ایجزز اور گھریلو عورتیں ان کے شیطانی اقدامات کا نشانہ بنتی ہیں او ر دولت
کے ساتھ ساتھ اپنی عزت بھی گنوا بیٹھتی ہیں اور اگر ہمار ی نوجوان نسل کی
طرف دیکھا جائے جو آ ج کل پڑ ھائی کر رہی ہے وہ اپنی پڑھائی پر توجہ دینے
کی بجائے ان کو اپنا مرشد سمجھتے ہو ئے سب کام ان پر چھوڑ دیتی ہے کہ ”پیر
صاحب کو خوش کیا ہو ا ہے وہی اس مشکل سے نکالیں گے“ غرض کوئی بھی ان کے
ناپا ک جرائم سے بچا ہوا نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی معاشرے میں والدین
کی طرف عزت کی جاتی ہے اور ان کو وہ اعلی مقام اور احترام دیا جا تا ہے
جیساکوئی پیر صاحب ہوں ۔ آ ج ان کے کردار ان کی بر ہو تری کودیکھا جائے تو
آ ج یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ہمارے میڈیا نے ان کو ملکی عوام میں اس قدر
محترم بنا دیا ہے جیسے ا ٓ ج ملک کا کوئی کام بھی ا ن کے بغیر نہیں ہو رہا
اور ہمارے سیاستدان، شوبز والیاں ووالے(شوبز پرسن)، طلبائ، عورتیں ، مرد
غرض تمام کے تمام لوگ ان کے نام نہاد نعروں میں جاتے ہو ئے دکھائی دیتے ہیں
او رکئی ایک ”پیروں اور نجومیوں “ نے خاص طوراپنے اشتہارات میں ان لوگوں کے
ساتھ اپنی تصویر یں بھی دی ہو تی ہیں تا کہ لوگ ان کے پاس آ ئیں۔ کیونکہ
میڈ یا نے صرف اپنے پیسے کمانے کی ڈور میں آ ج صحیح و غلط اور اپنی عوام کی
فلاح و بہبود کو چھوڑ کر اور اپنی عوام کو راہنما ئی فراہم کر نے کی بجائے
اپنے لئے پیسے کو ہی ہر چیز بنا لیا ہے او ر ان بے حسو ں کو پروموٹ کرنا
شروع کر دیا ہے کہ جا ﺅ تم بھی عوام کو تکلیف دو اور ہمیں بھی ہمارا ”حصہ“(
اشتہارات کی مد میں) دو ۔ آ ج صحافیوں کو ان کے اداروں نے اشتہارات کی ایسی
بھوک دے دی ہے کہ وہ بس اسے پورا کر نے میں دن رات ایک کیئے ہو ئے رہتےہیں
اور غلط صحیح کا تصور اور حلال و حرام کا تصور اپنی اولاد کے لئے بھی بھول
چکے ہیں۔ آ ج مجھے بطور صحافی اس بات کا اقرار کر نے میںکو ئی عار محسوس
نہیں کہ ہمارے معاشرے میں موجود اخلاقی بیماریوں کو بڑھا نے میں ہمارے میڈ
یا نے بہت زیادہ کردا ر ادا کیا ہے کیونکہ ایک طرف تو ہم ان نام نہاد بے
حسوں سے چار پیسوں کے اشتہارات کے لئے اپنی عوام کو ان سے گمراہ کر وا رہے
ہیں تو دوسری طرف اگر کسی علاقے میں کو ئی بھی غلط کام ہو جائے(لڑکی بھاگ
جائے ، زیادتی ہو جائے یا کوئی بھی غیر اسلامی کام ہو جائے) تو ہمارا میڈ
یا اپنی رینکنگ کو بڑھانے کے لئے اس پر دستاویزی فلمیں، ڈاکومنٹری اور
خصوصی پروگرامز بناتا ہے دکھا تا ہے اور یہ باور کر واتا ہے کہ ایسا ہو جا
تا ہے اور دوسروں کو بھی ان اقدامات کی طرف ابھار تا ہے کہ ایسے بھی ہو
سکتا ہے یہ راستہ بھی موجود ہے جو اس فلم،ڈاکومنٹری میں دکھا یا گیا ہے اور
ضروری نہیں کہ اپنے والدین کی بات مانی جائے اپنی بھی تو زندگی ہے زندگی
اپنی مرضی سے گزارو، دل اپنا ۔۔۔۔۔زندگی اپنی۔۔۔۔،تو پھر ماں باپ۔۔۔۔۔غرض
ہمارا میڈیا اس مصیبت کے مارے خاندان کی مدد نہیں کر رہا ہوتا بلکہ اس
خاندان کو علاقے میں بدنام کر رہا ہو تا ہے جو تھوڑی بہت عزت وہاں رہ جا تی
ہے وہ بھی ختم ہو جا تی ہے جیسے پتہ نہیں ہو تا اسے بھی پتہ لگ جاتا ہے کہ
اس علاقے میں ایسا جرم ہوا ہے اور یہ زخم ایک تماشہ بن جاتاہے اور یہی کچھ
ہمارا میڈیا فیشن کے نام پر کر رہا ہے ہمارے ماڈلز جان بوجھ کر اور تھوڑے
سے پیسوں کے لئے اپنی عزت کو بلائے طاق رکھتے ہو ئے ماڈلنگ کر تے ہیں اور
کئی ایک نام کے کپڑے پہن کے ہمارے معاشرے کو یہ باور کر واتے ہیں کہ ”یہ
فیشن ہے“ آ پ کیوںایسا نہیں کر رہے ۔ مگر اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے معاشرے
میں موجود اخلاقی بیماریوں کا تو سدباب کر سکتے ہیں ۔ اس کے لئے ہمیں سب سے
پہلے اپنے اندر جھانکنا ہو گا اور اس کے بعد ہمارے میڈیا کو بھی اپنا قبلہ
درست کر نا ہو گا کہ کیوں صرف پیسے کی ڈور میں اور بریکنگ نیوز کے عذاب میں
ہم اپنی عوام کو بھٹکا رہے ہیں اور کیوں صرف چند ٹکوں کی خاطر ان نام نہاد
”شروفا ئ“ سے اپنی عوام کو ڈسوا رہے ہیں اور کیوں ان نام نہاد پیروں
نجومیوں کے اشتہارات لگا رہے ہیں جس سے عوام بھٹک کر اپنی سید ھی راہ
چھوڑکر ان کے پیچھے لگ رہی ہے اور دین اسلام کا وہ سید ھا راستہ چھوڑ ہی ہے
کہ ہر مسئلے کا ہر پریشانی کا حل صرف اور صرف قرآ ن پا ک میں موجود ہے۔ اس
کے ساتھ ساتھ ہمارے قانون نافذ کر نے والے اداروں کو بھی حرکت میں آ نا
چاہیئے اور ملک کے طول وعرض میں موجود ان تمام نام نہاد جعلی نجومیوں پیروں
کے خلاف بلا امتیاز کاروائی کر نی چاہیئے تا کہ آ ئندہ کو ئی بھی دین اسلام
کے راستے سے بھٹک نہ جائے٭٭٭٭٭٭٭٭ |