گزشتہ کئی برسوں سے یہ تجویز زیر
غور ہے کہ دنیا کے سب سے اونچے میدانِ جنگ سیاچن گلیشیر کو مستقل طور پر
غیر فوجی علاقہ قرار دیا جائے اور دونوں ممالک وہاں سے اپنی فوجیں واپس
بلائیں۔ 1984ءمیں اس علاقے کے ایک بڑے حصے پر بھارت کے قبضے کے بعد دونوں
ملکوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس میں سیاچن گلیشیر پر بھارتی قبضے سے
قبل کی پوزیشن بحال کرنے پر اتفاق کیا گیا جبکہ شملہ معاہدے میں بھی واضح
طور پر یہ لکھا ہے کہ کوئی ملک ایک دوسرے کی سرحدوں یا لائن آف کنٹرول کو
تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اس مسئلے کے مستقل حل کے لیئے دونوں ملکوں
کے درمیان بات چیت کا سلسلہ پاکستان کے صدر ضیاءالحق اور بھارت کے وزیراعظم
راجیو گاندھی کے دور میں 1985ءمیں شروع ہوا۔ اُس کے بعد سے اب تک مذاکرات
کے کئی ادوار ہو چکے ہیں لیکن تاحال اس مسئلے پر کوئی اہم پیشرفت نہ ہو سکی۔
ہندوستان چونکہ سیاچن کے ایک بڑے حصے پر قابض ہے اس وجہ سے وہ اس کی فوجی
حد بندی چاہتا ہے جبکہ پاکستان اس علاقے پر کسی طور بھی بھارت کا قبضہ قبول
کرنے کے لیئے تیار نہیں ہے۔ پاکستان کا مو ¿قف ہے کہ بھارت سیاچن کے جس
علاقے پر قابض ہے وہ پاکستان کا حصہ ہے اور 1984ءسے قبل یہ علاقہ بھارتی
فوج کے قبضے سے پوری طرح آزاد تھا لہٰذا بھارت کو چاہئے کہ وہ اپنی فوج کو
1984ءسے پہلے کی پوزیشن پر لے جائے۔
بھارت دنیا کے سامنے ایک طرف یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ وہ سیاچن گلیشیر کو
کوہِ امن بنانا چاہتا ہے جبکہ دوسری طرف اُس کی بری فوج متنازعہ سیاچن
گلیشیر پر پاکستان سے مفاہمت کو خارج از امکان قرار دیتی ہے۔ سب سے اہم بات
قیادت میں مسئلہ کے حل کی نیت ہوتی ہے لیکن بھارت کی میں نہ مانوں والی
پالیسی ابھی تک ان مذاکرات کی ناکامی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ سانحہ گیاری کے
بعد سیاچن پر یہ پہلے پاک بھارت مذاکرات تھے۔ اس سانحے کے بعد پاکستان کے
آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی سیاچن سے فوجوں کے انخلاءکی حمایت
میں بیان دیا تھا تاہم بھارت کی فوجی اور سیاسی قیادت نے اس پر کسی پیش رفت
کا عندیہ نہیں دیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہمالیہ کے متنازعہ علاقے
سیاچن گلیشیئر کے بارے میں اسلام آباد میں ہونے والی دو روزہ بات چیت بھی
بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہو گئی۔ پاکستان نے ان مذاکرات میں سیاچن سے دونوں
ممالک کے فوجی انخلاءکے معاہدے کی تجویز پیش کی تاہم بھارت وہاں اپنی حد
بندی کے موقف پر قائم رہا۔ ان مذاکرات کے بعد جاری کئے جانے والے مشترکہ
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دوستانہ ماحول میں ہونے والی اس بات چیت میں
فریقین نے اتفاق کیا ہے کہ سیاچن کے مسئلے کے حل کےلئے سنجیدہ، پائیدار اور
نتیجہ خیز بات چیت کی جائے گی۔
پاکستان اور بھارت یہ سمجھتے ہیں کہ سیاچن مسئلے کے حل سے دونوں ملکوں کا
فائدہ ہے کیونکہ دونوں ممالک نہ صرف اس محاذ پر اپنے بجٹ کا ایک بہت بڑا
حصہ خرچ کر رہے ہیں بلکہ اتنی اونچائی پر اپنے فوجیوں کو بھیجتے ہیں جہاں
اُن کا سب سے بڑا دشمن موسم ہوتا ہے۔ جتنا پیسہ ان پہاڑوں کی چوکیوں پر
ضائع ہوتا ہے اگر یہ پیسہ عوام کی فلاح و بہبود پر لگے تو دونوں ملکوں میں
بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ بامقصد
اور نتیجہ خیز مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالنا چاہتا ہے لیکن دونوں
ملکوں کے درمیان ماضی میں جتنے بھی مذاکرات ہوئے بھارت کی اندرونی سیاسی
جماعتیں اور بری فوج رکاوٹ بنی رہی۔ بھارت کی خواہش ہے کہ اُس نے سیاچن کے
جس حصے پر قبضہ کر رکھا ہے اگر پاکستان اُسے بھارت کا حصہ تسلیم کرلے تبھی
مستقبل سرحد کا تعین ممکن ہو سکے گا جبکہ پاکستان کےلئے یہ ایک گھاٹے کا
سودا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سیاچن اور سرکریک پر ہونے
والے مذاکرات یہ تیرہواں دور بھی بے نتیجہ ہی رہا۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان امن و سلامتی، دہشت گردی، جموں کشمیر، وولر
بیراج، سرکریک اور سیاچن سمیت کئی دیگر مسائل پر بات چیت ہوتی رہتی ہے لیکن
بدقسمتی سے دونوں ملکوں میں اعتماد کا فقدان ہے۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز
مشرف کے دور میں سیاچن کے مسئلے پر دونوں ملکوں کے درمیان اتفاق ہو گیا تھا
لیکن سیاسی حالات میں تبدیلی کے سبب ایک باضابطہ سمجھوتے کی شکل نہیں لے
سکا۔ پاک اور بھارت کی فوجوں کی موجودگی سے سیاچن کا گلیشیر تیزی سے پگھل
رہا ہے۔ دونوں ملک اپنی فوجوں کی واپسی سے ہی اس گلیشیر کو پگھلنے سے روک
سکتے ہیں کیونکہ اس گلیشیر کے پگھلنے کا سبب فوجی دستوں کی تعیناتی اور
مستقل چھاﺅنیوں کی تعمیر ہے۔ حالیہ سالوں میں سائنس دانوں نے گلیشیر کو
پگھلنے میں خاطر خواہ تیزی دیکھی ہے۔ اگرچہ گلیشیروں کے پگھلنے کے اثرات
بہت سالوں تک پوری طرح واضح نہیں ہونگے لیکن اس سے شمالی بھارت اور پاکستان
میں کروڑوں لوگوں کی زندگیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے جو خشک موسم میں اپنے
دریاﺅں میں ان گلیشیروں سے آنے والے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ اس گلیشیر کو
پگھلنے سے روکنے کے لیئے اس علاقے سے فوجی انخلاءانتہائی ضروری ہے اور یہ
تبھی ممکن ہے کہ بھارت اس علاقے پر سے اپنا غاصبانہ قبضہ چھوڑ کر اسے غیر
فوجی علاقہ قرار دے۔ |