مقام قرآن و حدیث اور فتنہ قادیانیت

قرآن مجیدنبی آخر الزماں جناب محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب ہے قرآن مجید کلام الٰہی ہے اس پر ایمان لانا اور یہ اعتقادر رکھنا لازم ہے کہ جو اوامر و نواہی اس میں بیان ہوتے ہیں وہ سو فی صد درست ہیں اور ان کے مطابق زندگی گزار نا عین فرض ہے قرآن مجید پر ایمان لانا مسلمان ہونے کے لےے بنیادی شرط ہے اسی حوالے سے اللہ رب العزت قرآن مقدس میں فرماتے ہیں کہ
یَاَیُّہَاالَّذِینَ اَمَنُوا امِنُوا بِاللّٰہِ وَرَسُولِہ وَالکتٰبِ الَّذِی نَزَّلَ عَلٰی رَسُولِہ وَالکِتٰبِ الَّذِی اَنزَلَ مِن قَبلُ وَمَن یَکفُر بِاللّٰہِ وَمَلٰئِکَتِہِ وَکُتُبِہ وَرُسُلِہ وَالیَومِ الاٰخِرِ فَقَدضَلَّ ضَلٰلاً بِعَیدًا o(النساء136:)
ترجمہ؛ اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ اس کے رسول اور اس کتاب پر ایمان لاﺅ جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی اور اس کتاب پر بھی جو اس نے پہلے نازل کی۔ اور جو شخص اللہ اس کے فرشتوں ‘اس کی کتابوں اس کے رسولوں اور آخرت کے دن کا انکار کرے تو وہ یقینا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا۔

قرآن مجید وحی الٰہی ہے اور اللہ رب العزت نے قرآن مقدس میں 27مرتبہ اپنی طرف اس بات کی نسبت کی ہے یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی وحی کردہ ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے۔
وَاتلُ ماَ اُوحِیی اِلَیکَ مِن کِتَابِ رَبِّکَ (الکھہف 27)
ترجمہ؛اور آپ کے رب کی کتاب میں سے جو آپ کی طرف وحی کیاگیا ہے اسے تلاوت کیجئے۔

کیا اتباع قرآن فرض ہے؟
اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے کہ اتباع قرآن فرض ہے کیونکہ رب کائنات نے اس کے لیے قرآن مقدس میں چھ مرتبہ امر کا صیغہ استعمال کیا ہے چنانچہ ارشاد ربانی ہے
وَ ہَذَا کِتٰبُ اَنزَلنٰہُ مُبٰرَکُ فَاتَّبِعُوہُ (الانعام 155:)
اور یہ ایک بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے اتارا ہے لہٰذا اس کی اتباع کرو۔

قرآن مقدس کی اصل زبان:۔
قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا اسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ رب العزت فرماتے ہیں
اِنَّا اَنزَلنٰہُ قُراٰناً عَرَبِیًّا (یوسف 2:)
یعنی بے شک ہم نے اسے عربی قرآن میں نازل کیا ہے۔

بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُبِین (الشعرا ئ195:)
ترجمہ؛ واضح عربی زبان میں نازل کی گئی۔

اللہ رب العزت قرآن مقدس کے سچا ہونے کا واضح اعلان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ
وَاَنزَلنَا اِلَیکَ الکِتٰبَ بِالحَقِّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَینَ یَدَیہِ مِنَ الکِتٰبِ وَمُہَیمِناً عَلَیہِ (المائدہ 48:)
اور (اے پیغمبر علیہ السلام) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان سب پر نگران ہے۔

قرآن مقدس کے متعلق اللہ تعالٰی کے چیلنج:۔
پہلا چیلنج:۔
قُل لَّئِنِ اجمَعَتِ الاِنسُ وَالجِنُّ عَلٰی اَن یًاتُو بِمِثلِ ہَذَا القُراَنِ لَا یَاتُونَ بِمِثلِہِ وَلَوکَانَ بَعضُہُم لِبَعضٍ ظَہِیرًاo (بنی اسرائیل 88:)
ترجمہ؛ (اے میرے نبی) کہہ دو کہ اگر انسان اور جن اس بات پر مجتمع ہوں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہ لا سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مد د گار ہوں۔

دوسرا چیلنج؛
اَم یَقُولُونَ افتَرٰہُ قُل فَاتُو بِعَشرٍ سُوَرٍ مِثلِہِ مُفتَرَیٰتِ وَّادعُو مَنِ استَطَعتُم مِّن دُونِ اللّٰہِ اِن کُنتُم صٰدِقِین o(ہود 13:)
ترجمہ؛ کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے (قرآن) از خود بنا لیا ہے کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم بھی ایسی دس سورتیں بنا لاﺅ اور اللہ کے سوا جس کو بلا سکتے ہو بلا لو۔

تیسرا چیلنج:۔
وَاِن کُنتُم فِیی رَیبٍ مِّمَّا نَزَّلنَا عَلٰی عَبدِنَا فَاتُوابِسُورَةٍ مِن مِثلِہِ وَادعُو شُہَدَآئَ کُم مِّن دُونِ اللّٰہِ اِن کُنتُم صٰدِقِینَ o فَاِن لَم تَفعَلُوا وَلَن تَفعَلُوا فَاتَّقُو ا النَّارَ الَّتِی وَقُودُ ہَا النَّاسُ وَالحِجَارَةِ اُعِدَّت لِلکَفِرِینo(البقرہ 23-24)
ترجمہ؛ اور اگر تم کو اس کتاب میں جو ہم نے اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل کی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاﺅ اور اللہ کے سوا جو تمہارے مدد گارہوں ان کو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو۔ لیکن اگر ایسا نہ کر سکو اور ہرگز نہ کرسکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے اور جو کافروں کے لےے تیار کی گئی ہے۔

چوتھا چیلنج:۔
فَلیَاتُوابِحَدِیثٍ مِثلِہِ اِن کَانُو صٰدِقِینo(الطور 34)
کہ اگر یہ سچے ہیں تو ایسا کلام بنا کر تو لائیں۔

حفاظت قرآن مجید؛
دوسری الہامی کتابوں کی بہ نسبت قرآن مجید کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خالق کائنات نے لی ہے اور اس ضمن میں ارشاد ربانی ہے کہ
اِنَّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّکرَ وَاِنَّا لَہُ لَحٰفِظُونَ (الحجر9:)
ترجمہ؛ بے شک ہم نے اس ذکر کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

مزید فرمایا
وَاتلُ ماَ اُحِییِ اِلَیکَ مِن کِتَابِ رَبِّکَ لَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِہِo(الکہف 27:)
یعنی :اور اپنے رب کی کتاب پڑھتے رہیں جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اس کے کلمات کو کوئی تبدیل کرنے والا نہیں ۔

قرآن مقدس کی حفاظت کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ رب کائنات فرماتا ہے کہ
اِنَّ عَلَینَا جَمَعَہُ وَقُراٰنَہُo(القیامة 17:)
کہ اس کو جمع کرنا اور اس کو پڑھانا ہمارا کام ہے

جمع قرآن کے ادوار:۔
دور نبوی:۔
دور نبوی میں حفظ قرآن پر زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ نبی کریم علیہ السلام کا تبین وحی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذریعے قرآن مجید کو لکھوا لیا کرتے تھے۔ اور کتابت کے لےے درج ذیل چیزوں کا استعمال ہوتا تھا۔
(1) دباغت دی ہوئی کھال
(2) پتھر کی سلیں
(3) اونٹ کے شانے
(4) کھجور کی شاخوں کے چھلکے
(5) اونٹ کے کجاوے کی چھوٹی لکڑیاں

قرآن مجید میں حفظ کے ذریعے حفاظت قرآن کا بھی خاص طور پر ذکر ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے
بَل ہُوً اٰیٰتُ بَیِّنٰتُ فِیی صُدُورِالَّذِینَ اُوتُواالعِلمَo(العنکبوت49:)
ترجمہ؛ بلکہ یہ کھلی اور روشن آیتیں ہیں ان لوگوں کے سینوں میں جنہیں علم دیا گیا ہے

الغرض نبی کریم علیہ السلام کے دور میں مکمل قرآن پاک آیات اور سورتیں ترتیب کے ساتھ ٹکڑوں کی صورت میں موجود تھا لیکن کتابی شکل میں ایک جگہ جمع نہیں تھا اور حفاظ کرام نے بھی اس مجموعے کو مکمل طور پر حفظ کیا تھااور جبرائیل علیہ السلام بھی ہر سال نبی کریم علیہ السلام کے ساتھ قرآن پاک کا دور کیا کرتے تھے۔

(2) دور صدیقی:۔
جب جنگ یمامہ جو مسیلمہ کذاب کے خلاف ہوئی تھی اس میں سات سو کے قریب حفاظ کرام صحابہ شہید ہو گئے تھے اور یہ خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں قرآن مجید سارے کا سارا یا اس کا کچھ حصہ ضائع نہ ہو جائے۔ تو ایسے حالات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ قرآن مجید کو ایک جگہ پر جمع کر دیا جائے۔

ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابتداءمیں تو اس بات کی مخالفت کی بعد ازاں قرآن مجید کو ایک جگہ پر جمع کرنے پر رضا مند ہو گئے۔ پھر زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس کام پر آمادہ کیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس جو جو حصہ قرآن پاک کا لکھا ہوا تھا اس کو دو حفاظ صحابہ کرام کی شہادت و گواہی کے بعد اکٹھا کیا اور اس مجموعے کو ایک کتابی صورت میں مصحف بنا کر حکومت کی نگرانی میں رکھ دیا جو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی وفات تک ان کے پاس رہا اور ان کے بعد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس رہا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یہ مصحف ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاکے پاس رہا۔
(صحیح بخاری ‘ فتح الباری کتاب فضائل القران باب جمع القرآن)

(3) دور عثمانی:۔
احادیث اور تاریخ اسلام میں محدثین اور مورخین نے اس بات کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلام عرب سے نکل کر روم اور ایران کے دور دراز علاقوں تک پہنچا تو ہر نئے علاقے کے لوگ جب مسلمان ہوتے تو وہ ان مجاہدین اسلام یا ان تاجروں سے قرآن کریم سیکھتے جن کی بدولت انہیں اسلام کی نعمت حاصل ہوئی تھی۔جیسا کہ صحیح بخاری میں بھی یہ بات موجود ہے کہ قرآن کریم کی سات قرائتیں ہیں اور مختلف صحابہ کرام نے نبی کریم علیہ السلام سے مختلف قراءتوں سے قرآن کریم سیکھا تھا اس لیے ہر صحابی نے اپنے شاگردوں کواسی قراءت کے مطابق پڑھایا جس کے مطابق خود اس نے نبی کریم علیہ السلام کے ساتھ پڑھا تھا اس طرح قراءتوں کا یہ اختلاف دور دراز ممالک تک پہنچ گیا تو بعض نو مسلم اس بات پر آپس میں جھگڑنے لگے۔ ان جھگڑوں سے ایک طرف تو یہ خطرہ تھا کہ لوگ قرآن کریم کی متواتر قراءتوں کو غلط قرار دینے کی غلطی میں مبتلا ہوں گے دوسرے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے جمع کےے ہوئے نسخہ کے جو مدینہ منورہ میں موجود تھاکے سواپورے عالم اسلام میں ایسا کوئی اور معیاری نسخہ موجود نہ تھا جو پوری امت کے لےے تصحیح کا معیار بن سکے۔ اس صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اس مصحف کی کاپیاں کروا کر پوری دنیا میں بھیجیں اس کے علاوہ جہاں جہاں بھی قرآن مجید مختلف حصوں میں اور مختلف شکلوں میں موجود تھا ضائع کروا دیا تاکہ امت مسلمہ انتشار و افتراق سے بچ سکے۔
(بحوالہ صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن با ب جمع القرآن)

محترم قارئین! حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور کے بھیجے ہوئے دو نسخے اب بھی موجود ہیں ایک تاشقند کے عجائب گھر میں اور ایک ترکی کے دارالحکومت استنبول میں موجود ہے۔

محترم قارئین! قرآن مقدس آغاز میں بغیر نقاط اور اعراب کے پڑھا جاتا تھا حجاج بن یوسف نے قرآن مجید پر اعراب اور نقاط لگانے کا کارنامہ سرانجام دیا جب حجاج نے یہ کام شروع کروایا تو یہودیوں نے قرآن مقدس میں سورة الکہف میں ایک مقام پر تبدیلی کے لےے حجاج کو طرح طرح کی ترغیبات اور لالچ دیئے لیکن حجاج نے ان تمام ترغیبات کو ٹھکرا دیا کیونکہ قرآن مقدس کی حفاظت کی ذمہ داری رب کائنات نے لی ہے جو تبدیلی یہودی کروانا چاہتے تھے وہ یہ تھی کہ سورة الکہف میں موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا واقعہ موجود ہے جب یہ دونوں ایک بستی والوں کے پاس پہنچے ان سے کھانا طلب کیا تو انہوں کھانا دینے سے انکار کر دیا ۔ یہاں پہ قرآن مقدس میں اَبَوکالفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنی ہے انکار کرنا یہودیوں نے کہا تھا کہ اَبَو کی جگہاَتَو لکھ دیا جائے جس کا مفہوم تھا کہ انہوں نے مان لیا۔ یہ واقعہ سورة الکہف کی آیت نمبر 77میں بیان ہوا ہے۔

مقام حدیث و حفاظت حدیث:۔
جس طرح قرآن مجید کلام الٰہی ہونے کے سبب حجت ہے اسی طرح حدیث رسول بھی فرمان نبوی ہونے کے سبب حجت ہے۔ کیونکہ قرآن مقدس کی وضاحت اور تشریح جب تک فرمان نبوی سے نہ کی جائے تو دین اسلام ادھورا رہ جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے بارے میں رب کائنات نے فرمایا ہے کہ
ثُمَّ اِنَّ عَلَینَا بَیَانَہُo(القیامة 19:)
یعنی پھر اس کو بیان کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔

نیز فرمایا
وَاَنزَلنَآ اِلَیکَ الذِّکرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیہِم (الحل44:)
ترجمہ؛ اور ہم نے آپ کی طرف ذکر (قرآن مجید) نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لےے واضح کر دیں جو ان کی طرف نازل کیا گیا۔

حدیث رسول کے حجت ہونے کے بارے میں قرآن مقدس میں ارشاد ہے کہ
وَمَا اٰتٰکُمُ الرَّسُولُ وَخُذُوہُ وَمَانَہٰکُم عَنہُ فَانتَہُوا(الحشر7:)
ترجمہ؛ اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو اور جس سے روکے رک جاﺅ۔

محترم قارئین! جس طرح رب کائنات نے قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے ذمہ لی ہے اسی طرح قرآن مجید کی وضاحت یعنی حدیث رسول کی حفاظت کی بھی ذمہ داری لی ہے یہی وجہ ہے کہ نبی کریم علیہ السلام کے دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن مجید کو حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ احادیث رسول کو بھی حفظ کیا کرتے تھے اور نبی کریم علیہ السلام کے دور میں ہی کتابت حدیث کا کام بھی شروع ہو گیا تھا۔ اسی سلسلہ میں حسن بن عمرو روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابو ہریرة رضی اللہ عنہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے گھر لے گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں کی بہت سی کتابیں دکھائیں اور فرمایا کہ یہ میرے پاس مکتوب ہے۔
(بحوالہ فتح الباری 207/1‘ تحت حدیث 113مندرجہ انکار حدیث
سے انکار قرآن تک از فضیلة الشیخ عبدالسلام رستمی مطبوعہ دار السلام)

نبی کریم علیہ السلام نے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ
”میری حدیثیں لکھا کرو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے صرف حق نکلتا ہے“
(سنن ابی داﺅد کتاب العلم حدیث 3646)

صحابہ کرام کے تحریری مجموعے ؛
(1) صحیفہ صادقہ؛
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا ہزار احادیث پر مشتمل صحیفہ صادقہ یہ اب مسند احمد میں مکمل طور پر موجود ہے۔ اس صحیفے کی روایت عمر و بن شعیب بن محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عاص کے توسط سے پوری طرح منقول ہے۔ اور اکابر محدثین نے اس روایت پر اعتماد کر کے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔ (تاریخ الحدیث والمحدثین ص 210)

(2) صحیفہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
اس میں صدقات اور زکوٰة کے احکامات درج ہیں امام مالک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے یہ صحیفہ پڑھا ہے عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ نے جب تدوین حدیث کا کام شروع کیا تو یہ صحیفہ انہیں عمر رضی اللہ عنہ کے خاندان سے موصول ہوا۔ (موطا امام مالک ص 109)

(3) صحیفہ عثمان رضی اللہ عنہ
اس صحیفے میں زکوٰة کے احکام درج تھے اس کے متعلق امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب الجہاد میں واقعہ بیان کیا ہے۔

(4) صحیفہ علی رضی اللہ عنہ
اس میں زکوٰة‘ صدقات‘ دیت ‘ قصاص‘ حرمت مدینہ ‘ خطبہ حجة الوداع اور اسلامی دستور کے نکات درج تھے۔ یہ صحیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد بن حنفیہ کے پاس تھا پھر امام جعفر کے پاس آیا اور انہوں نے حارث کو لکھ کر دیا۔
(تدوین حدیث برہان دہلی و صحیح بخاری کتاب العلم حدیث 111)

(5) مسند ابوہریرة رضی اللہ عنہ
اس کے بہت سے نسخے عہد صحابہ میں لکھے گئے تھے اس کی ایک نقل عمر بن عبدالعزیز کے والد عبدالعزیز بن مروان والئی مصر کے پاس تھی عبدالعزیز بن مروان نے کثیر بن مرة کو لکھا تھا کہ آپ کے پاس صحابہ کرام کی جتنی مرویات ہیں وہ ہمیں لکھ کر بھیج دیں مگر ابوہریرة رضی اللہ عنہ کی مرویات بھیجنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ پہلے ہی ہمارے پاس موجود ہیں۔
(الطبقات الکبریٰ لا بن سعد 448/7)

اس کے علاوہ صحیفہ انس‘ خطبہ فتح مکہ (جو ابو شاہ کے لیے لکھا گیا تھا) صحیفہ جابر بن عبداللہ‘ مرویات ابن عباس ‘ مرویات عائشہ اور صحیفہ عمر و بن حزام( جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کا گورنر مقرر کیا تو انہیں لکھ کر دیا گیا تھا اس صحیفے میں فرائض‘ سنن‘ صدقات و دیات اور دیگر 21فرامین نبویہ شامل ہیں) مزید برآں رسالہ سمرہ بن جندب ‘ رسالہ سعد بن عبادہ اور صحیفہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم جس کے بارے میں ان کے بیٹے عبدالرحمن نے حلفاً کہا تھا کہ یہ ان کے باپ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا۔
(جامع بیان العلم 300/1)

یہ تمام صحیفے رسالے اور کتب صحابہ کرام کی تحریریں تھیں جن میں انہوں نے مرفوع احادیث جمع کی تھیں۔
(بحوالہ انکار حدیث سے انکار قرآن تک از مولانا عبدالسلام رستمی)

محترم قارئین! صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں اور دور نبوی میں احادیث کی کتابت کا کام شروع ہو چکا تھا جس کی مختصر تفصیل اوپر درج کر دی گئی ہے اور ان احادیث کی حفاظت کی بھی ذمہ داری پروردگار عالم کی ہے اور ان احادیث کو حجت سمجھنا ضروری ہے لیکن اس کے برعکس مرزا قادیانی نے نہ صرف قرآن پاک میں تحریف کرنے کی ناپاک جسارت کی بلکہ احادیث کے بارے میں بھی تحقیر آمیز انداز اختیار کیا آئیے ذرا مرزا قادیانی کے قلم کی خباثتیں ملاحظہ کریں مرزا قادیانی رقمطراز ہے کہ

(1) ”قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں۔“
( براہین احمدیہ حصہ چہارم ص 522حاشیہ در حاشیہ نمبر 3
مندرجہ روحانی خزائن جلد نمبر 1ص 623)

(2) ”میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ان الہامات پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں جیسا کہ قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے خدا کا کلام یقین کرتا ہوں“
(حقیقة الوحی ص 220مندرجہ روحانی خزائن جلد 22ص 220)

(3) محترم قارئین! قرآن مقدس میں تحریف کرنا ناممکن ہے جب بھی کسی نے ایسی ناپاک جسارت کی کوشش کی تو اس کے خلاف غیور مسلمانوں نے فوری طور پر ایکشن لیا اور اس کی اس ناپاک جسارت کو ناکام بنا دیا۔ مرزا قادیانی بھی ایسے ہی بدبخت لوگوں میں شامل ہے جس نے قرآن مقدس میں انحراف کرنے کی ناپاک جسارت کی اور قادیانی ذریت ابھی تک اسے اپنائے ہوئے ہے۔ آئیے مرزا قادیانی کی طرف سے تحریف قرآن کی ناپاک جسارت کے چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔

(الف) ”جس روز وہ الہام مذکورہ بالا جس میں قادیان میں نازل ہونے کا ذکر ہے ہوا تھا اس رو زکشفی طور پر میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب مرحوم مرزا غلام قادر میرے قریب بیٹھ کر بآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے ہیں اور پڑھتے پڑھتے انہوں نے ان فقرات کو پڑھا کہ انا انزلنا قریباً من القادیان تومیں نے سنکر بہت تعجب کیا کہ کیا قادیان کا نام بھی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے؟ تب انہوں نے کہا کہ یہ دیکھو لکھا ہوا ہے تب میں نے نظر ڈال کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ فی الحقیقت قرآن شریف کے دائیں صفحہ میں شاید قریب نصف کے موقع پر یہی الہامی عبارت لکھی ہوئی موجود ہے تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہاں واقعی طور پر قادیان کا نام قرآن شریف میں درج ہے اور میں نے کہا کہ تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن شریف میں درج کیا گیا ہے۔ مکہ اور مدینہ اور قادیان یہ کشف تھا“
(ازالہ اوہام حصہ اول ص 40مندرجہ روحانی خزائن جلد 3ص 140)

(ب) اسی طرح مرزا قادیانی اپنی کتاب ”نورالحق‘ ‘ حصہ اول مندرجہ روحانی خزائن جلد 8ص 63پر رقمطراز ہے کہ

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’وجادلہم بالحکمة والموعظة الحسنة “یہ عربی عبارت درج کرنے کے بعد حاشیہ میں سورة النحل آیت نمبر 126کا حوالہ دیا گیا ہے جبکہ سارے قرآن مجید میں یہ عبارت کہیں پہ بھی موجود نہیں ۔

(ج) قرآن مقدس میںسورة بنی اسرائیل کی آیت نمبر 8کے الفاظ اس طرح ہیں کہ
عَسٰی رَبُّکُم اَن یَّرحَمَکُم

جبکہ اس میں تحریف کرتے ہوئے مرزا قادیانی نے لکھاہے کہ
عَسٰی رَبُّکُم اَن یَّرحَمَ عَلَیکُم
(بحوالہ براہین احمدیہ حصہ چہارم مندرجہ روحانی خزائن جلد نمبر1ص 601حاشیہ در حاشیہ نمبر3)

(4) قادیانی ذریت کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن مجید دوبارہ مرزا قادیانی پر اترا ہے اس کا اظہار کرتے ہوئے مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیر احمد اپنی کتاب کلمة الفضل میں رقمطراز ہے کہ
”ہم کہتے ہیں کہ قرآن کہاں موجو دہے ؟ اگر قرآن موجود ہوتا تو کسی کے آنے کی کیا ضرورت تھی۔ مشکل تو یہی ہے کہ قرآن دنیا سے اٹھ گیا ہے ۔ اسی لیے تو ضرورت پیش آئی کہ محمد رسول اللہ (مرزا قادیانی) کو بروزی طور دوبارہ دنیا میں مبعوث کر کے آپ پر قرآن شریف اتارا جائے۔“
(کلمة الفضل ص 173از مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی)

(5) مرزا اپنے آپ کو قرآن کی مانند قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ
”ماانا الا کالقرآن وسیظہر علی یدیی ماظہر من الفرقان“
ترجمہ؛ میں تو بس قرآن ہی کی طرح ہوں اور عنقریب میرے ہاتھ پر ظاہر ہو گا جو کچھ فرقان سے ظاہر ہوا۔
(بحوالہ تذکرہ ص 570طبع چہارم از مرزا قادیانی)

(6) ”اور ہم اس کے جواب میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ میرے اس دعویٰ کی حدیث بنیاد نہیں بلکہ قرآن اور وحی ہے جو میرے پہ نازل ہوئی۔ ہاں تائیدی طور پر ہم وہ حدیثیں بھی پیش کرتے ہیں جو قرآن شریف کے مطابق ہیں اور میری وحی کے معارض نہیں اور دوسری حدیثوں کو ہم ردی کی طرح پھینک دیتے ہیں۔“
(اعجاز احمدی ص 36مندرجہ روحانی خزائن جلد 19ص 140)

(7) ”اور جو شخص حکم ہو کر آیا ہے اس کو اختیار ہے کہ حدیثوں کے ذخیرہ میں سے جس انبار کو چاہے خدا سے علم پا کر قبول کرے اور جس ڈھیر کو چاہے خدا سے علم پا کر رد کر دے“
(تحفہ گولٹرویہ ص 10مندرجہ روحانی خزائن جلد 17ص 51)
عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif
About the Author: عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif Read More Articles by عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif: 111 Articles with 215325 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.