یوسف رضاگیلانی پاکستان کے پہلے
وزیراعظم ہیں جنہیں عدالت عظمی اپنے فیصلوں پرعمل درآمدنہ کرنے پر پہلے
سزاسنائی اور پھر انہیں ان کے عہدہ سے برطرف کرکے آئندہ پانچ سال کے لیے
نااہل قراردے دیا۔یوسف رضا گیلانی نے جنرل محمدضیا الحق کے غیرجماعتی
انتخابات میں حصہ لے کر اپنے سیاسی کیریئرکاآغازکیاتھا ابتدا میں وہ
وزیرریلوے رہے تھے اورجرمنی سے 40 ریلوے انجنوں کی خریداری کے سودے میں ان
کی ناتجربہ کاری نے قومی خزانہ کو بھاری نقصان پہنچایا تھا جس کی وجہ سے
انہیں وزارت سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ یہ 40 ریلوے انجن جو
جرمنی سے بحری جہازوں میں لاکرکراچی پہنچے توان کی وصولی کے لیے یوسف
رضاگیلانی خود بندرگاہ پر موجود تھے۔ ہرے رنگ کے ان ڈیزل لوکوموٹیومیں
پریشرہارن لگے ہوئے تھے جیلانی صاحب نے اس وقت تک ان ریلوے انجنوں کو وصول
کرنے سے انکارکردیاتھا جب تک ان میں ریلوے کے اولین دورکے بھاپ کے انجنوں
کی طرح کے وسل ہارن یا سیٹیان نہیں لگادی جائیں۔ یوسف رضا گیلانی کا
اصرارتھا کہ پنجاب کے ہورڈنگزاورمویشی پریشرہارن سے بدک جاتے ہیں اور اکثر
ریل کی پٹری پرآکرریلوے انجن سے ٹکراجاتے ہیں جبکہ وسل ہارن سے یہ جانور
بخوبی آشناہیں اس لیے سیٹی سن کر وہ بدکتے نہیں بلکہ ایک طرف ہوجاتے ہیں۔
گیلانی صاحب کی فرمائش پرتمام ریلوے انجنوں کے پریشرہارن نکلواکر بذریعہ
طیارہ جرمنی بھیجے گئے اورایک ہفتے بعد جرمنی سے وسل ہارن منگواکر نصب کیے
گئے ۔ اس ایک ہفتے کے دوران میں ریلوے انجنوں سے لدے جہازکراچی کی بندرگاہ
پرکھڑے رہے۔ بندرگاہ پرنقل وحمل کا تمام کام معطل رہا۔ وسل ہارن کی تنصیب
کے بعد جب ریلوے انجنوں کو جہازوں سے اتارکرریلوے اسٹیشن پرپہنچایاگیا
توانجن بنانے والی کمپنی نے بندرگاہ کوڈیمریج اداکرنے سے انکارکردیا اور
پریشرہارن کی جگہ وسل ہارن کی تنصیب اور فراہمی کے اضافی اخراجات طلب کیے۔
حکومت پاکستان کو یہ تبدیلی بلا مبالغہ کروڑوں روپے میں پڑی۔ جبکہ پالتو
مویشی بدستورنئے انجنوں سے ٹکراکر ہلاک ہوتے رہے کیونکہ وہ ڈیزل انجنوں کے
پریشرہارن سے تو آشنا تھے لیکن ڈیزل انجن کی سیٹی سے بدک جاتے تھے۔ گیلانی
صاحب بے نظیرکے دورمیں قومی اسمبلی کے اسپیکربھی رہے اوربعد میں جیل بھی
بھگتی۔ پاکستان کی وزارت عظمی کبھی بھی پھولوں کی سیج نہیں رہی۔ سب سے پہلے
وزیراعظم خان لیاقت علی خاں کو راولپنڈی میں شہید کردیا گیاتھا ۔ دوسرے
وزیراعظم خواجہ ناظم الدین تھے جنہیں غلام محمدکی سازش کا شکارہوکر وزارت
عظمی چھوڑنی پڑی۔ ان کے بعد امریکا میں متعین پاکستانی سفیر محمدعلی بوگرہ
کو درآمدکرکے وزیراعظم بنادیاگیا۔ لیکن گورنرجنرل غلام محمد نے بعدمیں
انہیں دستور ساز اسمبلی سمیت چلتاکیا۔ چودھری محمدعلی کی وزارت عظمی کا سب
سے بڑا کارنامہ 1956 کے دستورکی منظوری تھی لیکن صدراسکندرمرزا نے جلدہی
انہیں بھی سبکدوش کردیا اور قرعہ فال مشرقی پاکستان کے حسین شہید سہروردی
کے نام نکلا۔ سہروردی صاحب بڑے عزائم کے ساتھ آئے انہوں نے چین کے وزیراعظم
چواین لائی کا پاکستان میں استقبال کیا۔ 1956 میں ہی نہرسوئزپر جنگ چھڑگئی
۔ جس میں برطانیہ اسرائیل اور فرانس نے مصرپرحملہ کردیاتھا کیونکہ جمال
عبدالناصرنے نہرسوئزکو قومیانے کا اعلان کردیاتھا۔ اس بحرانی کیفیت میں
سہروردی کے وزیرخارجہ حمیدالحق چودھری نے بیروت میں قیام کے دوران ایک غیر
ذمہ دارانہ بیان جاری کرکے نہ صرف اپنے عرب میزبانوں کومشتعل کردیا بلکہ
سہروردی حکومت کا وجود بھی خطرہ میں ڈال دیا۔ حمیدالحق چودھری نے
نہرسوئزجنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ عربوں کو یہ تسلیم کرلینا چاہیے
کہ اسرائیل کا وجود ایک حقیقت ہے اور یہودیوں کو سمندرمیں غرق نہیں
کیاجاسکتا لبنان کی حکومت نے چودھری صاحب کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے
انہیں ناپسندیدہ شخصیت قراردے کر 24گھنٹے کے اندر بیروت چھوڑنے کا حکم دے
دیا جبکہ مصر اور شام نے پاکستان سے اپنے سفیر بلالیے اور اردن اور سعودی
عرب نے اپنے اپنے ملکوں میں پاکستانی سفیروں سے اس بیان کی وضاحتیں طلب
کرلیں۔ حمیدالحق چودھری کے وطن واپس پہنچتے ہی صدر اسکندرمرزا نے سہروردی
حکومت کی بساط لپیٹ دی۔ سہروردی کے بعد ابراہیم اسماعیل چندریگر
برسراقتدارآئے لیکن مہنگائی پرقابو نہ پانے کی وجہ سے60 دن کے اندر بڑی
شرافت سے مستعفی ہوگئے ۔ چندریگرکے بعد ملک فیروزخان نون نوزائیدہ ری پبلکن
پارٹی کے قائدکے طورپر وزیراعظم بنے اسی دورمیں پاکستانی سیاست میں ہارس
ٹریڈنگ کا عنصر بھرپورطریقے پرفروغ پایا۔فیروزخان نون کا سب سے بڑا کارنامہ
سلطنت مسقط وعمان کے حکمراں سے گوادرکی بندرگاہ کی خریداری تھا۔ 7
اکتوبر1958 کو جنرل محمدایوب خان کی شہہ پر صدراسکندرمرزا نے 1956 کا متفقہ
آئین منسوخ کرکے نون حکومت کو برطرف کردیا۔ 26 اکتوبرکواسکندرمرزانے شام
پانچ بجے پولوگراﺅنڈ کراچی میں جنرل ایوب سے وزارت عظمی کا حلف لیا لیکن
نصف شب سے قبل ہی چارجنرلوں اعظم خان جنرل سیکرٹری جنرل شیخ اور خود ایوب
خان نے ایوان صدرپرچڑھائی کردی اور اسکندرمرزاکو زدوکوب کرکے ان سے استعفی
لے لیا۔ ایوب خان نے اپنے حلف کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے خود ہی اپنی وزارت
عظمی کا تختہ الٹ دیا۔ اورمارشل لا لگادیا چونکہ یہ وزارت عظمی انہیں کسی
آئینی جوازکے بغیر ملی تھی اس لیے پاکستان کی سیاسی تاریخ لکھنے والے ایوب
خان کو وزارت عظمی کے منصب کا حقدارنہیں سمجھتے۔ ایوب خاں کے دس سالہ
دورمیں یہ ملک کسی وزیر اعظم کے بغیر ایک آمرکی پسندو نا پسند پر چلا۔اسی
لیے پاکستان کے ایک نامورفرزند جسٹس رسم کیانی نے ایوب خان کو لائل پور (فیصل
آباد)کے گھنٹہ گھرسے تشبیہ دی تھی کہ جہاں سے دیکھو وہی نظرآتاہے۔ 1967 میں
فالج کی وجہ سے ایوب خان کی قوت ارادی جواب دے گئی تھی جس کی وجہ سے وہ
1968 میں عشرہ ترقی کے جشن کے ردعمل میں پھوٹ پڑنے والی طلبا تحریک کو کچل
نہیں سکے۔ بھٹو اورمجیب کی گرفتاری نے جلتی پر تیل چھڑکا۔ اصغرخان نصرت
بھٹو اعظم خان اورمولانا بھاشانی نے جلاﺅگھیراﺅکی مہم کو فروغ دیا۔
بالآخر14 فروری 1969 کو ایوب خان کو اعلان کرنا پڑا کہ وہ آئندہ صدارتی
انتخابات میں امیدوار نہیں ہوں گے اس اعلان کے بعد عملا وہ کمانڈر انچیف
جنرل یحیی خان کے یرغمال بن گئے اوربالآخر 24 مارچ 1969 کی شام قوم سے ایک
نشری خطاب میں یہ کہہ کر اقتدار جنرل یحیی خان کے حوالے کردیاکہ میں اب ملک
کے ٹکڑوں پر حکومت نہیں کرسکتا۔یحیی خان نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹرکی
حیثیت سے پورے ملک میں مارشل لا لگاکر 1963 کا ایوبی آئین منسوخ کردیا۔30
مارچ کو کہیں جاکر یہ اعلان کیاگیاکہ یحیی خان نے 25 مارچ سے عہدہ صدارت
بھی سنبھال لیاہے۔ یحیی خان کے دورمیں دنیاکی عظیم ترین اسلامی مملکت
تجربوں کی نذرہوکر دولخت ہوگئی۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ یحیی خان نے
بھارتی سفیرگربچن سنگھ کو رباط کی پہلی اسلامی کانفرنس میں نمائندگی سے
محروم رکھنے کے لیے جو جرات مندانہ موقف اختیارکیاتھا اس کے نتیجے میں
اسلامی سربراہ کانفرنس کا مجموعی مزاج سیکولر ہونے سے بچ گیا۔ ذوالفقارعلی
بھٹو برسراقتدارآکرپہلے تو سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹراورصدرکے اختیارات
سنھالے اور ایک عبوری آئین کے اتنے بھرپوراختیارات اپنی ذات میں جمع کرلیے
کہ ہٹلرکے اختیارات بھی ان کے سامنے ہیچ تھے۔ |