ہڑتالوں پے ہڑتالیں، کیا ان کا اثر بھی ہوتا ہے ۔۔؟

سپلائی بازار راولاکوٹ کے پچاس کے قریب تاجران نے ہڑتال کر دی،سڑک بلاک کرنے کے ساتھ شٹر ڈاﺅن اورپھر پہیہ جام تک کر دیا وجہ یہ تھی کہ گزشتہ 1ماہ سے سپلائی بازار سے شیخ زید ہسپتال تک جو قریباً 1کلو میٹر کا فاصلہ بنتا ہے میں سڑک کی تعمیر فوجی تعمیراتی کمپنی'' ایف ڈبلیو او'' کر رہی ہے (اسی کمپنی کی بنائی گئی اربوں روپے کی سڑک ایک سال کے اندر ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے بعد دوبارہ بن رہی ہے )بتایا جاتا ہے کہ فوجیوں کی زیر نگرانی اس تعمیراتی کمپنی نے 10دن کے اندر اس سڑک کی تعمیر مکمل کرنی تھی لیکن 1ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا لیکن سڑک کو اکھاڑ کر رکھ دیا گیا لیکن تارکول کا کہیں نام و نشان نہیں ،گاڑیوں کے گزرنے سے سڑک میں موجود گرد میں 10قدم کے فاصلے پر کسی کو پہچاننا بھی محال ،سڑک کے ارد گرد موجود دکانوں میں گرد کے انبھار کی وجہ سے اشیاءخوردو نوش خراب ہو رہی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسانی صحت پر انتہائی مضر اثر پڑتا ہے کیونکہ مسلسل یہ گرد سانس کے ذریعے جسم کے اندر لے جانے سے پھیپھڑوں کے مسائل اپنی جگہ الرجی اور دیگر امراض بھی حملہ کر دیتے ہیں لیکن خصوصاً اس 1کلو میٹر علاقے میں سکولز اور کالجز کا انبار لگا ہوا ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں بچے صبح صاف ستھرے کپڑے پہن کر سکول،کالج آتے جاتے ہیں اور جب یہی بچے واپس گھروں کو جاتے ہیں تو کسی بھوت کی مانند ان کے سروں میں گرد جھلکتی ہے کپڑوں کی رنگت حقیقت سے کوسوں دور دکھائی دیتی ہے اور اپنے پھیپھڑوں میں جو گردوغبار لے جاتے ہیں وہ الگ بیماریاں پیدا کرتا ہے ۔آخر برداشت کی بھی حد ہوتی ہے لیکن بے حسی و بے بسی نے یہاں جیسے پکے ہی ڈھیرے ڈال دیئے ہوں انتظامیہ سے لے کر ایک عام آدمی تک بے بس نظر آتا ہے جس کی واضح مثال سب کے سامنے ہے ۔ذکر ہو رہا تھا سپلائی بازار کے پچاس کے قریب تاجران کا تو انہوں نے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر آپس میں صلح مشور ہ کیا اور صبح 10بجے کے قریب سڑک بند کر دی جو شام تک بند ہی رہی ،سکول کالجز میں جو بچے صبح گاڑیوں میں آئے تھے وہ پیدل گھروں کو جا رہے ہیں ،جو مریض صبح گاڑیوں میں آئے تھے وہ بھی مجبوری میں پیدل جارہے ہیں ،کاروبار بند ہے اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ سڑک میں پانی کا چھڑکاﺅ کروانے کا انتظام کیا جائے اور متعلقہ سڑک تعمیر کرنے والی کمپنی کو کہا جائے کہ وہ فوری طور پر کام مکمل کریں جبکہ تعمیراتی کمپنی'' ایف ڈبلیو او'' نے کام کرنا اس لیے بند کر دیا ہے کیونکہ سڑک کی تعمیر کے دوران ان کے کسی فوجی ملازم کا ٹریفک پولیس کے ایک اہلکار سے جھگڑا ہو گیا(ٹریفک اہلکار کو معطل کر دیا گیا) جس وجہ سے فوجیوں نے 3,4روز سے کام بند کیا ہوا ہے ۔بے حسی اور بے بسی کی انتہا تب ہوئی جب شام کو ڈپٹی کمشنر نے ان ہڑتال کرنے والے تاجران سے وعدہ کیا کہ کل سے آپ کو پبلک ہیلتھ اور بلدیہ کی گاڑیوں سے پانی کا چھڑکاﺅ کروا کر دیا جائے گا لیکن دوسرے دن 1بجے ایک گاڑی آئی جو پانی کا چھڑکاﺅ کر کہ واپس چلی گئی پھر شام تک کوئی نہیں آیا جبکہ ڈپٹی کمشنر پونچھ سہیل اعظم نے بارہا ایکسین پبلک ہیلتھ کو فون کیا کہ پانی کی گاڑی بھیجوا دین لیکن ان صاحب پر تو جیسے اثر ہو ہی نہیں ہو رہا ،ان کے پاس فنڈز کی کمی اپنی جگہ ہو گی لیکن کیا ہزار دو ہزار میں ڈلنے والے پانی کیلئے اتنابھی پیسہ ان کے پاس نہیں ہے؟ جبکہ پبلک ہیلتھ کے ملازمین کی تنخواہوں اور ان کے آفیسران کے ٹی اے ڈی اے کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ لاکھوں نہیں کروڑوں میں جاتا ہے جبکہ بلدیہ کے پاس 2ہی گاڑیاں ہیں جو بوقت ضرورت مل بھی جاتی ہیں لیکن ان کو بھی فنڈز کا مسئلہ درپیش ہے ۔ ان تاجران کی ہڑتال جائزہے لیکن یہاں پر تاجر ذاتی دلچسی لیتے ہوئے اپنے جسم کو بیماریوں سے بچانے کیلئے یا صفائی ستھرائی کا ہی خیال کرتے ہوئے خود سے پانی کے چھڑکاﺅ کا انتظام اجتماعی یا انفرادی طور پر کر سکتے ہیں یا کم سے کم ان تاجروںکی دکانوں کے سامنے جو سڑک ہے سڑک کے اس حصہ کو گورنمنٹ یا پیپلز پارٹی کی سڑک سمجھنے کے بجائے اپنی سڑک عوام کی سڑک سمجھ کر اپنے اوپر ہی ایک احسان کر دیا کریں کہ خود پانی کا ہلکا سا چھڑکاﺅ وقفے وقفے سے کر دیا کریں تاکہ ان کے مسائل کچھ حد تک تو دور ہو سکیںکیونکہ ہڑتال کرنے سے یہاں صرف وقتی طور پر مسائل دور ہوتے ہیں جبکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے۔ انتظامیہ بے بس ہے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے جبکہ ان کے اوپر بھاری ذمہ داریاں ڈال دی گئی ہیں اسی وجہ سے ہر طرف افسر شاہی کا راج ہے ،ہر ایک لیڈر بنتا جا رہاہے نہ کوئی صحیح طریقے سے اپنے حقوق مانگتا ہے اور نہ کوئی ان کو حقوق دلوانے والا ہے ۔

سپلائی بازار کی ہڑتال کے دو ہی دن بعد انجمن تاجران پونچھ ڈویثرن کی کال پر بجلی کی غیر اعلانیہ 23,23گھنٹے تک جاری رہنے والی لوڈ شیڈنگ کے خلاف ڈویثرن کے چاروں اضلاع،پونچھ،باغ ،سدھنوتی اور حویلی کے تاجران نے شٹر ڈاﺅن ہڑتال کی جبکہ کچھ اسٹیشنوں پر شٹر ڈاﺅن کے ساتھ ساتھ پہیہ جام ہڑتال بھی کی گئی ۔اس ہڑتال کی وجہ سے حکومت پر کیا اثر پڑا یہ ایک الگ سوال ہے ۔لیکن ہڑتال سے 2دن پہلے ہی واپڈا حکام اور آزاد کشمیر حکومت نے ہڑتال کو کم موثر بنانے کیلئے بجلی کی لوڈ شیڈنگ قدرے کم کر دی۔ لیکن یہ حکمت عملی زیادہ موثر ثابت نہ ہوئی اور پہلی مرتبہ انجمن تاجران پونچھ ڈویثرن نے افتخار فیروز کی قیادت میں کامیاب ترین ہڑتال کی ،چاروں اضلاع میں کاروبار زندگی مکمل طور پر بند رہا ،مریضوں کیلئے اور دوسرے شہروں سے آنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،ہڑتال کو ا س وقت تک جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے جب تک ان کے مطالبات منظور نہیں کیے جاتے ۔ آنے والے دنوں میں شٹر ڈاﺅن ہڑتال کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹر یونین بھی ہڑتال کرنے اور پہیہ جام کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے اس لیے حکومتی ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ توڑ پھوڑ ،مار دھاڑ اور آنسو گیس کی شیلنگ سے پہلے ہی عوامی مسائل کی طرف توجہ دے ان کو وسیع بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرے ۔

اس وقت آزاد کشمیر بھرمیں ماسوائے محکمہ تعلیم میں بھرتی سرکاری اساتذہ کے شاید ہی کوئی ایسا پیشہ ہو گا جس کہ لوگ خوش و خرم زندگی گزار رہے ہوں۔ ہڑتالوں کی حالت یہ ہے کہ تمام ٹریڈ یونینز کے ممبران، محکمہ برقیات کے ملازمین ،ہیلتھ ایمپلائیز ایسوسی ایشنز،محکمہ مال کے ملازمین (گرداور اور پٹواری)،مزدور یونینز،ایپکا،ٹرانسپورٹ یونینز،کلر ایسوسی ایشن، پیرامیڈیکل ایسوسی ایشنز،ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشنز،پی ایم اے،وکلائ،حکومت مخالف سیاسی جماعتیں جن میں اس وقت پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی،شباب ملی، اسلامی جمعیت طلبہ،مسلم لیگ ن ،مسلم کانفرنس ،جمعیت علمائے اسلام سمیت قوم پرست تنظیموں کے تما م دھڑے جن میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ یاسین ملک گروپ ، جموں کشمیرنیشنل عوامی پارٹی،جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن،جموں کشمیر لبریشن فرنٹ رﺅف کشمیری گروپ،جموں کشمیر پی این پی،جموں کشمیر این ایل سی اور جموں کشمیر نیشنل لبریشن لیگ سمیت دیگر سیاسی جماعتیں ، کالجز ،یونیورسٹیز اور سکولز کی سطح تک کی تمام طلبہ تنظیمیں سال میں اپنے مسائل کو دیکھتے ہوئے جب جی چاہا ہڑتال کیے رکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ سول سو سا ئیٹی کے نمائندگان ،این جی اوز کے نمائیندگان کے علاوہ عوام بھی اپنے تمام تر مطالبات کی منظوری کیلئے ہڑتالیں کرتے ہیں ، اب ہڑتالوں کے بھی مختلف درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہیہ جام و شٹر ڈاﺅن ،صرف پہیہ جام ،صرف شٹر ڈاﺅن ،نیم شٹر ڈاﺅن و نیم پہیہ جام کے علاوہ علامتی بھوک ہڑتال اور1 گھنٹہ سے لے کر 24گھنٹے تک کی ہڑتال ہوتی ہے ۔یہاں ایک اہم بات کا ذکر کروں گا کہ جب بھی پونچھ کے لوگ ہڑتال کرتے ہیں تو پہلی ہڑتال کوآخری ہڑتال سمجھ کر اپنے تمام تر مطالبات دن رات میں تسلیم کروانے کی کوشش کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انتظامیہ اور دیگر ذمہ داران مسائل کو فوری بنیاد پر حل کرنے کا کہہ کر چلے جاتے ہیں ، بڑے بڑے وعدے کیے جاتے ہیں لیکن کچھ ہی دن تک وعدہ نبھا پاتے ہیں اس کے بعد وہی حالت ہو جاتی ہے کیونکہ اب سب ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھنے لگے ہیں ۔مسائل کے ذمہ داران کو علم ہے کہ اب ہڑتال کیلئے عوام کو باہر لانے کیلئے کم وبیش کچھ ہفتوں تک کا وقت تو لگ ہی جاتا ہے اس لیے تب تک متعلقین کو خوب تنگ کیا جاتا ہے ۔یہاں ایک چیز کا ذکر کروں گا کہ سب محکمے حکومت سے ناراض ہیں سوائے قوم کے معماروں کی آبیاری کرنے والے سرکاری اساتذہ ،ان اساتذہ کرام کے آرام کو دیکھ کر ایک تسلی سی ہوتی ہے کیونکہ ان کی تنخوائیں انتہائی معقول جبکہ زیادہ تر اساتذہ کرام اداروں میں جا کر اپنی تنخواہ کا ادھار حکومت پر ڈال آتے ہیں جبکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں بچوں کی تعداد انتہائی کم ہے یہاں تک دیکھنے میں آتا ہے کہ جہاںبائیس بائیس ،چوبیس چوبیس کا سٹاف موجود ہے جو ماہانا چھ سے دس لاکھ تک تنخوائیں وصول کرتا ہے لیکن ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد 50سے 100کے درمیان بھی بمشکل ہوتی ہے اور جو بچے یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہوں ماسوائے چند گنے چنے بچوں کے وہ جدید معیاری تعلیم سے میلوں دور ہوتے ہیں۔اس تعلیمی مسئلے کا ذمہ دار کون ہے یہ ایک الگ موضوع ہے جسکو کسی اور تحریر میں شامل کیا جائے گا ۔یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ ہمارا حکومتی نظام تو خراب ہے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ اس وقت ملک میں حکومتی رٹ نام کی چیز نظر نہیں آتی ،ہر ایک کیلئے اپنا قانون ہے غریب کیلئے الگ ،سرمایہ دار وجاگیردار کیلئے الگ ،سیاسی لوگوں کیلئے الگ ،صحافیوں ،وکلاءاور بیوروکریٹس کیلئے الگ الگ قانون بنا ہو ا ہے ۔جس کو جہاں دل چاہے جو مرضی کر دے ۔ہمیں اس معاشرے میں بہتری لانے کیلئے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے عوامی سوچ کو بلند کرنے کیلئے ایک وسیع حکمت عمی کے ساتھ آگے بڑ ھنا ہو گا،ہر ایک کو اپنی سوچ میں ایک مثبت تبدیلی لانی ہوگی اس تبدیلی کیلئے ہمیں اپنے نونہالوں کو آج سے ہی تیار کرنا ہو گاان کی تربیت کا انتظام ہمیں ہی کرنا ہو گا اس سب کیلئے ہمیں تعلیمی میدان میں مکمل تبدیلی کرنی ہو گی ،وقتی مفادات کو سائیڈ لائن کرنا ہو گااجتما عی سوچ کو پروان چڑھانا اور ایک دوسرے کیلئے قربانی دینا بھی سیکھنا ہو گا تاریخ گواہ ہے کہ قومیں قربانی دیئے بغیر اپنے بلند مقاصد حاصل نہیں کر سکی ہیں۔

پونچھ ڈویثرن میں موجودہ ہڑتال کے حوالے سے حکومتی بے حسی سب کے سامنے آ چکی ہے اسی ڈویثرن سے تعلق رکھنے والے صدر آزاد کشمیر یعقوب خان ،سپیکر اسمبلی غلام صادق،چیئرمین پبلک اکاﺅنٹ کمیٹی عابد حسین عابد سمیت دیگر بہت سی اعلیٰ حکومتی شخصیات جن میں درجنوں کے حساب سے وزیر ،مشیراور دیگر عملا موجود ہے جوحکومتی فنڈز سے اربوں روپے وصول کرتا ہے ، ان سب کی ذمہ داریاں صرف ڈویثرن تک محدود نہیں ہیں بلکہ آزاد کشمیر کے دیگر ڈویثرن میں بھی ان کے ذمہ بہت سے کام ہیں لیکن یہ لوگ جب اپنے گھر کے مسائل دور نہیں کر سکتے تو ان سے محلہ کی بہتری کیسے ممکن ہو گی ، یہ تمام لوگ مل کر بھی بجلی کی لوڈ شیدنگ سے نجات حاصل نہیں کر سکے یہ ایک بڑی ناکامی ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ آزاد حکومت وفاق کے سامنے بے بس ہے ۔ ہڑتالوں کا بہت اثر ہوتا ہے ان کے ذریعے عوام و دیگر لوگ اپنے مطالبات حکومت تک پہنچاتے اور ان کے ذریعے انتظامیہ کو بھی با آسانی عوامی مسائل کو حکومتی نمائندگان و ذمہ داران تک پہنچانے میں آسانی ہوتی ہے اس لیے عوام کو چاہیے کہ اپنی سوچ کو بلند کریں مطابات کی منظوری کیلئے ہڑتالین بھی ضرور کریں لیکن کسی کے آلہ کار نہ بنیں کیونکہ یہاں پر بے مار لوگ ایسے ہیں جو اپنے مذموم مقاصد کیلئے عوام کو ایک عرصہ سے استعمال کرتے رہتے ہیں ۔پونچھ ڈویثرن کے تاجران کو افتخار فیروز جیسا بہادر و نڈر لیڈر ملا ہے اس کا ساتھ دیں اور عوامی مسائل کے حل کی طرف بڑھیں۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 66208 views Columnist/Writer.. View More