بیوٹی پارلر

نئے دو ر کے نئے تقاضے ۔ خواتین ہوں کہ مرد حضرات خوبصورت بننا اب سب کے اختیار میں ہے۔ جیب میں اگر پیسہ ہو تو پھر سانولی رنگت کی فکر کیاموٹے نقوش چند ہفتوں کا کھیل۔ موٹاپا پندرہ دن میں غائب۔ اُلجھے ہوئے بال صرف اور صرف تین سٹنگز میں نرم و ملائم جگماتے کے لوگ رشک کریں آپ پہ۔ خواتین کے چہرے پر غیر ضروری بالوں کی وجہ سے پریشانی ہو یا مردوں کے داڑھی کے اوپر اور پیشانی پر بال۔ اب لیزر سے سب غائب۔ سب کچھ ممکن ہے بس تھوڑی خود پہ توجہ بہت سا پیسہ اور وقت درکار ہے۔ اور یقینا بہت سے قاری مضمون پڑھتے ہوئے زیرِ لب دھرا بھی رہے ہوں گے کہ ہم تو بھر پور طریقے سے اپنے اوپر توجہ دیتے ہیں اور تقریباً روز ہی بیوٹی پارلر ز ، مین سیلونز MenSaloonsکا رخ کرتے ہیں اور بھئی ایسا کیوں نہ کیا جائے جبکہ آج کل ہر گلی محلے میں چار پانچ خوبصورت بنانے کے کارخانے کھلے ہوئے ہیں۔

خوبصورت نظر آنے کی خواہش ہر شخص کرتا ہے۔ خواتین اِس حوالے سے زیادہ حساس ہوتی ہیں اِس لئے شہر بھر میں بیوٹی پارلرز کی بھرمار ہوتی جارہی ہے۔ بیوٹی پارلرز میں حالیہ چند برس میں بے حد ترقی ہوئی ہے۔ حکومت کی جانب سے بیوٹی پارلر کھولنے کے لئے کوئی طریقہ واضح نہیں کیا گیا نہ حکومت سے کوئی اجازت لینا ہوتی ہے اور نہ کسی قسم کے لائسنس کا اجراءکیا جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے ہر دوسرا شخص اسے معقول کاروبار سمجھتے ہوئے شروع کر رہا ہے۔ کراچی میں کئے گئے سروے کے مطابق کراچی کے 18ٹاﺅنز میں اس وقت 14,838بیوٹی پارلرز ہیں اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ان بیوٹی پارلرز میں ایک لاکھ سے زائد خواتین ورکرز کام کرتی ہیں اور صرف 3ہزار بیوٹی پارلرز رجسٹرڈ ہیں۔ صوبائی حکومت ان سے ٹیکس بھی وصول کر رہی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انسانی جلد جیسے حساس معاملے کے لئے بیوٹی پارلرز میں کام کرنے والی خواتین کو تین ماہ کا بیوٹیشن کورس کرایا جاتا ہے اور یہ کورس سندھ ٹیکنیکل بورڈ کراتا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری حکومت کی نظر میں فولادی مشینوں کے متعلق کورسز اور انسانی جلد کے متعلق کورسز میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ تین ماہ کا بیوٹیشن کورس کرنے والی خواتین اپنا بیوٹی پارلر کھول لیتی ہیں یا کسی اور بیوٹی پارلر پر کام کرتے ہوئے انسانی جلد پر تجربات شروع کر دیتی ہیں۔

ذرا غور کیجیے ہم سب کس نادانی سے اپنے آپ کو ان بیوٹیشن ورکرز کے حوالے کردیتے ہیں جو بیوٹی پروڈکٹس کا نام پڑھنے سے بھی قاصر ہیں۔ 90 فیصد بیوٹیشن اگر تعلیم یافتہ ہوں بھی تو وہ اُن کیمیکلز کے بارے میں نا واقف ہیں جو کسی بھی پروڈکٹ میں شامل ہوتی ہیں۔ اور ظاہر ہے جب اِن پروڈکٹ کے اجزاء ترکیبی کا علم ہی نہ ہوگا تو مختلف قسم کی جلد پر اِن کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں اس سے انہیں کیا غرض۔ چونکہ بیوٹی پارلرز پیسہ کمانے کا سب سے آسان نسخہ ہے تو اِس منافع بخش کاروبار میں شہر کے متوسط علاقوں میں قائم دولت کی ہوس میں مبتلا افراد غیر معیاری پروڈکٹس اور غیر تربیت یافتہ افراد کو کام پر رکھ کر لوگوں کی زندگیاں تباہ کر رہے ہیں۔

اِس بات کا اندازہ ہمارے شہر میں تیزی سے بڑھتی ہوئی اسکن ڈیزیز سے لگایا جاسکتا ہے۔ ایک سروے کے مطابق جلدی امراض میں مبتلا خواتین میں سے 8سے 10روزانہ بیوٹی پارلرز سے متاثر خواتین ہسپتال کا رخ کرتیں ہیں۔ درجنوں واقعات ایسے سامنے آئے ہیں جن میں خواتین کے جسم پر بال آجاتے ہین ی یا پھر ان کے سر کے بال غائب ہو جاتے ہیں ۔چہرہ اور جسم کے دوسرے اعضاءجھلس جاتے ہیں۔ جبکہ ناقص انتہائی خطرناک قسم کے کیمیکلز والی مہندی کے استعمال سے شدید الرجی اور ہاتھوں میں کالے دھبّے پڑنے کی شکایت تو بہت عام ہے۔

ایک دن میں گورا کرنے والے فیشلز تو موجود ہیں اور فوری طور پر ان کا رزلٹ اچھا نکلتا ہے لیکن دو دن بعد ہی چہرے پر روکھا پن ، جلد کا بے جان ہوجانا، جھریاں پڑجانا اور رنگت خراب ہوجانا جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ایک تاثر یہ بھی ہے کہ یہ کیمیکلز جسم کے بیرونی حصّوں پر ہی اثر انداز ہوتے ہیں جبکہ ایسا ہر گز نہیں۔ بیوٹی پروڈکٹس میں شامل یہ خطرناک کیمیکلز جلد میں جذب ہو کر اندرونی نظام کو بھی شدید متاثر کرتے ہیں۔

خواتین کی اکثریت ان غیر معیاری بیوٹی پارلر ز کا شکار ہو کر اپنا چہرہ چھپانے پر مجبور ہیں اور شدید ذہنی اُلجھاﺅ کی وجہ سے نفسیاتی مریضہ بن گئی ہیں۔سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا خوبصورتی اتنی ہی اہم چیز ہے کہ اِس کو حاصل کرنے کے لئے خود کو ان غیر معیاری بیوٹی پارلر کے حوالے کر دیا جائے؟

چہرے کی خوبصورتی کا تعین خواتین خود تو اس قدر نہیں کرتیں جس قدر معاشرہ کرتا ہے۔ ہم نے ہی کسی انسان کے اچھے یا برے ہونے کا پیمانہ ظاہری خدوخال کو بنا لیا ہے۔ شادی شدہ خواتین اگر میک اپ نہ کریں یا اپنے ظاہری حسن کا خیال نہ رکھیں تو کہا جاتا ہے کہ شاید اس کی ازدواجی زندگی کامیاب نہیں۔ بیٹی اگر معمولی شکل و صورت کی ہو تو ماں ہی اُسے بات بے بات طعنہ دے کر اُس میں احساس کمتری پیدا کر دیتی ہے۔ دوسری طرف بیویوں کو یہ فکر رہتی ہے کہ وہ اگر خوبصورت نظر نہ آئیگی تو ان کے شوہرِ نامدار دوسری خواتین کے حسن کے دیوانے ہو سکتے ہیں۔ گویا سجتے سنورتے رہنا ایک مجبوری بن گیا ہے۔ رشتے طے کرنے کے لئے بھی پہلا معیار ظاہری حسن رکھا جاتا ہے۔ ساتھ ہی بیوٹی پارلر کا رخ کر کے خود کو اعلیٰ دکھانا ہمارے معاشرے میں ایک Status Symbolبنتا جا رہا ہے۔

سارے مسائل کا واحد حل اپنی سوچ کی چلن کو بدلنا ہے جب فردِ واحد اپنی نگاہ وسیع رکھے گا تو رفتہ رفتہ یقیناً تمام معاشرے کی سوچ میں بدلاﺅ آئیگا۔

خوبصورت نظر آنا آپکا حق ہے مگر اس کے لئے اپنے آپ کو کسی اور کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا سراسر غلط ہے۔ جب آپ زندگی کے دوسرے معاملات کو انتہائی سمجھداری کے ساتھ سنبھالتی ہیں تو پھر اپنے ظاہری حسن کی نگہداشت ذرا سی سوجھ بوجھ کے ساتھ خود بہتر انداز میں کر سکتی ہیں۔ بجائے اسکے کہ آپ بہت سا وقت اور پیسہ برباد کریں ۔ جبکہ سوال صرف مادی چیزوں کا نہیں ۔ خطرناک کیمیکلز آپ کے اندرونی اور بیرونی نظام کو ناقابلِ تلافی نقصان بھی پہنچاتے ہیں ۔ بالآ خر خوبصورتی کا خواب پایہ تکمیل ہونے کی بجائے اسکن ڈیزیسز ہسپتال کے چکر لگانا مقدر بن جاتا ہے۔ خوبصورت بننا ایک دن میں ممکن نہیں ۔ گھر میں باورچی خانہ میں ہی آپ کے خوبصورت بننے کا بہت سا سامان موجود ہے۔ صرف ہلدی ایک چمچ لے کر اُسے پانی میں گھول کے پی لیا جائے تو رفتہ رفتہ رنگت نکھر جائیگی۔ اُبلی ہوئی لوکی کا پانی پینے سے جھریاں نہیں آتیں۔ لونگ ، بادام، چاول کا آٹا مرکب بنا کر رکھ دیا جائے اور استعمال سے پہلے لیموں کے چند قطرے شامل کر لیے جائیں تو یہ اسکرپ مارکیٹ میں دستیاب خطرناک کیمیکلز سے بنائے گئے اسکرپ کے مقابلے میں انتہائی فائدہ مند ہے۔ روزانہ کورن فلور کا ماسک یا ملتانی مٹی کے ماسک کو چہرے پہ لگا دیا جائے تو کسی بیوٹی پارلر میں فیشل کی ضرورت نہیں رہے ۔ اگر خمیر کو معمولی سے دودھ میں پیسٹ بنا کر چہرے پہ لگایا جائے تو ڈیٹ اسکن، بلیک ہیڈس اور وائیٹ ہیڈس سے مکمل نجات مل سکتی ہے۔ سرسوں کے تیل میں ایلو ویرا کے پتے کاٹ کر پکائیں اور اس تیل کو چہرے اور جسم پر مساج کریں تو یقیناً کسی کریم کی ضرورت نہ پڑے گی۔ اس کے علاوہ بھی نجانے کتنی ہی ایسی چیزیں ہیں جو قدرتی طور پر آپ کی خوبصورتی میں اضافہ کر سکتی ہیں۔ یہ بات یاد رکھئےے کہ مختلف قسم کی کریموں کا مرکب استعمال کر کے آپ کی رنگت ایک ہفتے میں نکھر ضرور جائے گی لیکن طبعی ماہرین کے مطابق ایسی پروڈکٹس تیزی سے اسکن کیسز میں اضافہ کر رہی ہیں۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔

خوبصورتی کے لئے بنیادی شرط صحت مند چمکدار جلد ہے۔ چہرے پہ موجود بالوں کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہونا ٹھیک نہیں۔ غیر ضروری بالوں کے خاتمے کے لئے صرف اور صرف کسی ماہر ڈرماٹالوجسٹ ہی سے رابطہ کریں۔ بہت سی مائیں کم عمری میں ہی اپنی بچیوں کے چہرے کی ویکسنگ کروادیتی ہیں۔ جو کہ انتہائی غلط اقدام ہے۔ اول تو چہرے کے بالوں کو یوں مستقل طور پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا واحد حل لیزر ٹریٹمنٹ ہی ہوتا ہے جو کہ

ایک مہنگا عمل ہے۔ ساتھ ہی لیزر ٹریٹمنٹ ایک جلدی امراض کا ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے کوئی بیوٹی پارلر یا صرف بیوٹیشن نہیں!

پرانے زمانے میں مائیں بچوں کے ماتھے کا رواں دیسی ٹوٹکوں سے نکالتی تھیں۔ جب کہ بہت حد تک یہ ٹھیک بھی ہیں۔ بچیوں کے پیدا ہونے سے ایک سال کی عمر کے درمیان اگر ماں کے دودھ کو روئی کی مدد سے چہرے پر لگایا جائے تو یقینی طور چہرے کے بال ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائینگے۔

بھوﺅں کو تراش کے خوبصورت بنانا ٹھیک ہے لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مستقل آئی برو بنوانے سے خصوصاً چھوٹی عمر میں بھوئیں ترشوانے سے آنکھ کا اوپری حصّہ جسے پپوٹا کہتے ہیں وہ ڈھیلا پڑجاتا ہے۔ اس طرح چہرے کی خوبصورتی متاثر ہوتی ہے۔ بھوﺅں کی یہ تراش خراش جلد کو سخت کر دیتی ہے جس کی وجہ سے چہرے کی معصومیت میں کمی آجاتی ہے۔

اختتامیہ:
خوبصورت بننا آسان ہے فقط خود پہ توجہ دیجےے۔ غیر معیاری پروڈکس اور غیر تربیت یافتہ بیوٹیشنزکے ہاتھوں خود کو برباد مت کریں۔ پانچ وقت نماز کے لئے وضو کرنا اپنی خوبصورتی کو بڑھانے کا سب سے اہم نسخہ ہے ۔ جس سے نہ صرف باطنی بلکہ سو فیصد ظاہری حسن بھی حاصل ہوتا ہے۔

مرد ہوں یا خواتین ہم سب کو ہی یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ظاہری حسن سے کہیں زیادہ اہمیت باطنی حسن کی ہے۔ جو شخص اندر سے خوبصورت اور پاک و صاف سوچ کا مالک ہوگا باہر سے بھی اتنا ہی پر سکون اور خوبصورت نظر آئیگا۔ پھر سانولی رنگت ہو یا موٹے نقوش یہ سب بے معنیٰ باتیں ہیں۔ فقط باطنی خوبصورتی ظاہری خوبصورتی کی آئینہ دار ہے۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283110 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.