پتر گھر وچ لڑائی نئیں پائی دی
بے برکتی ہندی اے،ایہہ لڑائی تے رزق دا گھاٹا ہندی اے- مجھے امی جان کا یہ
فقرہ آج بھی یاد ہے جب کبھی گھر میں کوئی لڑائی جھگڑے والی بات ہو جاتی تو
امی جان یہی کہتیں۔۔۔۔ مجھے امی جان کا یہ فقرہ اس وقت بہت یاد آیا جب میں
اسی ماہ کی یعنی جون کی ٢٢ تاریخ بروز جمعہ کو صبح سویرے اپنے محلے کے ایک
گھر کے قریب سے گزر رہا تھا اس گھر سے لڑائی جھگڑے کی آواز آ رہی تھی۔۔۔۔۔۔محلے
دار ہونے کے ناطے میں اک پل کے لیے رکا اتنے میں اس گھر کے بڑے میاں روتے
ہوئے باہر نکلے مجھ سے ان کی یہ حلت دیکھی نہ گئی اور میں نے ان سے وجہ
پوچھی تو مجھے اپنی دکھ بھری داستاں سنانے لگے،،، جس کا آغاز انہوں نے اس
بات سے کیا۔۔۔١پتر ویکھ میں ایناں دا پیو واں کہ ایہہ میرے پیو نیں مجھے
بڑے میاں کی یہ بات سن کر بہت رنج ہوا میری آنکھیں بھی نم ہونے سے نہ رہ
سکیں۔۔۔۔بڑے میاں مجھے جو اپنی داستان غم سناتے روتے رہے وہ کچھ یوں
تھی،،،پتر ویکھ میں ایناں پتراں نوں اپنے خون پسینے سی کمائی نال پڑھایا
لکھایا تے اج ایہہ مینوں ای سبق پڑھاندے نیں۔۔۔بڑے میاں نے مجھے بتایا کہ
میں اکیلا کمانے والا تھا اور میرے بارہ بچے چودہ افراد کھانے والے اور میں
اکیلا کمانے والا اپنی راتوں کی نیند اور دن کا سکون برباد کر کے سارے بچوں
کو تعلیم دلوائی۔۔۔۔انہوں نے جس چیز کی خواہش کی کبھی ان کو دوسری بار کہنے
نہیں دیا اور ان کی ہر خواہش پوری کی کبھی ان کو کسی چیز کی کمی محسوس نہیں
ہونے دی۔۔۔۔۔تاکہ کل کو ان میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ ابا نے ہمارے لیے کچھ
نہیں کیا ہمیں فلاں چیز میسر نہیں کی آج میری ساری اولاد جوان ہے اور اچھا
خاصا پڑھی لکھی ہے۔۔۔۔۔۔۔اور آج ہم ماں باپ کو غیر تعلیم یافتہ ہونے کے
طعنے سننے پڑتے ہیں۔۔۔طرح طرح کی باتیں سننا پڑتی ہیں بارہا ہمارا دل
دکھایا جاتا ہے اور اگر کبھی کہو کہ ہم نے تم سب کو پڑھایا لکھایا سیدھا
صاف اور کھرا جواب ملتا ہے کہ کون سا ہم پر احسان کیا نہ ہمیں جنتے تو نہ
یہ سب کچھ کرنا پڑتا۔۔۔۔۔میرے سارے پتر یعنی آٹھ میں سے چھے نوکریاں کر رہے
ہیں کوئی پرائیویٹ تو کوئی سرکاری لیکن ہر کسی کو ایک دوسرے سے یہی گلہ ہے
کہ میں زیادہ کماتا ہوں اور تم کم،،،،،تجھے فلاں چیز حاصل ہے تو مجھے فلاں
میسر نہیں ہر کوئی اپنی من مرضی پہ اترا ہوا ہے۔۔۔۔۔ہم دونوں تو ان میں
جیسے چکی کے دانوں کی طرح پس رہے ہیں ان کو چھوڑیں بھی کیسے کوئی حرام کی
اولاد تو ہے نہیں ۔۔۔۔ویسے بھی اگر کسی کی انگلی کٹے گی تو وہ شخص خود ہی
اپنی انگلی منہ میں ڈالے گا کوئی دوسرا تو ایسا نہیں کرتا،،،،،کوئی دن ایسا
نہیں نہیں گزرتا جب گھر میں فساد نہیں ہوتا ہم چھے بھائی اور دو بہنیں تھے
کوئی سرکاری نوکری بھی نہیں تھی اور نہ ہی پرائیویٹ سب کے سب ان پڑھ تھے
صرف اور صرف کھیتی بھاڑی کرتے تھے لیکن پھر بھی خدا کی رحمت تھی گھر میں
بہت کچھ تھا،،،،،،،اپنے علاقے میں ہمارا نام تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے
کبھی لڑائی جھگڑا نہیں کیا تھااور نہ ہی ایک دوسرے پر طعنوں کی بوچھاڑ کی
تھی رزق خدا نے اتنا دیا ہوا تھا کہ آس پاس کے یتیم مسکین اور غریب غربا
بھی مہینوں تک کا اناج لے جاتے تھے اور خدا کا فضل تھا سب پر۔۔۔۔۔۔۔آج ہم
بوڑھے ہو گئے ہیں تو نہ جانے کس جرم کی سزا مل رہی ہے کہ دوسروں کی جھولیاں
بھرنے والے آج خود مسکینوں محتاجوں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں،،،،،،،بڑے
میں نے جب یہ بات کہی تو میں نے بڑے میاں سے کہا کہ مایوسی گناہ ہے اور
مایوس ہر گز نہیں ہوتے آپ تو خود سیانے ہیں اور آپ نے سارے نشیب و فراز کو
قریب سے دیکھا ہے بلکہ پرکھا ہے۔۔۔۔۔آپ کے خاندان کی یہ دکھ بھری داستان سن
کر رنج تو بہت ہوا لیکن آئیں میرے ساتھ چلیں میرے ہاس بیٹھں کچھ میری سنیں
اور کچھ مجھے اپنی سنائیں اس سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا میں نے بڑے
میاں کا ہاتھ پکڑا اور ایک ہاتھ ان کے کاندھے پر رکھ کر ان کے گھر سے تھوڑے
فاصلے پر جا کر بیٹھ گئے۔۔۔۔۔میں نے بڑے میاں سے کہا دیکھیے آپ کے خاندان
کا مسئلہ بجا ہے لیکن دوسری جانب پورے پاکستان کو یہی مسئلہ درپیش ہےذرا
پوچھیے وہ کیسے؟،،،،،،،ہم اپنے بچوں کو مشکلیں کاٹ کر پڑھا لکھا تو لیتے
ہیں لیکن جب پڑھائی کے بعد نوکری کی تلاش شروع ہوتی ہے تو اول تو کسی نوکری
کے لیے کوئی آسامی ہی خالی نہیں ملتی اور اگر بد قسمتی سے خالی ہو بھی تو
وہ نوکریاں صرف اور صرف ۔۔۔۔ایم۔پی۔اے۔ اورایم۔این۔اے۔ اور وزراء کے جاننے
والوں کے لیے ہی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر ہم غریب کہیں کوئی درخوست بھیج بھی
دیں تو ہمیں اس کی کوئی کال ہی نہیں آتی اور اگر کوئی اتھارٹی والا بندہ
ہاتھ لگ بھی جائے تو رشوت ہی کھلی ڈھلی مانگ لیتے ہیں لیکن رشوت تو رشوت ہے
تھوڑی ہو چاہے زیادہ۔۔۔۔۔اور رشوتی گے گھر بھلا بے برکتی نہیں ہو گی تو کیا
آسمان سے من و سلوٰی آئے گااور اگر اپنی قابلیت پر کوئی نوکری مل بھی جائے
تو تنخواہ ہی اتنی کم ملتی ہے کہ اس تنخواہ سے بچوں پیٹ کیا پلے گا جس سے
اپنی نوکری پر جانے کے لیے دو سوٹ بھی نہ آئیں ۔۔۔۔۔۔جب گورنمنٹ کے نوکر کی
پورے مہینے بعد تنخواہ آتی ہے تو جتنی تنخواہ ہوتی ہے اتنا ہی اس بیچارے پر
قرضہ چڑھا ہوا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ قرضہ اس مہنگائی کے دور میں ایسا عارضہ
ہے جس کا علاج نہ کسی طبیب کے پاس ہے تو نہ ہی کسی سائینس کے پاس۔۔۔۔۔۔یہ
بیماری پورے پاکستان میں ایسے پھیل گئی ہے جیسے خزاں آئے تو بہار کی ساری
بہاریں لوٹ لے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس مہنگائی نے پاکستان میں گھر گھر جھگڑے اور فساد
کا زہر گھول دیا ہے،،،،،اور،،،،،،اس کا قصور وار کون ہےآخر کون ہے اس کا
ذمہ وار؟آخر کس کی وجہ سے یہ ماں،،،،،،،،،جیسی دھرتی یعنی ۔۔۔پاکستان۔۔۔۔کیوں
ویران ہوتا جا رہا ہےآخر کیوں اس کی ہستی کو زبردستی اس کے اپنے پتر مٹانے
کی کوشش میں ذرا برابر بھی کمی نہیں چھوڑ رہےآخر کیوں اس پاک دھرتی کے
باشندوں کو اس مہنگائی کے ہاتھوں اتنے سستے دامون موت کے آگے بیچا جا رہا
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کون ہیں وہ لوگ جنہوں نے روٹی کے نوالوں کی جگہ معصوم جانوں کو
آگ کے شعلوں کے انعامات بخشے جن لوگوں کو پانی پینے کو چاہیئے انہیں خون کے
آنسو پینے کے مل رہے ہیں۔۔۔۔جنہیں لباس کی ضرورت ہے انہیں چیتھڑوں کی کھال
پہنائی جا رہی ہے۔۔۔۔۔جنہیں دھرتی پہ آرام کی ضرورت ہے انہیں دوسرے ملکوں
کے حلام بننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔۔۔۔۔وہ دوسروں کی چاکری کر رہے ہیں۔۔۔۔جن
بچیوں کی ڈولیاں اٹھنی چاہییں ان کی ارتھیاں اٹھ رہی ہیں ۔۔۔۔جس دلہن کو
سونے کی بالیاں کانوں میں سجنی چاہییں اس دلہن کے سوہرے والوں کے منہ سے
گالیاں سننی پڑتی ہیں۔۔۔۔۔۔اس سارے فساد کی جڑ کون ہے۔۔۔۔۔۔۔حکومت۔۔۔۔۔۔۔جس
کیوجہ سے یہ مہنگائی یہ لڑئی اور یہ بے برکتی پاکستان کے گھر گھر میں جنم
لے رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ دھرتی یہ ماں جیسی دھرتی آج بھی چیخ چیخ کر اس
خکومت کو کہہ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پتر گھر وچ لڑئی نئیں پائی دی بے برکتی ہندی
اے ،،ایہہ لڑائی تے رزق دا گھاٹا ہنیدی اے۔ |