ایف سی آر سے صحافت تک

گلگت بلتستان میں صحافتی انقلاب کی سرگزشت

گلگت بلتستان آزادی کے بعد اپنی ارتقائی منازل بڑی تیزی سے طے کر رہا ہے۔ اس ضمن میں ایک عمومی سوال اکثر اُٹھایا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان میں صحافت کی شُروعات کب اور کیسے ہوئیں، قارئین کی دلچسپی کے لیے راقم نے مندرجہ ذیل معلومات مسٹر ظفرحیات پال اور دیگر صاحب قلم حضرات سے حاصل کیں ، جنہیں نذر قارئین کیا جا رہا ہے۔

اٹھائیس ہزار مربع میل پر محیط، گلگت بلتستان کے علاقے، پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع ہےں۔ یہ علاقہ جات جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کے لیے بے حد اہم ہیں، کیونکہ یہ وہ علاقے ہیں جن کی سرحدیں ایک طرف چین اور افغانستان اور دوسری جانب تبّت اور ہندوستان سے ملتی ہیں ، جبکہ یہی سرحدیں سیِّاحوں کوچین ،وسط ایشیائی ممالک اور روس تک جانے کا راستہ فراہم کرتی ہیں ۔ قدیم شاہراہ ریشم انہی علاقوں سے ہو کر گزرتی ہے،جو پُرانے زمانے میں ہندوستان ، چین، تبّت اور وسط ایشیائی ریاستوں کے درمیان واحد تجارتی شاہراہ تھی۔ہندوستان میں انگریزوں کے دور میں ان علاقوں کو اہمیت اس لیے بھی حاصل تھی کہ ان کی سرحدیں چونکہ روس سے ملتی تھیں اور انگریز حکومت ہمیشہ اس خوف میں مبتلاءرہتی تھی کہ مبادہ کہیں روس ان راستوں سے ہندوستان پر حملہ آور ہو کرہندوستان جیسے بڑے ملک ، جسے وہ ’سونے کی چڑیا ‘کا نام دیتے تھے ، کواُن سے چھین نہ لے۔ یہی وجہ تھی کہ دسمبر 1891ءمیں انگریزوںنے پیش بندی کے طور پرریاست ہُنزہ پر حملہ کر کے وہاں روس کی سرحد پر اپنی سرحدی چوکی قائم کر کے اپنے آپ کو محفوظ کر لیاتھا۔

پاکستان کے قیام کے ڈھائی ماہ بعد یکم نومبر 1947ءکو گلگت کو مہاراجا کشمیر ہری سنگھ کی ماتحتی سے آزاد کروا کرپاکستان میں شامل کر لیا اور مہاراجا کی جانب سے مقرر یہاں کے گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر لیاگیا۔انگریزوں کے زمانے میں گلگت کا علاقہ انگریز پولیٹیکل ایجنٹ کے ماتحت ہوتاتھا ، جنہوں نے یہاں سرحدی قوانین یعنی فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز(F.C.R.) ، جنہیں عرف عام میں کالے قوانین کا نام بھی دیا جاتا تھا، رائج تھے۔ پاکستان میں شامل ہونے کے بعد ،پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے تناظر میں ، ان علاقوں میں پاکستانی قوانین کورواج دینے کے بجائے ، یہاں ایف سی آر کو ہی بحال رکھا اور پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر سردار محمد عالم کے نام کے ایک شخص کو یہاں مقرر کر دیا گیا ، جبکہ انگریزوں کی قائم شدہ ’گلگت سکاؤٹس ‘کے نام سے موسوم ایک لیوی بھی یہاں موجود تھی ، جس نے یہاں کے انتظامی امور کو سنبھالا دیا ہوا تھا۔ آزادی سے پیشتر اس کے کمانڈنٹ انگریز ہوا کرتے تھے۔ اس کا آخری انگریز کمانڈنٹ میجر ولیم الیگزنڈر براؤن تھا ، جس نے گلگت کی آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا تھا،جس کا ثبوت یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے اُس کو پاکستان کا ایک بڑا اعزاز نشان پاکستان عطا کیااور جو آزادی ¿ گلگت کے بعد 12جنوری 1948ءکو گلگت چھوڑ کر واپس چلا گیا تھا۔

1947ءسے لے کر 1970ءتک یہاں کے سیاسی اور سماجی حالات میں کوئی خاص تبدیلی رُونما نہیں ہو سکی۔یہاں پر واقع دو بڑی ریاستیں ہُنزہ اور نگر بدستور اپنے راجاؤں کے زیر اثر اپنی پُرانی ڈگر پر ہی چلتی رہیں، جبکہ ان ریاستوں کی رعایہ بالعموم ریاست ہُنزہ سے تعلق رکھنے والے وہ باشندے ، جو تعلیم یا روزگار کے سلسلے میں کراچی اور پاکستان کے دیگر شہروں میں زندگی بسر کر رہے تھے ، وہ پاکستان کے جمہوری قوانین کے پیش نظر اپنی کم مائیگی پر ضرور شاکی رہتے تھے اور اس کا اظہار پاکستان کے مختلف اخبارات کے ذریعے کرتے رہتے تھے۔راجگی نظام میں موجود مالیہ اور بیگار کی وجہ سے گوعام لوگ بھی تنگ تھے، لیکن اس کے خلاف زیادہ تر وہ لوگ ہی تھے ، جو ان ریاستوں سے باہر زندگی بسر کر رہے تھے۔

قوموں کی ترقی میں پریس کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔گلگت سکاؤٹس سے ریٹائرڈ تین اشخاص صوبیدار بیتھام خان ، حوالدار خداامان خان اور حوالدار دادو خان کا باہم اتفاق ا س بات پر ہو گیا کہ گلگت میں ایک چھاپہ خانے (Printing Press)کا قیام عمل میں لایاجائے۔چنانچہ جون 1970ءکو لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک پرنٹر اور صحافی ظفر حیات پال چھاپے خانے کی جملہ مشینری وغیرہ لے کر گلگت پہنچ گئے۔ مسٹر ظفر حیات پال کا تعلق لاہور کے ایک صحافی خاندان سے ہے۔ ان کے والد بھی صحافی تھے۔وہ دو اخبارت روزنامہ غازی اور روزنامہ دیپ کے چیف تھے ،لیکن شومئی قسمت اُن کی بیماری آڑے آئی اور یہ دونوں اخبارات اپنے منتقی انجام کو پہنچ گئے۔مسٹر ظفرحیات پال کا خاندانی چھاپہ خانہ پال سنز پرنٹنگ پریس کے نام سے آج بھی لاہور میں قائم ہے ،جسے اُن کے بھتیجے چلا رہے ہیں۔ گلگت آ کر اُنہوں نے ہُنزہ والوں کے چھاپے خانے کو ترتیب تو دے دیا، لیکن بدقسمتی سے اس چھاپے خانے کومقامی حکومت کی طرف سے کام کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی، کیونکہ گلگت میں اس وقت ایف سی آر جیسے کالے قوانین رائج تھے۔ اُس وقت گلگت بلتستان کے ریذیڈنٹ بریگیڈیئر (ر) حبیب الرحمٰن خان تھے، جو کسی طور بھی گلگت میں پریس کی شروعات نہیں چاہتے تھے۔ اُنہوں نے ہُنزہ والوں کوپریس چلانے کی اجازت دینے سے صاف طور پر انکار کر دیا تھا ،جودو ماہ سے پریس چالو کرنے کی اجازت کی تگ ودو میں تھے۔ ایک ماہ مزید انتظا ر کرنے کے بعد ظفر حیات پال کا پیمانہ صبرلبریز ہو گیا اور وہ خود ریذیڈنٹ سے پریس چلانے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے ریذیڈنٹ کے دفتر پہنچ گئے۔ انٹرویو کے دوران اُن کے نام میں ’پال‘ کا لفظ خاصہ موضوع بحث بنا ۔ریذیڈنٹ موصوف لفظ پال کی وضاحت جاننا چاہتے تھے اور یہ مشکل وہیں پر موجود اُس وقت کے سول سپلائی افسرخواجہ امیرالدین مرحوم نے حل کر دی۔اُنہوں نے مسٹر ظفر حیات پال کے بتانے پر کہ اُن کا تعلق لاہور سے ہے،باقی مسئلہ خود ہی حل کر دیا ۔ کیونکہ وہ خودبھی کشمیری تھے اور پال خاندان بھی کشمیر کا ہی ایک خاندان ہے ،جو راجگان جے پال اور انندپال کی اولاد میں سے ہے۔خواجہ امیرالدین مرحوم کے پاس کشمیر کے خاندانوں کے بارے میں خاصی معلومات تھیں ۔ اُنہوں نے ایک تاریخی کتاب ’تاریخ اقوام کشمیر‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ، پال خاندن پر سیر حاصل روشنی ڈالی اور کہا کہ لاہور سے تعلق رکھنے والے ’پال خاندان ‘ کے افرادشعبہ صحافت اور پرنٹنگ سے منسلک ہیں اور کہ یہ بہت اصول پرست صحافی ہوتے ہیں اور مسٹر پال کی سفارش کی کہ انہیں چھاپہ خانہ چلانے کی اجازت دے دی جائے۔ اس ضمن میں اپنی جانب سے مکمل یقین دہانی کرائی کہ مسٹر ظفر حیات پال کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کریں گے۔ خاصی بحث کے بعدبالآخر ریذیڈنٹ کو ایف سی آر کی موجودگی میں اجازت دیتے ہی بنی، لیکن مسٹر پال پر اُس وقت کے آئی بی کے انچارج کیپٹن تماش خان کو اُن کی چیکنگ پر مقرر کر دیا گیا کہ پریس میں چھپنے والی ہر چیز کا باقاعدہ ریکارڈ مرتب کیا جائے ۔ یوں گلگت بلتستان کا پہلا چھاپہ خانہ معرض وجود میں آگیا ۔

مسٹر ظفر حیات پال گلگت بلتستان کے ایف سی آر جیسے قوانین سے بہت نالاں تھے، جن میں فرد واحد یعنی ریذیڈنٹ ہی اس علاقے کا مطلق العنان حکمران ہوتا تھا ۔ اُس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا تھا ۔بس یوں سمجھ لیجیے کہ گلگت بلتستان کی قسمت کا بلا شرکت غیرے مالک ہوتا تھا۔ ایسے سخت ماحول میں پریس کا قیام ہی بہت بڑی بات تھی ،جبکہ اس پر مستزاد یہ کہ مسٹر ظفر حیات پال نے ریذیڈنٹ کے حضور ایک اخبار کے ڈیکلریشن کی منظوری کی درخواست داغ دی ، جسے نہ صرف بڑی حقارت سے مسترد کر دیا گیا، بلکہ اس درخواست کو پیش کرنے پر موصوف کی اچھی خاصی سرزنش بھی کی گئی۔اس دوران مسٹر پال کے مضامین مختلف اخبارت میں شائع ہونا شروع ہوگئے ، جن میں نوائے وقت، قندیل، کوہستان ،چٹان اور بیباک وغیرہ شامل تھے اور زیادہ تر مضامین ایف سی آر کے خاتمے پر منتج ہوتے تھے۔

1971ءمیں سقوط ڈھاکہ کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو پاکستان میں بر سرِ اقتدار آ گئے ، جنہوں نے 1974ءمیں نہ صرف گلگت بلتستان کی ریاستوں کو ختم کر کے پاکستان میں شامل کر دیا ،بلکہ پورے پاکستان میں اس وقت موجود تمام ریاستوں کی بیخ کنی کر دی، جن میں ریاست ہائے سوات ، کالا باغ، بہاولپور ، دیر اور دیگر ریاستیں شامل تھیں۔گلگت بلتستان میں پاکستان کے قوانین کا اجراءشروع ہو گیا۔ قوانین یک دم لاگو کرنے کے بجائے ضرورت کے مطابق بتدریج ان علاقوں میں لاگو ہوتے رہے۔ اس موقع پر مسٹر پال کی بن آئی اور اُنہوں نے’ ہفت روزہ شمال‘ کی منظوری کے لیے باقاعدہ درخواست دے دی ، اُس وقت مسڑ سعید لیگل ایڈوائزر ہوا کرتے تھے، جنہوں نے مسٹر پال کووزارت قانون اسلام آباد سے ’پریس اینڈ پبلیکیشن ایکٹ 1963ئ‘کے اختیارات کو گلگت بلتستان تک بڑھانے کی درخواست کے ساتھ بھیجا ، جس کا اطلاق ان علاقوں میں جلد ہی ہو گیااور گلگت بلتستان میں یہ ایکٹ نافذ ہو گیا، جسے بعد میں پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈیننس میں ضیاءکے دور میں بدل دیا گیا۔

ہفت روزہ شمال کی درخواست کو حکومت گلگت نے درخوراعتنا ءنہ گردانتے ہوئے سرخ فیتے کی نظر کر دیا،لیکن مسٹر پال کی کوشش بسیار کے بعد 1977ءمیں موصوف کو حکومت کی جانب سے ایک مشروط قسم کا اجازت نامہ ملا ، جس کی سب سے بڑی شرط یہ تھی کہ مجوزہ اخبار میں کسی قسم کی سیاسی خبرشائع نہیں کی جائے گی،جس پر مسٹر پال نے احتجاجاً اخبار کا اجراءنہ کرتے ہوئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ عدالت کی لمبی لمبی تاریخیں مسٹر پال کو مایوس کرتی چلی گئیں ، لیکن اخبار کے اجراءکی وہ جوت جو وہ اپنے من میں جگا چکے تھے، وہ بجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ مایوسیوں اور ناکامیوں کا دور گزرتا چلا گیا ، تاآنکہ 1987ءمیں عدالت نے مسٹر ظفر حیات پال کے حق میں فیصلہ دے دیا ۔ اُنہوں نے اس اخبار کی اشاعت کے لیے ،ادب سے منسلک مقامی لوگوں کو مشاورت کے لیے الپائن ہوٹل میں دعوت دی ، جس میں مقامی فہیم لوگوں نے مسٹر پال کی بے حد حوصلہ افزائی کی ۔چنانچہ حالات کو اپنے حق میں جاتے دیکھ کر ہفت روزہ شمال کی پہلی اشاعت کا دن مقرر کر دیا گیا اور اس کی اطلاع کے لیے گلگت بلتستان کے ہر علاقے میں اشتہارات آویزاں کردئیے گئے، جنہیں حکومتی اہلکاروں نے بھی پڑھا۔

اُس وقت گلگت کے ڈپٹی کمشنر لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک پنجابی تھے، جو گلگت میں اخبار کی اشاعت کے سخت خلاف تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان سے جاری ہونے والا اخبار بیوروکریسی کی من مانیوں کے خلاف ایک محتسب کا کردار ادا کرے گا۔لہٰذا گلگت سے کسی طور کوئی اخبار نہیں جاری ہونا چاہیے اور اس ضمن میں وہ اپنی سی سعی کر رہے تھے۔ اس معاملے میں وہ کسی قسم کی رُو رعایت دینے کے حق میں نہیں تھے۔ یہاں تک کہ اُنہیں مسڑ پال کا لاہور اور پنجاب سے تعلق رکھنے ،جہاں سے وہ خود بھی تعلق رکھتے تھے ، کا بھی کوئی پاس نہ تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے حکومتی افسران، جو مسٹر پال کے بھی دوست تھے، اُنہیں اپنے ساتھ ملایا کہ مسٹر پال کو سمجھایا جائے کہ وہ اخبار کی اشاعت نہ کرے۔

اس کے لیے اُنہوں نے ڈائریکٹر سول سپلائی چوہدری ظفراللہ خان، ڈائریکٹر ایگریکلچر چوہدری نذیر اور ایڈمنسٹریٹو آفیسرمسٹربشیر اعوان کی خدمات حاصل کیں اور اُنہیں مسٹر پال کو سمجھانے بجھانے کے لیے بھیجا ، جس میں دھمکیوں کا عنصر بھی شامل تھا۔ مذکورہ تمام اشخاص مسٹر پال کو چوہدری ظفراللہ خان کی رہائش گاہ چنار باغ بیچولر ہوسٹل میں لے گئے، جہاں اُن پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اخبار کا اجراءنہ کریں ، لیکن مسٹر پال کا کہنا تھا کہ جس اخبار کے لیے اُنہوں نے سترہ سال تک جدوجہد کی اور آج عدالت سے اجازت حاصل کرنے کے بعد، وہ اس کی اشاعت کو کس طرح روک سکتے ہیں۔ بالآخر خاصی بحث کے بعد مسٹر پال کو دھمکی دی گئی کہ اگر اُن کا اخبار مجوزہ تاریخ کو شائع ہوا ،تو ڈپٹی کمشنر کاکہنا ہے کہ وہ انہیں علاقہ بدر کرنے کا اختیار رکھتے ہیں ، لیکن مسٹر پال کے اٹل فیصلے کے سامنے اُن کی کوئی دھمکی کارگر ثابت نہ ہو سکی اور ناکام مذاکرات کے بعد سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

اخبار کی مجوزہ تاریخ میں ابھی پندرہ روز باقی تھے۔ مسٹر پال کے پاس محض عدالتی فیصلے کے اور کچھ نہ تھا اور اخبار کی اشاعت کا اجازت نامہ ،جو مصدقہ ڈیکلریشن کی صورت میں علاقہ مجسٹریٹ (ڈپٹی کمشنر)کی جانب سے جاری کیا جاتا ہے،وہ نہیں تھا اور یہ بھی ظاہر تھا کہ ڈپٹی کمشنر ایسا کوئی لیٹر جاری نہیں کرے گا۔ چنانچہ حفظ ماتقدم کے پیش نظر مسٹر پال فوری طور پر لاہور گئے اور فی الفور ہفت روزہ شمال لاہور کا ڈیکلریشن ڈپٹی کمشنر لاہور سے تصدیق کروا لیا ۔اس کے لیے اُنہوں نے کیا پاپڑ بیلے یہ مسٹر پال ہی جانتے ہیں۔ بہرحال مجوزہ تاریخ کو گلگت سے پہلا اخبار ہفت روزہ شمال جاری ہو گیا۔

یہاں قدرت نے بھی ڈپٹی کمشنر گلگت کے مقابلے میں مسٹر پال کا ساتھ دیا ۔ اُس وقت گلگت کے ریذیڈنٹ کمشنرعنایت اللہ خان نام کے ایک پٹھان تھے ، جبکہ ڈی آئی جی گلگت بھی ایک پٹھان ہی تھے ، جن کا نام سلمان صدیق تھااور دونوں پنجابی ڈپٹی کمشنر کے خلاف تھے ۔ اخبار کی پہلی اشاعت کے موقع پر مسٹر پال اپنا پہلا اخبار ریذیذنٹ کمشنر کو پیش کرنے کے لیے خود لے کر گئے اور اس ضمن میں اُن سے تفصیلی بات چیت بھی کی ۔ اُس وقت ڈی آئی جی سلمان صدیق بھی وہاں موجود تھے۔ دونوں حضرات نے مسٹر پال کی بے حد حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ،اُنہیں اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ دوسرے ہی دن تھانہ گلگت سے دو سپاہی مسٹر پال کو گرفتار کرنے کے لیے اُن کے دفتر واقع کشروٹ آ دھمکے ، جنہیں یہ کہہ کر واپس بھیج دیا گیا کہ وہ مسٹر پال کاوارنٹ گرفتاری لائیں اور زبردستی کرنے پر مسٹر پال کا عملہ اُن کی پٹائی بھی کرسکتا ہے۔ دونوں سپاہی چلے گئے اور تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک ڈی ایس پی اور تھانے کا ایس ایچ بمعہ سپاہیوں کے ،مسٹر پال کو گرفتار کرنے کے لیے پہنچ گئے اور آتے ہی اُنہوں نے مسٹر پال سے مصدقہ ڈیکلریشن طلب کیا، مسٹر پال نے نہ صرف لاہور سے جاری ہونے والا ڈیکلریشن اُنہیں دکھایا، بلکہ ڈی آئی جی گلگت کو بھی فون کر دیا ، کہ اُنہیں گرفتار کرنے کے لیے ایک ڈی ایس پی اور مقامی تھانے کا ایس ایچ او اُن کے دفتر میں اس وقت موجود ہیں۔ ڈی آئی جی نے مسٹر پال کو فون ڈی ایس پی کو دینے کے لیے کہا ۔ فون پر ڈی آئی جی صاحب نے ڈی ایس پی کو بے نقط سنائیں ، جس پر ڈی ایس پی صاحب محض ہکلا کر رہ گئے اور اتنا کہا کہ وہ یہ سب کچھ ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر کر رہے ہیں۔ ڈی آئی جی نے اُنہیں متنبہ کیا کہ مسٹر پال کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جائے ، وہ جو کچھ کر رہے ہیں قانونی طور پر درست کر رہے ہیں اور ایسا ہو سکتا ہے کہ پولیس کی جانب سے کوئی غیر قانونی حرکت پولیس کے لیے وبال جان بن جائے۔ لہٰذا مسٹر پال کو اُن کے حال پر چھوڑ دیں اور اپنے کام سے کام رکھیں اوراخبار سے کوئی تعرض نہ کریں۔ چنانچہ ڈی آئی جی صاحب کے حکم پر ڈی ایس پی اور ایس ایچ او مع اپنے لاؤ لشکر کے ناکام واپس چلے گئے۔

سال بھر اخبار اسی طرح شائع ہوتا رہا اور ڈپٹی کمشنر صاحب نے مصدقہ ڈیکلریشن کا لیٹر جاری نہ کیا ۔ اس دوران ڈیکلریشن کے لیٹر کے بغیر مسٹر پال اخباری مد میں حکومت کی جانب سے حاصل ہونے والی مراعات سے محروم رہے اور اس ضمن میں ہونے والے تمام اخراجات مثلاً پی آئی اے اور ڈاک کے اخراجات میں چھوٹ اور سرکارکی جانب سے دی جانے والی دیگرمراعات سے یکسر محروم رہے۔اس پر مستزاد یہ کہ وہ اپنے اخبار کو میڈیا لسٹ میں بھی نہیں لا سکتے تھے ، کیونکہ سرکولیشن کے آڈٹ کے لیے بھی ڈیکلیریشن کا ہونا از بس ضروری ہوتا ہے۔ چنانچہ تنگ آ کر وہ ڈپٹی کمشنر کے پاس گئے اور اُسے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ اگر اُنہوں نے ڈیکلیریشن کا تصدیقی لیٹر نہ دیا تو وہ مجبوراً کورٹ میں چلے جائیں گے ۔ ڈپٹی کمشنر کا پھر وہی ٹکا سا جواب ’نہیں‘ میں ہی تھا، لیکن اس بار حالات بدل چکے تھے ۔ ڈپٹی کمشنر صاحب کی اُس وقت تبدیلی ہو چکی تھی اور اُن کی جگہ ہُنزہ سے تعلق رکھنے والے غازی جوہر (مرحوم) ڈپٹی کمشنر مقرر ہو چکے تھے ، تاہم ابھی تک اُنہوں نے چارج نہیں سنبھالا تھا ۔ بہر حال ڈپٹی کمشنر نے ہنستے ہوئے کہا کہ کل غازی جوہر صاحب لیٹر جاری کر دیں گے اور وہ خود یہ لیٹر جاری کروا کر جائیں گے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے قسم اُٹھا رکھی تھی کہ گلگت سے کسی اخبار کا ڈیکلریشن اپنے ہاتھوں سے تصدیق نہیں کریں گے ، لیکن چونکہ اُن کی وجہ سے مسٹر پال کا کافی نقصان ہو چکا ہے ، اس لیے وہ ان کا ڈیکلیریشن غازی جوہر صاحب سے خود جاری کروائیں گے اور اس ضمن میں اُنہوں نے مسٹر پال سے معذرت کا بھی اظہار کیا۔

یہ داستان تھی گلگت بلتستان سے جاری ہونے والے پہلے اخبار ’ہفت روزہ شمال ‘ کی جس کے بعد گلگت بلتستان میں اخبارات کے اجراءکا سونامی آ گیا اور آج ماشااللہ ان علاقوں سے دسیوں اخبار ات جاری ہو رہے ہیں، لیکن ہفت روزہ شمال ،یہاں پر صحافت کے میدان میں بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا ، جس کے اجراءمیں سترہ سال کی طویل مدت کی جنگ شامل ہے۔ قارئین کی معلومات کے لیے مَیں یہ لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ اخبار 1989ءہی میں ہفت روزہ کے بجائے روزنامہ ہو گیا اور اس طرح گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلے روزنامے کا اعزازبھی مسڑ ظفر حیات پال کی زیر ادارت ’روزنامہ شمال‘ کو حاصل ہے ۔ اس کی کاپیاں میونسپل لائبریری گلگت کے ریکارڈ میں دیکھی جا سکتی ہیں ۔ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ گزشتہ دو صدیوں کے دوران گلگت بلتستان کی تاریخ پر لکھی جانے والی انگریزوں کی کتابوں کے یہ پہلے مترجم ہیں ۔اس وقت تک وہ تقریباً بارہ کتب کا ترجمہ کر چکے ہیں ، جن میں سے چار کتابیں اس وقت مارکیٹ میں دستیاب ہیں ، جبکہ دیگر چھپنے کے مراحل طے کر رہی ہیں، جنہیں قارئین کی جانب سے زبردست پذیرائی حاصل ہو چکی ہے۔
YOUSUF ALI NASHAD
About the Author: YOUSUF ALI NASHAD Read More Articles by YOUSUF ALI NASHAD: 28 Articles with 23824 views i am belong to gilgit working a local news paper as a asstand editor and some local newspapers for writting editorial pag... View More