ون ٹو کا فور

بہت سے لوگ شادی کی تقریب میں شریک ضرور ہوتے ہیں مگر ان کی توجہ ملنے مِلانے سے زیادہ کھانے کی میز پر مرکوز رہتی ہے۔ مرزا تفصیل بیگ کا بھی یہی حال ہے۔ وہ تمام معاملات چھوڑ کر صرف اِس نکتے پر توجہ دیتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ خدشات کس طور پالے جائیں اور زیادہ سے زیادہ پریشان کس طرح ہوا جائے! سپریم کورٹ فیصلے دے تو مرزا پریشان اور اگر فیصلے محفوظ کرلے تو پریشان۔ مرزا کو کسی صورت قرار نہیں۔ ان کی زندگی اسی طور گزری ہے اور گزر رہی ہے۔ یعنی برحق پاکستانی ہیں!

بجلی کے معاملے میں جو مقدر کروڑوں پاکستانیوں کا ہے وہی مرزا کا بھی ہے۔ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا عذاب انہوں نے بھی خوب بھگتا ہے۔ اور اس صورت حال سے خاصے دِل برداشتہ بھی ہیں۔ کیوں نہ ہوں؟ ہر طرف اندھیر ہے اور کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ اور اگر کچھ دکھائی دے رہا ہے تو وہ صرف اندھیرا ہے! صورت حال مایوس کرنے والی ہی تو ہے۔ مگر مرزا سے ہمارا بنیادی شکوہ یہ ہے کہ سوچنے اور پریشان ہونے سے مسائل حل تو نہیں ہو جائیں گے۔ اگر پریشانی مسائل کا حل ہوتی تو ہمارے تمام مسائل کب کے حل ہوچکے ہوتے! مگر مرزا واقعی ہمارے دوست ہیں۔ کتنا ہی سمجھائیے، اُن کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا!

وفاقی حکومت نے کراچی کو بجلی نہ دینے اور پنجاب کا کوٹہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم کرنے کی حکمتِ عملی ہے! مرزا اس اعلان پر سیخ پا ہیں۔ ان کے خیال میں یہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی نہیں بلکہ آنکھوں میں دُھول جھونکنے کی حکمتِ عملی ہے۔ ہم اُن کی بات سُن کر مُسکرا دیئے۔ کسی کی سادگی پر مُسکرانے کے سوا کیا بھی کیا جاسکتا ہے؟ مرزا اپنے آپ کو بہت بڑا دانشور سمجھتے ہیں جبھی تو آنکھوں میں دُھول جھونکنے والی بات زبان پر لائے۔ ہم بارہا سمجھا چکے ہیں کہ ہماری ہر حکومت آنکھوں میں دُھول جھونکنے ہی کی ماہر ثابت ہوتی آئی ہے۔ جو نظام ہمارے ہاں رائج ہے اس میں یہی کچھ ہوسکتا ہے! جو بات ایک عام آدمی کی سمجھ میں بھی آسانی سے آجاتی ہے وہی بات اگر ہماری سمجھ میں بھی آگئی تو حیرت کی بات کیا ہے! حکومت نے سب کی عقل اور فہم کی سطح اور معیار بلند کردیا ہے!

مرزا کہتے ہیں ”اگر کراچی کی بجلی پنجاب کو دے دی تو کون سا تیر مار لیا؟ لوڈ شیڈنگ ختم کہاں ہوئی؟ صرف مقام تبدیل ہوا ہے! اگر یہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا طریقہ ہے تو سمجھ لیجیے ملک میں کہیں لوڈ شیڈنگ ہے ہی نہیں۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ خراب کھانا ایک برتن سے نکال کر دوسرے برتن میں رکھ دیا جائے! سوال کھانے کو منتقل کرنے کا نہیں، پھینکنے کا ہے!“

مرزا کی سادگی کا تسلسل دیکھ کر ہمارے ہونٹوں پر ہنسی نے ڈیرہ ڈال لیا۔ مرزا اِس پر بھی تپتے ہیں کہ کوئی ان کی بات سُن کر ہنس دے۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ فی زمانہ اس قدر سیلف کنٹرول کسی میں نہیں۔ ہر ایک میں یہ وصف کہاں کہ اُن کی طرح سادہ لوحی پر قائم رہے اور اِسے محسوس بھی نہ کرے! ہم نے عرض کیا کہ راجہ پرویز اشرف کوئی پیدائشی یا خاندانی راجہ نہیں۔ اگر اُن کے نام میں راجہ شامل ہے تو یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ وہ اپنی جیب کا مال خرچ کر کے بجلی خریدیں گے اور مُلک کے غریبوں میں بانٹ دیں گے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت ہے، بادشاہت نہیں۔ راجہ پرویز اشرف بھلا کیوں اپنی جیب سے کسی کا بھلا کرنے لگے؟ وہ حکومتی امور کے نگراں ہیں۔ وسائل کی حدود میں رہتے ہوئے جتنے مسائل حل کرسکیں گے، کریں گے۔ جو بات اُن کے بس میں ہے ہی نہیں اُس کی اُن سے کیا توقع رکھی جائے!

مرزا مُعترض تھے کہ وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے پر راجہ پرویز اشرف نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر وعدے پر عمل کے دوران اُنہوں نے صرف اِتنا کیا ہے کہ کپڑے ایک الماری سے نکال کر دوسری میں رکھ دیئے ہیں! ہم نے عرض کیا کہ راجہ پرویز اشرف کوئی انیل کپور تو ہیں نہیں کہ لکھن بن کر ون ٹو کا فور کریں اور رُومال سے کبوتر نکال کر دکھا دیں! ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوتا ہے، ہم اُسے جادوگر سمجھنے لگتے ہیں! ہماری خواہش ہوتی ہے کہ برسوں بلکہ عشروں کا بگاڑ پلک جھپکتے میں دور ہو جائے اور جب کوئی وزیر اعظم ہماری خواہش کے مطابق عشروں کا بگاڑ راتوں رات دور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ہم اسے کرپٹ قرار دے کر ہٹانے پر تل جاتے ہیں! سیاست دان کتنی ہی کوشش کرلیں، ہم مطمئن نہیں ہوتے اور تنقید کے ذریعے اُن کی مشکلات میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ ہم کرپشن کا شور اس قدر مچاتے ہیں کہ ”بے چارے“ سیاست دانوں کو اِس شور اور اِس کے بطن سے پیدا ہونے والی بدنامی کا بھرم رکھنے کی خاطر ”تھوڑی بہت“ کرپشن کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے! یہ ایسا نازک نکتہ ہے جسے لوگ آج تک سمجھ نہیں پائے اور سیاست دانوں کی مشکلات میں اضافہ ہی کرتے جارہے ہیں! میڈیا والے بھی عوام کے ساتھ مل جاتے ہیں اور پھر سیاست دانوں کے پاس کرپشن کی راہ پر گامزن ہونے کے سوا چارہ نہیں رہتا!

مرزا واقعی ہمارے دوست ہیں یعنی ہماری کسی بات سے اتفاق نہیں کرتے! راجہ پرویز اشرف کے بارے میں بھی اُن کی بدگمانی ویسی ہی ہے جیسی دیگر وزرائے اعظم کے بارے میں تھی۔ راجہ صاحب کسی زمانے میں پانی اور بجلی کے وفاقی وزیر تھے۔ وہ خود اُس تاریک زمانے کو بھول چکے ہیں مگر عوام اور میڈیا والے اُنہیں تب کی باتیں یاد دلا دلاکر پریشان اور خوفزدہ کرتے رہتے ہیں! وزیر پانی و بجلی کی حیثیت سے راجہ پرویز اشرف نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی ڈیڈ لائن کے نام پر جو کامیڈی فرمائی تھی وہ مرزا اب تک نہیں بھولے! بھول تو ہم بھی نہیں پائے ہیں مگر صاحب! جب کِسی کے اختیار میں کچھ بھی نہ ہو تو وہ ہنسانے کے سوا کر بھی کیا سکتا ہے؟ اور اگر ایمان داری سے سوچیے تو یہ بھی غنیمت ہے کہ کوئی ہنسا ہی رہا ہے، رُلا تو نہیں رہا! راجہ پرویز اشرف نے کمال یہ کیا کہ ناکام ڈیڈ لائنز دیتے دیتے وزارت عظمٰی کے ڈیڈ اینڈ تک آگئے! مرزا کو اب بھی یہ گِلہ ہے کہ راجہ پرویز اشرف بجلی کا مسئلہ تو حل کر نہیں سکے، دیگر مسائل کیا حل کریں گے؟

مرزا کو یہ بات کون سمجھائے کہ توپ سے بھی چڑیا کا شکار نہیں کیا جاتا! جو ایسا کرتا ہے اس کا مذاق ہی اُڑایا جاسکتا ہے۔ مرزا ہماری اس دلیل سے متفق نہیں کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کرنا شاید چھوٹا مسئلہ تھا جو راجہ پرویز اشرف کے شایان شان نہ تھا! اب اُنہیں وزارت عظمٰی ملی ہے تو دیکھنا ہے کہ کوئی بھی مسئلہ کس طور جان بچا کر نکل پاتا ہے! ہمیں یقین ہے کہ ہر وزیر اعظم کی طرح وہ بھی اپنے شایان شان مسائل پیدا کریں گے تاکہ حل کرنے کی کوشش میں کچھ تو مزا آئے! ایک ذرا سی لوڈ شیڈنگ میں کیا دھرا ہے کہ اُسے ختم کرنے کی کوشش کی جائے! اندھیرا ختم کرنے کے لیے کہیں ایک چراغ جلا دینا کافی ہے۔ محنت تو سارے چراغ بُجھاکر اندھیرے کا راج قائم کرنے میں لگتی ہے!

مرزا کا استدلال یہ ہے کہ حکومت بچی کھچی مدت پوری کرنے کے نام پر اب بھی عوام سے کھلواڑ کر رہی ہے۔ جواز کے طور پر وہ یہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم کے انتخاب میں سنجیدگی اور ایمان داری سے کام نہیں لیا گیا۔ یہ ایسی بات تھی کہ ہم بُرا مانے بغیر نہ رہ سکے۔ ہم نے اعتراضاً عرض کیا کہ سیاست میں سنجیدگی اور ایمان داری کا کیا کام؟ یہ کوئی ترکاری یا پھلوں کا ٹھیلہ لگانے کا کام تو ہے نہیں! مگر وہ نہیں مانتے۔ اُن کی ضد ہے کہ صدر زرداری بہتر انتخاب کرسکتے تھے۔ ہم نے اُنہیں ایک بار پھر یاد دلایا کہ صدر زرداری بھی کوئی جادوگر نہیں۔ پارٹی کا سربراہ ہونے کے ناطے اُن کے پاس طاقت اور اختیارات کا ڈنڈا تو ضرور ہوسکتا ہے مگر جادو کی چھڑی ہرگز نہیں اور اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ اُن کے پاس جادو کی چھڑی ہے بھی تو اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے مسائل حل کرنے کے بارے میں وہ کیوں سوچیں گے؟ جادو کی ایک پوری چھڑی خود پیپلز پارٹی کے مسائل حل کرنے کے لیے درکار ہے! اور کِس نے دیکھا ہے کہ اِن مسائل کے حل کرنے میں بے چاری جادو کی چھڑی کا کیا حشر ہوتا ہے!

جب تک راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہیں، مرزا ہمارا دماغ چاٹتے رہیں گے۔ کاش ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہو اور ہم قوم کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہونے والے ہر مرزا کو کما حقہ سُدھار سکیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 484268 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More