لمحہ فکریہ

 مادیت کے اس دور میں اہمیت صرف ان چیزوں کی ہے جن کی چکا چوند کر نو ں سے آنکھیں چندیا جاتی ہیں ۔ہر اس چیز کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جو پر کشش اور جاذب نظر ہو ، خواہ اس کا تعلق اشیاءخورد ونوش سے ہو یا بیش قیمت ملبوسات سے ہو یاپھربلندوبالا عمارتوں سے ہو ۔انسانی فطرت اس چیز سے بہت جلد متاثر ہوتی ہے جس کی ظاہری صورت اور بناوٹ خوبصورت اور حسین ہو ۔یہی وجہ ہے کہ انسانی زندگیوں پر ہم جنسوں کی عادات اور اقوال ،افعال کا کافی حد تک اثر ہوتاہے۔

دور حاضر میں انسان کئی چیزوں کا عادی اور غلام بنا ہو اہے۔بے شمار چیزیں ہیں جن کے بغیر انسان زندگی کو ادھورا اور نامکمل تصور کرتا ہے،جیسے موبائل ،ٹی وی،کمپیوٹر اور اخبارات وغیرہ ۔اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ دور حاضر میں جدید ذرائع ابلاغ کا انسانی زندگیو ں پر گہر اثر ہوا ہے۔ہر کوئی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے سحر میں مبتلا نظر آتا ہے ۔اگرچہ الیکٹر انک میڈ یا کا بہت زور شور ہے لیکن تجربات سے ثابت ہوتا ہے کہ پرنٹ میڈیا یعنی اخبارات ،کتب اور رسائل سے حاصل ہونے والا علم ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کے ذریعہ حاصل ہونے والی معلومات سے کہیں زیادہ اثر انگیز ہوتاہے۔پرنٹ میڈیا میں جو چاشنی ہے وہ دیگر ذرائع ابلاغ میں نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے آج بھی صحافت کا جو معیا ر ہے اور مقولیت ہے وہ الیکٹرانک میڈیا کا نہیں ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ الیکٹرانک میڈیاکی تخلیق اور شور سے اخبارات میں اضافہ ہو ا ہے کمی نہیں ہوئی ۔

یہ حقیقت ہے عوام میں بیداری ،حریت پسندی اور حب الوطنی کا جذبہ پید اکرنے میں جتنا نمایا ں کردار صحافت کا ہے شاید ہی کسی اور کا ہو ۔ماضی قریب اور بعید میں جتنے انقلاب او ر حادثات رونما ہوئے ان کا پیش خیمہ یہی صحافت بنی ،کیونکہ صحافت وہ سوچ اور فکر ہے جو حکمرانوں اور رعایا کی بیک وقت ترجمانی کرتی ۔صحافت ہی وہ آواز ہے جو لوگوں کو سڑ کوں پر لاسکتی ہے اور غافل قوموں کو امید کی کرن دکھا سکتی ہے۔صحافت وہ زبان ہے جو مکروہ چہروں کو بے نقاب کرتی ہے ۔صحافت وہ عظیم فن ہے جس کے قلم کی قسم خدا تعالی نے خود کھائی ۔صحافت نا م ہے اس قلم کا جس کے ذریعہ عظیم نعمت کی تعلیم دی گئی ۔صحافت نا م ہے مطالعہ اور محنت کانہ کہ جہالت اور کام چوری کا ۔صحافت نا م ہے خود داری اور عزت کا بدتمیزی ،تکبراور غرور کا نہیں ۔صحافت سیاست اور چاپلوسی کانام نہیں ہے ،صحافت ایک مقدس پیشہ ہے جس کے ذریعہ ظلم کی روک تھام کی جاتی ہے اور مظلوم کے زخموں پر مرہم رکھی جاتی ہے۔عدل وانصاف کا علم اٹھایا جاتا ہے اور معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ کیا جاتاہے ۔معذرت کے ساتھ !آج صحیح معنو ں میں نہ صحافت نظر آتی اور نہ اس کی بو۔نام نہا د لوگ مقدس شعبہ کا لبادہ اوڑھ کر عزت ،دولت اور شہرت کی خاطرقلم کا استعما ل کر رہے ہیں ۔زن،زراور زمیں کی ہوس میں قید ہو کر حرمت قلم اور حریت فکر کو سستے داموں بیچ رہے ہیں۔صحافت کو محض پیشہ سمجھ کر اس کی ساکھ اور معیا ر کو برباد کر رہے ہیں ۔اس سے ناصر ف لوگوں کی حقوق پامال ہو رہے ہیں بلکہ معاشرتی برائیاں بھی جنم لے رہی ہیں۔آزادی صحافت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اپنی من مانی کی جائے ،خواہشات کی خاطر لوگوں کی زندگیاں تباہ کی جایئں ۔

الحمد للہ اس پرفتن دور میں ایماندار،خوددار،دردمنداورعدل پسند باعزت اورباوقار لوگ موجود ہیں جو حرمت قلم کی پاسداری کر رہے ہیں۔ایسے با صلاحیت ،حق پرست اورنڈر لوگوں سے آج بھی یہ زمیں بھری پڑی ہے جنہوں نے اس عظیم کاز کے مشن کا علم بلند کر رکھا ہے۔جو ظلم کے خلاف آوز بھی لگاتے ہیں اور عدل وانصاف کے پرچار کے لیے جدوجہد بھی کر رہے ہیں ۔ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کی دامن رشوت اورچاپلوسی سے پاک ہیں ۔ایسی عظیم ہستیا ں اب بھی موجود ہیں جو خواہشات کی تکمیل کے لیے ناجائز طریقوں سے نفرت کرتے ہیں اور ناجائز کمائی پرقناعت اور فقر کو پسند کرتے ہیں۔جن کے لیے معاشرے میں ایک مقام اور عزت ہے ۔لمحہ فکریہ ہے !ان نام نہاد صحافیوں کے لیے جو سب ایک کشتی کے سوارہیں لیکن اس کے باوجود ان کی سوچ،فکر اور قلم ظالموں اور بدکردار لوگوں کو تحفظ دینے کے لیے استعمال ہوتاہے۔ جن کی نظریںبرے لوگوںکی جیبوں پر جمی ہوتی ہیں۔افسوس ہے !ان پر جو چند کوڑیوں کے عوض اس مقدس شعبے کی تکریم کو خاک میںملا دیتے ہیں۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 45 Articles with 38260 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.