اور کتنے سُرجیت اور سَربجیت

 بھارتی جاسوس سُرجیت سنگھ کو کوٹ لکھپت جیل لاہور سے رہا کردیا گیا۔ سُرجیت سنگھ1982میں جاسوسی کے الزام میں پکڑا گیااور اُسے سزائے موت سنائی گئی جسے بعد میں عمر قید میں تبدیل کردیاگیا۔ اُس کی یہ سزا2005میں ختم ہوچکی تھی لیکن بقول اُس کے، اُس کی حکومت گرفتاری کے بعداُسے بھول چکی تھی لہذا اُسے اب 2012میں رہا کردیا گیا۔

اس سے پہلے کی اطلاع یقینا پاکستانی عوام کے لیے زیادہ تشویش ناک تھی کہ دہشت گرد سربجیت سنگھ کو رہا کیاجارہاہے جو کئی بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کرچکا ہے اور اِن بم دھماکوں میں کئی ہلاکتیں ہوئیں۔ جبکہ اسے سزائے موت بھی سنائی جاچکی ہے ۔ جان کے بدلے جان کے قانون کے مطابق اُسے یہ سزا کئی بار سنائی جانی چاہیے تھی۔یہاں انسانی حقوق کی کسی بنیاد پر اُسکی سزا میں تخفیف یا تبدیلی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔سُر جیت سنگھ کی رہائی سے زیادہ اہم معاملہ یہ ہے کہ پاکستان میں اورکتنے سُرجیت اور سربجیت سنگھ موجود ہیں اور ہمیں نقصان پہنچارہے ہیں۔ یہ بات تو ثابت شدہ ہے کہ ’’را‘‘کا قیام صرف اور صرف پاکستان کے خلاف تھا اور اس کا پہلا کامیاب مشن مشرقی پاکستان میں نفرت کا بیج ب بوکر بنگلہ دیش کا قیام تھالیکن اُس کی سرگرمیوں میں اب بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے اوربلوچستان سمیت پورے پاکستان میں سرگرم عمل ہے۔ خود سُر جیت سنگھ نے اپنے ملک پہنچ کر میڈیا کو یہی بتایا کہ ’’را‘‘سرحدی دیہات سے غریب لوگوں کوپاکستان میں جاسوسی کے لیے بھرتی کرتا ہے اور پھر ان کو اور ان کے خاندانوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتاہے جب تک وہ کامیاب رہتے ہیں تو ٹھیک ہے ورنہ گرفتاری کی صورت میں بھارت سرکار اور ایجنسیاں اُن سے کوئی سروکارنہیں رکھتیں۔ خود سرجیت سنگھ فیروزپورکے ایک گائوں کا رہنے والا ہے اور اپنے بیان کردہ حالات کا تجربہ کر چکا ہے ۔

بھارت پاکستان مخالف سرگرمیاںجس اندازسے جاری رکھے ہوئے ہے اُسی نے پاکستان میں امن وامان کی صورت حال کو مخدوش کررکھاہے۔بلوچستان کے حالات تو پوری طرح اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ بیرونی ہاتھ مکمل طورپر اور پوری تندہی سے اس صوبے میں کارفرماہے چونکہ’’ را‘‘کے پاس بنگلہ دیش کا کامیاب تجربہ ہے اس لیے فی الحال وہ مسائل کو گھمبیر بنانے میں کامیاب بھی ہے۔ صرف بلوچستان پر کیا موقوف پاکستان کا کوئی علاقہ ان کی کاروائیوں سے مستثنی نہیں۔ ہمارے قبائلی علاقہ جات میں گڑبڑبھی بیرونی مددکے بغیرممکن نہیں ۔ سمجھوتہ ایکسپریس جیسے واقعات بھی بھارت ہی کا طرئہ امتیازہیں کہ کسی دوسرے ملک کے شہریوں کو یوں بے دردی سے اپنے ملک میں زندہ جلادیا جائے اور اس کے مجرم سزاسے بچے رہیں۔ خود بھارت میں ممبئی حملوںکو بنیاد بناکر ابھی تک پاکستان کے خلاف زہر اُگلاجاتا ہے اور اجمل قصاب کو حکومت پاکستان کا نمائندہ بناکر پیش کیاجاتاہے۔ کئی بار اِن حملوں کے ماسٹر مائند کو پکڑے جانے کے دعووںکے بعد ایک بار پھر ماسٹر مائند ابوجندل کو گرفتار کرنے کادعوی کیاگیاہے اور اس کا تعلق پاکستان سے جوڑ کر کراچی میں حملے کی تیاری کا پلان بنانے کا دعو ی بھی کرلیا گیاہے ۔بجائے اس کے کہ پاکستان کے خلاف غیرثابت شدہ واقعات و الزامات کا اعلان کرے بھارت خود اپنی کاروائیوں کو لگام دے۔ صرف ’’امن کی آشا ‘‘کا نعرہ لگالینا کافی نہیںبلکہ بھارتی حکومت کو امن کے لیے اقدامات بھی کرنا ہونگے اورپاکستان میں کشمیر سنگھ، سرجیت اور سربجیت سنگھوں کو نکیل بھی ڈالنی ہوگی ۔ ساتھ ہی سکھوں کو بھی یہ سوچ لینا ہوگاکہ بھارت سرکار ان کے گولڈن ٹیمپل کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بعد انہیںہی کیوں چارے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ سرجیت سنگھ نے بھارت پہنچ کرجہاں یہ بیان دیا کہ پاکستانی جیلوں میں اُس کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کیا گیا اور تمام بھارتی قیدیوں کے ساتھ اچھے سلوک کی گواہی دی وہیں اُس نے پاکستان میں ’’را ‘‘کے جاسوسوں کی موجودگی کے بارے میں بھی بتایاجن میں زیادہ تر اسی کی برادری اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور شاید اسی لیے اُس کے مطابق اس کی حکومت اِن گرفتار جاسوسوں کے متعلق خبر رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی ،جبکہ ہندوکرنل سری کانت جیسے مجر م مکمل طور پر حکومتی حفاظت میں رہتے ہیں۔ سرجیت سنگھ کے اس بیان کے بعد کہ کس طرح بھارتی سرحد ی دیہاتیوں کو جاسوسی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، بھارت سرکار کو اپنے اس دعوے اور الزام پر غور کرلینا چاہیے کہ ان کے ہاں کشمیر میں سرحد پار سے دخل اندازی کی جاتی ہے ۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان کو اس کی ضرورت ہی نہیںپڑتی بلکہ خود بھارت کی پالیسیاں یہ کام سرانجام دے دیتی ہیں اور اس کے مسلمان شہریوں کو درجہ دوم کے شہری ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہیں کہ اُسی زمین کے بیٹے ہونے کے باوجود وہ سرکاری نوکریوں، تعلیم حتی کہ ہر شعبے میں دوسروں سے پیچھے ہیں جبکہ وہ کسی ایک ملک میں دنیا کی سب سے بڑی مسلمان آبادی ہیں اور بزعم خوددنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے باسی ہونے کے باوجود بے بس ہیں اور کسی بھی وقت ہندواپنے خون کی پیاس بجھانے کے لیے مسلمانوں کو استعمال کرتے ہیں۔ گجرات کی شکیلہ بانو کا کیس اس کا ثبوت ہے جو دس سال بعد بھی نہیں جان سکی کہ 2002 میں اُس کے پڑوسی اس کے دشمن اور اس کے آٹھ اہلخانہ کے قاتل کیسے بن گئے۔ لہذا پاکستان پرا لزام دھرنے کے بجائے بھارت اپنے اعمال پر غور کرے کہ مذہب کو بنیاد بنا کر اس ناقابل یقین اورچمکدار بھارت ’’ Shining and Incredible India‘‘ میں کیا کچھ ہوتا ہے۔

ایک شکایت یہاں مجھے اپنی خفیہ ایجنسیوں سے بھی ہے۔ آئی ایس آئی دنیا کی بہترین خفیہ ایجنسی ہے مگر وہ اب تک اِن غیر ملکی ایجنسیوں کی کاروائیوں کا سدِباب کیوں نہیںکرسکی ،چاہے یہ سی آئی اے ہو’’را‘‘ ہویا موساد۔ ایک مشکل ضرور ہے کہ ایک کامقابلہ تین سے ہے لیکن اس کی مہارت سے قوم کو یہ امید ضرور ہے کہ وہ اس مقابلے کی اہل ہے لہذا اُسے ان کے خلاف کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے اور ہماری حکومت، میڈیا اور ایجنسیوں کو سُرجیت اور سَربجیت جیسے جاسوسوں اور دہشتگردوں کو سامنے لا کر بھارت کی پاکستان میںبدامنی پیداکرنے کی کوشش اور کاروائیوں کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا ہوگا اور محکمہ خارجہ کو بھی اپنی یہ ذ مہ داری سمجھناہوگی کہ اسے دنیا کو بھارت کی طرف سے پاکستان پر لگنے والے دہشت گردی کے الزامات کی حقیقت بتانا ہو گی۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552651 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.