پاکستان نے جذبہ خیر سگالی
کے تحت موت کی سزا پانے والے ہندوستانی قیدی سربجیت سنگھ کے بجائے عمر قید
کی سزا مکمل کرنے والے بھارتی جاسوس سرجیت سنگھ کو رہا کر دیا ہے۔ ان دونوں
ناموں میں فرق صرف ”ب“ کا ہے اور اگر ملتے جلتے ناموں کا فرق نہ ہوتا تو
یقینا سربجیت سنگھ کے گھر میں خوشیوں کے بعد ماتم بھی نہ بچھتا۔ صرف ایک
نقطے کی غلطی سے پہلے یہ تاثر دیا گیا کہ حکومتِ پاکستان سربجیت سنگھ کو
رہا کر رہی ہے لیکن پھر چند ہی گھنٹوں بعد سربجیت سنگھ کے نام کا ”ب“ غائب
ہو کر سرجیت سنگھ بن گیا۔ سربجیت سنگھ کی رہائی کی خبر میڈیا پر آتے ہی اُس
کے کنبے میں مسرت کی لہر دوڑ گئی تھی لیکن پھر یکدم ہی منظرنامہ تبدیل ہو
گیا اور صدرِ پاکستان کے ترجمان کی وضاحت کے بعد سربجیت سنگھ کی رہائی کے
لیئے اُسکے گھر میں جو خوشی منائی جا رہی تھی وہ ماتم میں بدل گئی جبکہ
رہائی کی یہ خوشی سربجیت سنگھ کے کنبے کو چھوتی ہوئی چند گھنٹوں کی مسافت
طے کرکے سرجیت سنگھ کے گھر پہنچ گئی۔گزشتہ بائیس سال سے کوٹ لکھپت جیل میں
قید سربجیت سنگھ کو لاہور اور ملتان میں 1990ءکے چار بم دھماکوں کے لیئے
قصوروار ٹھہرایا گیا ہے جبکہ سرجیت سنگھ جنرل ضیاءکے دور میں بھارت کے لیئے
جاسوسی کرتے پکڑا گیا تھا۔ جاسوسی کا الزام ثابت ہونے کے بعد اسے سزائے موت
سنائی گئی مگر بعد میں سابق صدر غلام اسحاق خان نے اسکی سزائے موت کو عمر
قید میں بدل دیا تھا اور یوں وہ ستائیس سال قید کاٹنے کے بعد اب ”آزاد“ ہو
گیا ہے۔
صدر آصف علی زرداری کے حالیہ دورہ بھارت کے دوران بھارتی سپریم کورٹ نے
صدرِ پاکستان کو قتل کے مقدمہ میں بیس سال سے قید ڈاکٹر خلیل چشتی کی رہائی
کا ”تحفہ“ دے کر اُسے پاکستان جانے کی اجازت دی تھی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے
گزشتہ سال یہ اپیل کی تھی کہ پاکستان اپنے ملک میں عمر قید کی سزا کاٹنے
والے بھارتی جاسوس گوپال داس کی باقی سزا معاف کرکے اُسے رہا کر دے۔ اس
اپیل کے بعد صدرِ پاکستان نے گوپال داس کی سزا معاف کرکے اُسے رہا کر دیا
تھا اور یوں صدرِ پاکستان کے دورہ بھارت کے دوران بھارتی سپریم کورٹ نے
خلیل چشتی کو رہا کرکے اپنا ”اُدھار“ چکا دیا لیکن اس کے ساتھ ہی بھارتی
سرکار نے بائیس سال سے پاکستان میں قید اپنے جاسوس سربجیت سنگھ کی رہائی کا
بھی مطالبہ کیا۔ اس بھارتی خواہش کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ڈاکٹر
خلیل چشتی نے اپنی رہائی کے بعد اپنے ملک میں موت کی سزا پانے والے
ہندوستانی قیدی سربجیت سنگھ سے نہ صرف ملنے کی خواہش ظاہر کی بلکہ اُس کی
رہائی کے لیئے اعلیٰ حکام سے بات کرنے کا بھی عندیہ دیا۔ سربجیت سنگھ کی
رہائی کا معاملہ کوئی یکدم سامنے نہیں آیا بلکہ اس کے لیئے ایک عرصہ سے
کوششیں ہو رہی ہیں جبکہ خود سربجیت سنگھ نے بھی اپنی قید کے دن سے آج تک
کوئی پانچ بار صدرِ پاکستان سے رحم کی اپیل کی ہے۔
ہندوستانی میڈیا کے مطابق صدر آصف علی زرداری نے جذبہ خیرسگالی کے تحت جیسے
ہی سربجیت سنگھ کی رہائی کے لیئے اقدام اُٹھایا تو پاکستان کی طاقتور فوج،
آئی ایس آئی اور اسلام پسند جماعتیں راستے کی رکاوٹ بن گئیں اور بالآخر
دباﺅ میں آ کر ایوانِ صدر کو راتوں رات یوٹرن لینا پڑا جبکہ پاکستانی مشیر
داخلہ کے مطابق حکومت نے کوئی یوٹرن نہیں لیا اور سربجیت سنگھ کی سزا تاحال
برقرار ہے۔یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ ہندوستان صرف سربجیت سنگھ میں ہی اتنی
دلچسپی کیوں لے رہا ہے حالانکہ اُس کے دیگر بہت سے جاسوس اور سویلین بھی تو
پاکستان کی مختلف جیلوں میں ایک عرصہ سے قید ہیں۔ میڈیا پر جیسے ہی سربجیت
سنگھ کی رہائی سے متعلق خبریں آنا شروع ہوئیں تو اسکے ساتھ ہی بھارتی سرکار
نے بھی اس اقدام کو خوش آئند قرار دے کر پاکستان کا بھرپور انداز میں شکریہ
ادا کیا لیکن جیسے ہی سربجیت سنگھ کے بجائے سرجیت سنگھ کی رہائی کا سرکاری
اعلان کیا گیا تو بھارتی سرکار کا منہ بھی لٹک گیا۔ یوں لگتا ہے کہ بھارتی
سرکار کو سرجیت سنگھ کی رہائی سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی سربجیت سنگھ کی
رہائی سے تھی۔ کیا صرف سربجیت سنگھ ہی ہندوستان کا شہری ہے یا پھر اسکے
پیچھے کوئی اور راز ہے؟ گزشتہ سال رہائی پانے والے بھارتی جاسوس گوپال داس
نے بھی یہ گلہ کیا تھا کہ وہ ستائیس سال تک پاکستان میں قید تنہائی کاٹتا
رہا لیکن اسکی رہائی کے لیئے بھارت سرکار نے کوئی اقدام نہیں کیا۔
پاکستان اور ہندوستان جذبہ خیر سگالی کے تحت وقتاً فوقتاً ایک دوسرے کے
فوجی، جاسوس اور سویلین قیدی رہا کرتے رہتے ہیں۔ ماضی میں پاکستان نے جہاں
ماہی گیروں اور عام بھارتی شہریوں کو رہا کیا وہاں کشمیر سنگھ اور گوداس
پال جیسے بھارتی جاسوسوں کو بھی رہائی ملی جبکہ اب سرجیت سنگھ بھی رہائی پا
کر ہندوستان پہنچ چکا ہے۔ یہ تینوں وہ جاسوس ہیں جنہوں نے رہائی کے بعد
ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی یہ اقرار کیا کہ وہ اپنے ملک کے لیئے
جاسوسی کرتے رہے۔ سرجیت سنگھ کی رہائی کے بعد بھارتی میڈیا اُن سے کرید
کرید کر پاکستان مخالف سوالات پوچھتا رہا لیکن سرجیت سنگھ نے سچ بولنے کو
ہی ترجیح دی اور بھارتی میڈیا کو تمام سوالات کے جوابات میں سرجیت کی جانب
سے مُنہ کی کھانی پڑی۔ بعض دانشور یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر سنگھ، گوداس پال
اور اب سرجیت سنگھ نے بھارت کیلئے جاسوسی کا اقرار کرکے اپنے ملک کی جیت
ثابت کی لیکن ایسا ہرگز نہیں بلکہ یہ اقرار نہ صرف ہندوستان بلکہ اس کی
خفیہ ایجنسیوں کے لیئے بھی بدنامی کا باعث بن چکا ہے جبکہ ایسی صورت میں
پاکستان کے اس موقف کو بھی تقویت ملتی ہے کہ اُسکے ہاں کوئی بھارتی قیدی بے
گناہ سزا نہیں کاٹ رہا۔اس کے برعکس ہندوستان اپنی جیلوں میں قید پاکستانی
شہریوں پر سوائے الزامات کے آج تک کسی قیدی کا آئی ایس آئی سے تعلق ثابت
نہیں کر سکا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آئی ایس آئی کی پوری تاریخ میں کوئی
ایک بھی ڈبل ایجنٹ یا منحرف سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کوئی ایسا فرد سامنے
آیا کہ جس نے کسی دوسرے ملک میں طویل قید کاٹنے کے بعد خود کو آئی ایس آئی
کا ایجنٹ ظاہر کیا ہو جبکہ اس کے برعکس کشمیر سنگھ، گوداس پال اور سرجیت
سنگھ خود کو اپنی خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ قرار دے چکے ہیں۔
گزشتہ ماہ دس مئی کو بھارتی میڈیا کی جانب سے ممبئی میں تین پاکستانیوں
سمیت پانچ دہشت گردوں کے داخلے کی خبر بھی چند گھنٹوں بعد جھوٹی ثابت ہو
گئی تھی۔ اس جھوٹی خبر کے بعد نہ صرف بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی سبکی ہوئی
بلکہ ساتھ ہی یہ تاثر بھی عام ہوا کہ ہندوستان بغیر کسی ثبوت کے آئی ایس
آئی کو مورد الزام ٹھہرا دیتا ہے۔ بھارتی جاسوس سرجیت سنگھ رہائی پا کر
ہندوستان کی ”آزاد فضائ“ میں پہنچ چکا ہے جبکہ قوی اُمید ہے کہ ڈاکٹر
منموہن سنگھ کے دورہ پاکستان کے موقع پر سربجیت سنگھ بھی ”آزاد“ ہو جائے
گا۔ سرجیت سنگھ پاکستانی جیل میں اپنے ساتھ ہونے والے حسنِ سلوک سے بھی
متاثر ہو چکا ہے البتہ ہندوستان سے یہی ایک گزارش ہے کہ وہ جذبہ خیر سگالی
کے تحت کم از کم اُس بے زبان اور معصوم کبوتر کو ”آزاد“ کر دے جسے اُس نے
دو سال قبل پکڑ کر شبہ ظاہر کیا تھا کہ یہ جاسوس کبوتر آئی ایس آئی کا
ایجنٹ ہو سکتا ہے اور ممکن ہے کہ یہ کبوتر پاکستانی خفیہ ایجنسی کی جانب سے
جاسوسی کے خصوصی مشن پر بھیجا گیا ہو کیونکہ اس کے پَروں اور پنجوں پر
پاکستانی فون نمبر اور ایڈریس لکھا ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس جاسوس کبوتر
کو پکڑنے کے بعد نہ صرف انتہائی سخت سکیورٹی میں رکھا گیا بلکہ ساری رات
پولیس کا پہرہ بھی دیا گیا کہ خدانخواستہ بھاگ کر واپس پاکستان نہ چلا جائے
جبکہ ڈاکٹر سے اس کا طبی معائنہ بھی کرایا گیا۔ دورانِ تفتیش بھارتی پولیس
اِس ”بے گناہ جاسوس کبوتر“ سے سوائے ”گٹرگوں، گٹرگوں“ کے کچھ بھی نہ اُگلوا
سکی۔ شاید وہ اس کی زبان سمجھنے سے عاری تھی اس لیئے بعد ازاں اس کبوتر کو
”ریمانڈ“ پر محکمہ وائلڈ لائف کے حوالے کر دیا گیا جو ابھی تک اس کی تحویل
میں بتایا جاتا ہے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ”امن کی آشا“ بھارتی قید میں ہے
اور ہم پاکستان میں اس کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ |