6برسوں میں خوداپنا ڈھانچہ بھی کھڑانہیں
کرسکا،اردو زبان کی ترقی کیا خاک ہوگی
ٹیلی ویژن نشریات کی دنیامیں’ دوردرشن‘کوقابل قدر اضافہ کی حیثیت سے جانا
اور پہچاناجاتاہے کیونکہ یہ دنیا کے سب سے بڑے ٹیلی ویژن نیٹ ورک میں سے
ایک ہے۔جس کے پہلے نشریہ کا آغاز 15 ستمبر، 1959 کومحض آدھے گھنٹے کے
پروگرام سے ہوا تھاجس کا دائرہ ابتدامیںتعلیم و ترقی تک محدود تھالیکن بہت
جلد اس کے اثرات پھیلتے چلے گئے اور انتہائی کم مدت میں غیر معمولی تبدیلی
کے بعد اس کی باقاعدہ شروعات دہلی (1965) ممبئی (1972)کولکاتہ (1975)
اورچنئی (1975)سے کر دی گئی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ دن بھی آیا جب 15
ستمبر 1976 کواسے ایک ادارہ کی شکل دے دی گئی ۔روز افزوں اس کے ناظرین کی
تعداد میں اضافہ ہوتاچلاگیا اور قدر دانوں کی بڑھتی اہمیت کو دیکھتے ہوئے
نئی دہلی میں 1982 کے ایشیائی کھیلوں کے دورا ن اس کی نشریات کو رنگین کر
دیا گیا ۔اس پیش رفت کو نشریات کی دنیامیںایک انقلاب بھی
تصورکیاگیا۔انقلابی پیش رفت کاہی یہ نتیجہ تھاکہ 1984 میں ملک میں تقریبا
ہر روز ایک ٹرانس میٹر لگایا گیاتاکہ پوری دنیا خاص طور پر ہندوستانی عوام
کو سماجی، ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی مسائل سے واقف کرایاجاسکے اوران کی
صحیح رہنمائی کی جاسکے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دوردرشن نے ملک میں سماجی
واقتصادی تبدیلی، قومی اتحادکے فروغ اور سائنسی وعلمی سوچ و فکر کو پروان
چڑھانے اور اس کو رفتار فراہم کرنے میں اہم رول اداکیا۔ عوامی خدمات و
بیداری کے حوالہ سے اس کی حصہ داری کو فراموش نہیں کیا جا سکتا جس نے پورے
ملک میں آبادی پرکنٹرول ، خاندانی بہبود، ماحولیات کے تحفظ اور مختلف قسم
کے توازن کوبنائے رکھنے میںنمایاں مقام ادا کیا ۔دوردرشن کی ایک بڑی خصوصیت
یہ بھی رہی کہ تقریبا ملک کی تمام علاقائی زبانوں میں اس کے پروگرام منفرد
اندازمیںپیش کئے جاتے رہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے فیضیاب ہو سکیں
اورملک کے کونے کونے میں بسنے والے مختلف قسم کی صلاحیتوں کے حامل افراد کو
ایک بہترین پلیٹ فارم میسر آ سکے ۔اسی سلسلے کی ایک مضبوط کڑی کی حیثیت سے
ڈی ڈی اردو کا قیام بھی عمل میں آیاجس کی خاطر کافی احتجاج اور ہنگامہ
آرائی بھی ہوئی تاکہ دوردرشن کے اردو خواںناظرین کی دل بستگی کی سبیل نکل
سکے۔ڈی ڈی اردوکا قیام 15اگست 2006کووزیر اعظم منموہن سنگھ کے ہاتھوں عمل
میں آیاتاکہ دیگر زبانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی طرح اردو داں طبقہ
بھی اس سے محظوظ ہوسکے۔چنانچہ جب اس وقت کے ابلاغ عامہ و نشریات کے وزیر
پریہ رنجن داس منشی نے یہ مژدہ سنایاکہ اس نئے چینل کا مقصد ملک میں اردو
ثقافت کی بحالی اور اس کا فروغ ہوگا تو اردو والوں کی بانچھیں کھل گئی تھیں
اور وہ پھولے نہیں سما رہے تھے کہ اب اس کے ذریعہ واقعی اردو کا فروغ ممکن
ہوگا اور ساتھ ہی یہ بھی کہ اس سے بہت سارے لوگوں کو ملازمت اور اپنی
صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملے گالیکن بہت جلد ان کی امیدوں کے قلعہ
ڈھ گئے اور ساری امیدوں پر پانی پھر گیا کیونکہ انھوں نے ایک مرتبہ پھر
یہاں بھی اس بات کا مشاہدہ کیا کہ ان کے ساتھ عصبیت کا رویہ اپنایا جانے
لگا ہے اور آزادی کے بعد سے عملاً اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھ لئے جانے
کے بعد اس چینل کے ساتھ بھی عصبیت کا رویہ اپنایا جانے لگا ہے اور اس کے
حقوق پر بھی شب خوں مارے جا رہے ہیں ۔شاید یہی وہ بنیاد ی سبب ہے کہ جس طرح
دوسری زبانوں کے چینلوں میںبڑی ترقی ہوئی اور نئے نئے پروگرام پیش کر کے
عوام کا دل جیتاگیا، اردو چینل میںیہ خصلتیںنہیں پائی گئیں ایسا کچھ بھی
نہیں ہوا جس پر اُردودنیافخرکرسکے بلکہ یہ ادارہ صرف ایک نمائش بن کر رہ
گیا ۔
اس پر اردو داں طبقہ کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا اس کے باوجود کوئی
شنوائی نہیں ہوئی ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چینل کی حالت دن بدن خراب ہوتی
گئی حالانکہ اخبارات میں بار بار یہ بات دہرائی گئی کہ کافی پہلے یعنی دو
دو ،تین تین سال ل قبل جو گھٹیا پروگرام محض پچاس ہزار فی ایپی سوڈ کے حساب
سے لئے گئے تھے انھیں بار بار دہرایا جا رہا ہے ۔ان پروگراموں کی کوالٹی
انتہائی خراب ہے باوجود اس کے چینل کا مکمل انحصار انھیں پروگراموں پر ہے
۔ابھی کچھ ہی دنوں قبل یہ خبر بھی آئی تھی کہ چینل کو جو رقم پروگرام بنانے
کےلئے فراہم کی گئی تھی اسے استعمال کرنے سے چینل کے ذمہ داران قاصر رہے
اور تقریبا62کروڑ روپئے چینل کو پروگرام بنانے کے لئے دئے گئے تھے مگر یہ
رقم خرچ نہیں کی گئی اور مالی سال ختم ہوتے ہی اب یہ مر کزی سرکار کو لوٹا
دی گئی ۔ابھی اس پربحثچل ہی رہا تھا کہ ایک دوسریخبر نے محبان اردو کو بے
چین کر دیا اور لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ملک بھر کے 80 دوردرشن
مراکز میںڈی ڈی اردو کےلئے ملازمین کی تقرری اب تک کیوں نہیں کی گئی؟یہ خبر
ایک موقر میڈیا تنظیم کے سروے کے بعد منظر عام پر آئی جسے ملک بھر میں
دہلی، لکھنو، حیدرآباد، کولکاتہ، پٹنہ اور احمد آباد کے علاوہ دوردرشن کے
80 مراکز سے اردو چینل کےلئے مقرر ملازمین کے سلسلے میںحق معلومات قانون کے
تحت فراہم کئے گئے جوابات کی بنیاد پر تحقیقی جرنل میڈیا (ہندی) اورماس
میڈیا (انگریزی) نے عام کیا۔ میڈیا تحقیق سے وابستہ اس اسٹڈی گروپ نے ڈی ڈی
اردو کے مقاصد اور اس کے تناسب میں انسانی وسائل پر اپنے اس سروے میں پایا
کہ خاص لسانی ناظرین کےلئے شروع کئے گئے اس چینل کے لیے ملازمین کی کوئی
مستقل تقرری نہیں کی گئی ہے ۔
آر ٹی آئی سے ملی اطلاعات کے مطابق 80 دوردرشن مرکز، جہاں سے ڈی ڈی اردوکے
پروگرام کی نشریات کا عمل انجام پاتا ہے، وہاں پر اس کےلئے نہ تو کوئی عہدہ
تشکیل دیا گیا ہے، نہ ہی ملازمین کی تقرری کی گئی ہے۔ ان مراکز پر دوردرشن
کےلئے کام کرنے والے ملازمین ہی ڈی ڈی اردوکا بھی کام کرتے ہیں۔ان مراکز پر
اردو چینل کےلئے پروگرام بنانے کا بندوبست نہیں ہے۔دہلی میں دوردرشن عمارت
میں ڈی ڈی اردو کےلئے 6 مستقل افسر مقرر ہیں۔ ان عہدوں میں ایک نائب
ڈائریکٹر جنرل، ایک سیکشن افسر، ایک پروگرام پروڈیوسر، ایک پروڈیوسر، ایک
ایڈیٹر اور ایک اے ڈی جی ہیں۔تنظیم کی معلومات کے مطابق اس کے علاوہ
دوردرشن عمارت کے ڈی ڈی اردو سیکشن میں 18 ملازمین تعینات ہیں، جو کہ تمام
عارضی ہیں علاقائی نشریات مراکز میںتقرریاں عارضی اور ہنگامی ہے۔ اس کے
علاوہ دوردرشن کے دہلی مرکز میں اردو چینل کےلئے صرف 6 مستقل ملازمین ہیں،
ان میں بھی چار عہدے انتظامی ہیںہے جبکہ دوردرشن کے لکھنو ¿ مرکز میں ڈی ڈی
اردو کے پروگرام بنانے والے پینل میں 11، حیدرآباد میں 29، کولکاتہ میں 21
اور پٹنہ میں 6 ملازمین ہیں۔ یہ تمام عارضی یاکیزول بنیاد پر کام کرتے
ہیں۔احمد آباد میں اردو کا ایک پروگرام انجمن نشر ہوتا ہے، جو دوردرشن مرکز
کے ایک ملازم ایشو دیسائی بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ سروے میں یہ بھی بتایا
گیا ہے کہ ان تمام مراکز میں اردو چینل کے فروغ کےلئے نہ کوئی پالیسی ہے
اور نہ ایچ آر کے نام پر کوئی سہولت جس کی بناءپر عام ملازمین میں عدم تحفظ
کا احساس پیدا ہوتا ہے ۔
میڈیا اسٹڈی گروپ سے وابستہ ذمہ دارن نے اخباروں کے نام جاری کردہ بیان میں
یہاں تک کہا ہے کہ زیادہ تر مراکز میں غیر تشفی بخش کام ہو رہا ہے ۔آر ٹی
آئی رپورٹ کے انکشاف کو سامنے رکھتے ہوئے میڈیا گروپ نے اردو چینل کے ساتھ
جانبداری پر کئی سوالات اٹھائے ہیں ۔میڈیا گروپ کے مطابق اردو چینل کے جو
مقاصد تھے ان میں رنگ بھرنے کی نہ کوشش کی گئی اور نہ ہی کوئی اقدام جو
اردو چینل کے مقاصد تھے ۔میڈیا گروپ نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ نشریاتی
چینل کے فروغ کے لئے کئی نئی پالیسیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو یہاں پائی ہی
نہیں جاتی ہے ۔ایک چینل کے طور پر ڈی ڈی اردو نے 14 نومبر 2007 سے 24 گھنٹے
کی نشریات کی شروعات کی مگر اس میں وہ بری طرح ناکام رہا اورجس کا مقصد
اپنے ناظرین کو وراثت، ثقافت، معلومات، تعلیم اور سماجی مسائل پر پروگرام
مہیا کرانا تھا ،بالکل فوت ہو کر رہ گیا ۔ چینل کے قیام کے وقت یہ دعوی کیا
گیا تھا کہ اس کے ذریعہ اردو زبان کو پھر سے مقبول بنانے میں مدد ملے
گی،لیکن یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ یہ چینل ابھی تک پروگرام تعمیر کےلئے
اپنا ڈھانچہ تیار نہیں کر سکا ہے۔ ملازمین کی تقرری نہیں کئے جانے کی وجہ
سے اس چینل کو پروگراموں کی تعمیر کےلئے بیرونی ایجنسیوں پر منحصر رہنا
پڑتا ہے۔ ڈی ڈی اردو سے نشر ہونے والی خبریں بھی دوردرشن سے ہی لی جاتی
ہیں،اردو کے پروگرام کےلئے کسی پالیسی کا نہیں ہونا اصل میں ایک ٹھوس
مواصلاتی پالیسی کی کمی سے منسلک ہے۔چوبیس گھنٹے کا یہ چینل ٹھوس پالیسی کے
فقدان کی وجہ سے اپنے مقاصد کو حاصلنہیں کر پا رہا ہے۔میڈیا اسٹڈیز گروپ
پہلے بھی میڈیا سے متعلق مسائل پر تحقیق اور سروے کرتا رہا ہے۔اس پر اگر
اردو والے آواز اٹھاتے اور اپنے حق کا مطالبہ کرتے ہیں تو انھیں بنیاد پرست
اور نا جانے کیا کیا کہا جاتا ہے لیکن چینل کے تعلق سے یہ باتیں ہم نہیں
بلکہ میڈیا کے ایک ایسے گروپ نے کہی ہے جو سبھوں کے درمیان ہمیشہ سے موقر
اور معتبر تسلیم کی جاتی رہی ہے۔لیکن اس کے باوجود ابھی تک حکومت کے اعلی
ذمہ داران کی جانب سے کوئی امید افزا بیان تک نہیں آیا ہے ۔افسوسناک بات یہ
بھی ہے کہ ڈی ڈی اردو کے اس حشر پر نہ تو کوئی لیڈر پارلیمنٹ میں آواز اٹھا
رہا ہے اور نہ ہی کوئی اردو کا خیر خواہ ادھر توجہ دینے کو تیار ہے ۔ہمیشہ
اردو کا دم بھرنے اور اپنی تقریروں و بیان بازیوں میں اردو کے حقو ق کی بات
کرنے والے بھی خاموش ہیں ۔ |