ہندوستانی سماج پر سنیما کے اثرات

ہندوستانی سماج پر سنیما کے اثرات
محمد علم اللہ
ایم اے ان ماس کمیونیکشن
اے جے کے ایم سی آر سی
جامعہ ملیہ اسلامیہ
نئی دہلی

فلموں کے سماج پر اثرات ، بحث کا ایک پرانا موضوع ہے، معاشرے کے مختلف طبقوں کی جانب سے الزامات لگائے جاتے ہیں کہ فلمیں معاشرے کو بگاڑ رہی ہیں ، جبکہ فلم والے اپنا دفاع یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ وہ وہی دکھا رہے ہیں جو سماج میںوقوع پذیرہو رہا ہے یا جسے سماج پسند کرتا ہے۔اس بحث کا کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا ، کیونکہ دونوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔ہاں ! بات اگراثرات کی کریں تو وہ بہت تشویش ناک سطح تک پہنچ گئی ہیں۔ عمارتوں سے چھلانگ لگانے ، کھیل کھیل میں ساتھی کو چوٹ پہنچانے سے آگے بڑھ کرفلم کے ذریعہ ناظرین جرم کرنا سیکھ گئے ہیںاوریہ ان کی ترغیب کا وسیلہ بن رہی ہے۔ شاید اسی وجہ سے ہندوستان میںاس کے عہد طفولیت میں ہی ہمارے بزرگوں نے اس کے بھیانک اثرات کے پیش نظر اس سے محتاط رہنے کی تلقین کی تھی۔ چنانچہ 1926 میں ہی مہاتما گاندھی نے ”ینگ انڈیا“میں سنیما سے جڑے افراد کو نصیحت کرتے ہوئے ہوئے لکھا تھا”اس کا برا اثر روزانہ میرے اوپر پڑتا ہے اس لئے میں فلم بنانے والوں سے کہونگا کہ وہ سماج کو پاک و صاف اور سدھارکرنے والی فلمیں بنائیں “۔ 1935 میں پریم چند ”ہنس“میں لکھتے ہیں ”سنیما اگر ہماری زندگی کو صحت مند لطف نہیں دے پاتا ہے ، ہمیں بے حیائی و بے شرمی اورفتنہ پردازی کی طرف لے جاتا اور حیوانیت کو بڑھاوادیتاہے ، تو جتنی جلدی اس کا نشان مٹ جائے ، اتناہی بہتر ہے“۔ 1965 میں ورنداون لال ورما نے بھی اسے محسوس کرتے ہوئے لکھا تھا ”فلم کا اثر ناظرین وسامعین پر بہت جلد اور گہرا پڑتا ہے،گندی فلموں کی بہتات ہے ، جو معاشرے کو زوال کی جانب لے جا رہی ہیں، اپنے تہذیب کی حفاظت اور ملک کے اونچے آدرشوں کو بچانے اور اوپر لانے کی سخت ضرورت ہے“۔لیکن اسکے باوجود اتنے متاثر کن اثرات کو زائل کرنے کے لئے کوئی خاص اقدام یا سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، جس کی اب سخت ضرورت ہے ۔1896میں یورپ میں لومیربرادرزکی طرف سے کئے گئے سنیما کے پہلے مظاہرے کے کچھ مہینوں بعد ہی سنیما ہندوستان میں بھی دیکھا جا سکا تھا۔ 1897 میں یہاں عملی طور پر فلم بنانے کی شروعات بھی ہو گئی تھی۔ لیکن اس سے قبل بھی یہ ڈرامہ اور تھیٹر کی شکل میں نہ صرف ترقی پذیر تھا بلکہ اس فن کا وہ عہد عروج تھا ۔شیکسپیئرکے ڈراموں نے ما ورائی طاقتوں ،روح،شیطان اور نفرت و محبت کے ساتھ انسانی نفسیات کی نہایت اچھی عکاسی سے خود کو دائمی قرار دلایا ،تو آغا حشر کاشمیری اور دیگر لکھنے والوں کی سر پرستی میں اس فن نے ترقی کے منازل طئے کئے ۔1913 میں دادا صاحب پھالکے نے اپنی فیچر فلم ”راجہ ہریش چندر “ مکمل کی اور آج تقریبا 800 فلمیں ہر سال بنا کرہندوستان دنیا بھر میں سب سے اوپرہے۔

اگر فلموں کو ادوار میں تقسیم کریں تو سماجی کہانیوں پر مبنی فلموں کے بعد رومانی ،تاریخی ،تفریحی اور تشدد پر مبنی فلموں تک آتے آتے سنیما نے نفرت ،بدلہ ،طاقت کے زور پر کچھ بھی کر لینے ،اسمگلنگ ،مافیا کے کرتوت اور گزشتہ دو دہائی سے عریانیت ،فحاشی ،ذو معنی الفاظ ،جملوں ،گالی اور بے ہودہ مکالموں تک کا سفرطے کرکے ہندوستانی سماج پر اورخصوصی طور پر نئی تین نسلوں کو نہ صرف متاثر کیا ہے بلکہ پاکیزہ و صاف ستھرے ماحول کو پراگندہ اور اس کے تانے بانے کے شیرازہ کو بکھیر دیا ہے ۔1950-60کی دہائی میں سماجی مسائل پر مبنی فلموں نے عوام کا دل جیتا تھا۔دو بیگھ زمین ،اپکار ،مدر انڈیا ،ہندوستانی نظام میں ساہوکاری اور اس کے استحصال کی عکاسی تھی تو 1960-70کی تاریخ پر مبنی فلم مغل اعظم ،انار کلی ،تاج محل ،پالکی اور دیگر فلموں نے ایک اچھا ذوق اور سماج کو صحت مند پیغام دیا تھا ۔اس کی بعد کی فلموں میں رومانس ،تفریح اور عشق و محبت کی داستانیں تھیں لیکن 1980-90میں فلموں نے حیرت انگیزکروٹ لی اور عظیم فنکار دلیپ کمارکے بعد کامیاب ہیرو راجندر کمار،راجیش کھنہ اور کئی دیگر کے بعد ”اینگری ینگ مین“نے نوجوان ذہن کو نہ صرف راغب کیا بلکہ بدلہ ،ظلم کے خلاف مقابلہ اوردن دھاڑ نے امیتابھ بچن کو سپر اسٹار تو بنا ہی دیا ساتھ ہی ساتھ نوجوانوں کی ایسی ذہن سازی کی جس نے دو اور تین نوجوان نسل کو واقعی ”انگری ینگ مین “ بنا دیا ۔ان فلموں کے بعد دھارمک فلموں نے سماج کے کچھ طبقوں کو مذہبی پس منظر میں متاثر کیا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ دھارمک فلموں کی روایتوں اور” اینگری ینگ مین“کی شبیہ سے ہندوستان کی دہشت گرد اور کٹر ہندوتو حامی تنظیموں اور پارٹیوں کو نئی نوجوان اینگری ینگ مین کی نسل مل گئی ۔دوسری جانب فلموں میں عریانیت ،فحاشی ،عصمت دری ،اغوائ،تاوان ،قتل اور ظلم وستم کے نت نئے طریقوں نے جاہل اور کم پڑھے لکھے نوجوانوں کے ساتھ ساتھ دو نوجوان نسل کو ذہنی طور پر تباہ کر دیا ۔ایک طبقہ نے عصمت دری ،قتل ،تاوان اور اغواءکو اپنا طریقہ کاراور مقصد زندگی بنایا تو دوسری نسل نے جلد دولت مند بننے کے لئے،قتل ،ڈکیتی ،چوری ،چھین کر بھاگنے اور اب دن دہاڑے قتل اور لوٹ کا طریقہ کار اختیار کیا ۔گزشتہ دو دہائی سے فلموں میں فیشن ڈیزائننگ اور اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کے پیغام نے لڑکیوں اور لڑکوں کو آوارگی ،عیاشی ،عیش کوشی ،عصمت فروخت کرنے اور عصمت لوٹنے کی جانب راغب کیا ہے ،نتیجہ یہ ہے کہ آج دہلی جیسے شہر میں اوسطا تین لڑکیوں کی روزانہ عصمت فروخت اور اس سے زائد کی لوٹی جا رہی ہے ،ان فلموں کے ذریعہ شادی شدہ زندگی کے باوجود غیروں سے جنسی تعلق،اوباش،”لوان ریلیشن شپ “اور” انٹر کاسٹ “شادی کے رجحان کو فروغ دیا ہے بلکہ اس قسم کی شادیوں کے ہونے کے پاداش میں ”آنر کلنگ “جیسے لفظ کو فروغ حاصل ہوا ہے ،تو عزت وناموس کی خاطر قتل کئے جانے والے لڑکے لڑکیوں کی تعداد بھی سو میں پانچ فیصد ہے ۔

ایسے میں بھی ہر طرح کی پریشانیوں، تنقید ، شور ،ہنگامہ اور احتجاج کے باوجود ہندوستان میں سنیما کا اس مقام تک پہنچ پانا یقینا اس کی طاقت کا احساس کرنے کے لئے کافی ہے۔سنیما کے طاقت اور اس کی اثر انگیزی کی سب سے بڑی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ ہم ان چیزوں اور واقعات کو ویسے ہی دیکھتے ہیں ، جیسا وہ ہے یا ہواہو۔ بلکہ ذہنی طور پر ہم بھی واقعات کے اندر ہوتے ہیں۔ اصل میں کسی بھی فلم کو دیکھنے کے دوران شائقین کی آنکھ اور کان کے ساتھ دماغ کی بھی شراکت ضروری ہوتی ہے۔ سنیما کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ جتنی سامنے نظر آتی ہے اتنی ہی ہمارے دماغ میں بھی بنتی ہے۔ ہم کسی اداکار کوپہاڑ پر چڑھتے آنکھوں سے دیکھتے ہیں ، کانوں سے اس کے پیروں کی آواز ، کیلیں گاڑنے کی آواز ، ارد گرد کے ماحول ،جنگل جھرنے وغیرہ کو بھی نہ صرف دیکھتے بلکہ محسوس کرتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کچھ اصلی ہے، لیکن یہاں صرف ہمیں اس کا احساس کرایا جاتا ہے، سات دن کے حقیقی وقت میں پوری ہونے والی چڑھائی کو صرف سات شوٹ میں سات منٹ سے بھی کم وقت میں دکھا دیا جاتا ہے، باقی کی کمی ہمارا دماغ پوری کرتا ہے۔ اصل میں اداکار کو پہاڑی چڑھتے ہم محض دیکھتے ہی نہیں ، اس کے ساتھ ہوتے ہیں ،وہ بھی ذہنی طور پر،اور ظاہر ہے جب ہم ذہنی طور پر کہیں ہوتے ہیں تو ذہن زیادہ چاہے کم ،مثبت یا منفی اثر ضرور قبول کرتا ہے ۔تبھی ’ولے بنےوےل ‘نے مانا تھاکہ سنیما ہمارے دماغ پر افیون جیسا اثر کرتا ہے۔ذہنی طور پر اپنے آپ کو مناظر کے اندر محسوس کرانے کی صلاحیت ہی ہے جو سنیما کو اس قدر جاذب نظر بناتی ہے کہ کروڑوں لوگ بغیر کسی فلمی زبان اور ٹیکنالوجی کی سمجھ کے ٹکٹ خریدتے ہیں ، فلم دیکھتے ہیں اور اپنی ضرورت کے مطابق اسے سمجھتے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ادب یا فن کو یہ سہولت دستیاب نہیں ہے ادب یا فن کااستعمال ہم تب تک نہیں کر سکتے جب تک کہ ہماری اس کے اصول وقواعدسے واقفیت اور فنی نزاکتوں سے آشنائی نہ ہو،لیکن سنیما نے اپنے لئے ایسی فطری زبان کا انتخاب کیا ہے جو عام انسان کے صرف مجازی صلاحیت کے اصول پر مبنی ہوتی ہے۔اسی لئے ہندوستانی ثقافت نے جب سنیما کو معصوم بچوں اور نوعمروں کے لئے ضرورت تسلیم کیا تھا تو اس کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ اس وقت نام نہاد’اچھی فلموں‘ کی بہتات تھی ، اس کی صحیح وجہ اس وقت کے ہندوستانی سماج کی یہ واقعی ضرورت اور واجبی سمجھ تھی کہ سنیما کہیں نہ کہیں ہمارے سوچنے سمجھنے اور تصور کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے۔انہیں احساس تھا کہ ” پیراشوٹ“ کی پرواز بچوں کے دماغ کو اس قدرتیز بنا سکتی ہے کہ وہ اندھاکنویں میں بھی چھلانگ لگا سکتے ہیں جبکہ ان کاآزاد دماغ ”پیراشوٹ “سے بھی اونچی اڑان بھر سکتا ہے۔لیکن اسے المیہ ہی کہا جائے گا کہ ہمارے یہاں دل میں کوئی تصور جنم لیتا ہے یا کچھ کرنے کی امید جاگتی ہے تو ہم اس کو شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کے علاوہ اسے دلیلوں پر تولنے لگ جاتے ہیں ، جبکہ سامنے شرمندہ تعبیر ہوتے”سچ“کو دیکھ ہمیں دلیل کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔

ہم میں سے کتنے لوگ ہوں گے ، جنہوں نے سنیما دیکھنے کے لئے کبھی نہ کبھی ڈانٹ نہ سنی ہو یا مار نہ کھائی ہو،تمام تر پابندیوں کے باوجود یہ تسلیم کرنے میں کوئی باک نہیں کہ سنیما عام انسانوں کے تفریح کا سب سے محبوب اور موثر ذریعہ ہے۔ہندوستان میں ہی نہیں ، دنیا بھر میں پاکستان ، ایران ، سری لنکا سے لے کر انگلینڈ ، امریکہ ، جاپان تک حتی کہ مورکواورطالبانیوںکو اپنی انقلابی خیالات و افکار کے تشہیر کے لئے سینما کی راہ اپنانی پڑی ۔اور تو اورمعروف زمانہ’ ڈیوڈ دھون‘ کو اپنی حرکتوں سے شائقین کو خوش کر پیسے ایٹھنے کے لئے بھی سینما ہی سجھائی دیا ۔صورتحال آج یہاں تک پہنچ چکی ہے کی سنیمابازاروں اور تھیٹروں سے ہوتے ہوئے ہمارے گھر کے اندر داخل ہو چکا ہے۔ ہم اسے دیکھیں یا نہیں یہ بھی اب ہماری خواہش پر منحصر نہیں ہے ۔ سینکڑوں چینلوں نے اس کو لیکر جہاں دھوم مچا رکھی ہے وہیںنیوز چینلوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔محض ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے یاریت میں سر چھپا کر طوفان کو روکا جاناناممکن ہے۔آج ٹیلی ویژن کی توسیع نے پورے ہندوستانیوں کے ذہن و دماغ کومفلوج اور تذبذب کا شکار بنا دیا ہے۔ سنیما کی ثقافت اب صرف کپڑے کی بناوٹ اور بالوں کی سجاو ٹ کوہی متا ثر نہیں کر رہی ہے بلکہ اب اس نے سماجی اقدار کو بھی درہم برہم کر دیا ہے۔سماجی مسائل کو فلم نے اپنے مسلسل اثرات سے اتنی کم اہمیت کی شئے بنا دیا ہے کہ تشدد ، جرائم ، زنا ، عصمت دری،خودکشی ان میں سے اب کوئی حادثہ ہمارے اندر اس جرم کا احساس نہیں جگا پاتاگویا ہماری حسیت ہی فناہو گئی ہے ۔

سنیما کے اس اثر کو سمجھتے ہوئے مغربی ممالک نے 50 کی دہائی میں ہی فلم مطالعہ پر سنجیدگی سے غور و خوض کرنا شروع کر دیا تھا۔اس وقت سے ہی ان ممالک میں ریسرچ اسکالر اور ماہرین نفسیات کے لئے یہ تشویش کا موضوع تھا کہ بچے جتنا وقت اسکول میں گزارتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ٹیلی ویژن کے سامنے، اس لئے اس کا کوئی حل تلاش کیا جانا چاہئے اور انھوں نے اپنے اسی مطالعہ کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دو سال کی عمر سے ہی جب بچے مادری زبان سیکھنے کی ابتدا کرتے ہیں ٹیلی ویژن اور فلم جیسے مناظر سے پیغام قبول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ دو تین سال کے بچے کا کارٹون نیٹ ورک کے آگے خاموش پڑے رہنا کوئی اتفاق نہیں ، بلکہ ہمیں یہ قبول کرنا چاہئے کہ بچہ باقاعدہ اسے دیکھ اور محسوس کر رہا ہوتا ہے۔سنیما آج ہماری طرز زندگی میںرچ بس گیا ہے۔کھانا کھانا ، آفس جانا ، اسکول جانا اور اسی طرح دوسری ضروریات کی طرح ہم نے اس کو بھی اپنی زندگیوں میں شامل کر لیا ہے۔ اس کے باوجود فلم بینی کا انتخاب ہمارے نزدیک کوئی موضوع ہی نہیں رہا ،یہاں تک کہ ذہن وفکرکو پراگندہ کر دینے والی فلمیں بھی ہم اپنے بچوں کے ساتھ دیکھنے میں عار محسوس نہیں کرتے اسی کا نتیجہ ہے کہ فلم دیکھتے ہوئے بچے کسی گالی کا مطلب ہم سے پوچھتے ہیںتوہم مسکرکر جواب دیتے ہوئے بھی نہیں شرماتے،نام نہادجدیدیت کی طرف گامزن ہندوستانی معاشرے کی یہ بد قسمتی ہی ہے کہ یہ مسلسل سمٹتا جا رہا ہے، بے شک اصلی خاندان اور معاشرے سے ہوتی دوری کوسماج سے پاٹنے کی اس مجازی دنیاکے پاس مجبوری ہوتی ہے،اور سماج کو اس کے لئے کچھ نہ کچھ چاہئے اور اس چاہیے کے لئے متبادل اسے سنیما سے ملا، یہ ’مجازی دنیا ‘سماج کی خاصیت تھی ، یہ اس کے مطالبہ پر دستیاب تھا۔ جب بھی تنہائی یا اکےلاپن محسوس ہو ، چلو سنیما، ایک خوشگوار بھرے پورے ماحول سے مطمئن لوٹ کر پھر لگ گئے اپنے روز کے جددوجہد میں۔ شاید اسی لئے سنیما دیکھنا جو پہلے سال چھ مہینے کا تہوار ہوتا تھا ، اب ہفتہ بلکہ روزانہ کا شغل بن گئے۔

یہ بھی غور طلب ہے کہ گاؤں ، قصبہ ، شہرو محلہ جات میں جیسے جیسے خاندانی عناصر چھوٹی ہوتی گئیں اس شغل کی تبدیلی بڑھتی گئی۔ جس نے سب سے زیادہ بچوں کو متاثر کیاکیونکہ پورے خاندان میں سب سے اکیلا اور تنہا وہی تھا ۔تعجب کی بات نہیں کہ خاندانوں کے اس رویہ سے فلم کے انتخاب کا فیصلہ دھیرے دھیرے بچوں کے ہاتھوں میں سمٹتا چلا گیا۔ انہیں مطلب سنیما سے نہیں ، بس سینما گھر کی رونق اور سنیما کے پردے پر رسائی ’مجازی دنیا‘ سے تھا۔ اور حقیقت میں سرپرستوں کے لئے انہیں بھرے پورے سماج سے کاٹنے کی یہ ایک پیش خیمہ تھی اور یہ پیش خیمہ کس طرح ان کی سمجھ کو اپنی دنیا کے تئیں غیر ذمہ دارانہ اور مطلب پرستانہ بنا دیا،یہ ہم اپنے بچوں خاص کر نوجوان نسل کو ”آزادی ہمارا پیدائشی حق ہے “اور ”ہماری زندگی ہم جیسے چاہیں گزاریں “ جیسے الفاظ اپنے والدین اورذمہ داروں سے بے باکانہ اور بد تمیزانہ انداز میں کہنے اور اس پر فخر و اصرار کرنے کے رویہ سے لگا سکتے ہیں ۔شریف سے شریف گھرانوں کی لڑکیوں میں عریانیت ،ننگے پن ،ڈسکو کلچر،اور مغربی لباس جبکہ لڑکوں میں شراب شباب کا بڑھتا جنون ،گرل فرینڈ کو خوش کرنے کی خاطر بائک چوری ،کار چوری ،لوٹ ،ڈکیتی ،فراڈ ،دھوکہ دھڑی اور منشیات کی جانب عملی رغبت اور اس سے پیدا ہونے والی تباہی اسی کا نتیجہ ہیں ۔

اس لئے آج اس حالت میں جب کہ سنیما کے اثرات کو روکا نہیں جا سکتا ، بہتر یہی ہے کہ لوگوں کو سنیما دیکھنے سے روکنے کے بجائے اسے سنیما دیکھنا سکھائیں۔سکھانے کا مطلب ہے باقاعدہ فلم مطالعہ،اس باقاعدہ مطالعہ کا مطلب دماغ کو ایسے ذرائع سے لیس کیا جانا ہے کہ وہ علم کی مخفی دنیا کو سمجھ سکیں کیونکہ کسی بھی موضوع کو ایک شخص اپنی سمجھ سے ایک حدتک ہی سمجھ سکتا ہے۔ سنیما تو فن کاسب سے پیچیدہ ذریعہ ہے ، جس میں ادب بھی ہے ، فن بھی ، سائنس بھی اور ٹیکنالوجی بھی۔سنیما پر ہر نقطہ نظر سے غوروخوض اور مطالعہ کی ضرورت ہے۔ ایک باضابطہ فن کے طور پر ، ایک مقبول عوامی تفریح کے طور پر ، معلومات اور سماجی اقدار کوبدلنے والے ذرائع کے طور پر ، ثقافتی ماحول کی تعمیر کرنے والے ایک ایجنسی کے طور پر،جس میں تعمیری اور مثبت طرز فکر کا خیال رکھا گیا ہو۔ یقینا اگر اسے اس طور سے برتا گیا اورباقاعدہ مطالعہ کے ذریعہ کوئی لائحہ عمل بنانے کی کوشش کی گئی تویہ صرف فلم کی ہی نہیں پورے ثقافتی ماحول کے لئے کار آمداور ممدو معاون ثابت ہوگا ۔

یہاں پر یہ بات بھی عرض کر دینے کی ہے کہ1980میں’ نیشنل فلم پالیسی ‘کمیٹی کی طرف سے فلم مطالعہ کو قومی تعلیمی نظام میں اور کالج و یونیورسٹی کی سطح پر رسمی تعلیم میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ ہندوستان کی حکومت نے سفارش قبول کرتے ہوئے یو جی سی اور این سی ای آرٹی کو فلم مطالعہ کی سمت میں ضروری اقدام اٹھانے کی ہدایت بھی جاری کی تھی۔لیکن آج بھی دوردرشن کے پروگراموں میں”انڈر اسٹینڈنگ “کی ایک سےریزنشر کرنے اوریونیورسٹیوںمیں تحقیق اور تدوین کی سطح پر اسے محض ایک موضوع کے طور پر قبول کر لینے کے، فلم کامطالعہ جوں کا توں برقرار ہے ۔حالانکہ اسے چھوڑ کر آج ایک اور ثقافت کو حاشیہ پر ڈال دینے کی نہیں بلکہ نفرت کرنے کی سیاسی دباؤ ،ثقافت کویونیفارم بنانے کا دباؤ اور تیسری طرف عالمی ثقافت کو فروغ دینے کی کوشش سے خبردار ہونے کا ہے۔اگر ابھی بھی سنیما پر ہم نے اپنا کنٹرول نہیں قائم کیا تو پل سے پانی کے گزر جانے کے بعد پھر آگے کتنا بھی سر پھٹول کر لیں نتیجہ ہاتھ نہیں آ سکتا۔ اس کے لئے ایک بار پھر سے نیشنل فلم پالیسی 1980کو یاد کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ سنیما کے تئیں بچپن سے ہی ایک صحیح سمجھ پروان چڑھ سکے۔ یہ ایک دن کی کوششوں سے نہیں ہو سکتا ، مسلسل اورباقاعدہ مطالعہ اور اس سلسلہ میں عوامی بیداری سے ہی صحیح اور غلط سنیما کی سمجھ کو تیار کیا جا سکتا ہے۔اس لئے کہ اب کسی بھی صورت میں لوگوں کو سنیما دیکھنے پر روک یا پابندی عائد نہیں کی جا سکتی ہے ۔ہاں !اس بات کی کوشش کی جا سکتی ہے کہ ایک صحت مند نقادانہ ذہنیت اور تجزیاتی فکر کے ساتھ سنیما کو سنیما کی طرح دیکھا اور قبول کیا جا ئے ۔اس کے لئے عام لوگوں کے علاوہ حکومت اور پڑھے لکھے یعنی طبقہ اشراف کو بھی آگے آنا ہوگا کہ.... ’ع‘
”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی“
ALAMULLHA ISLAHI/محمد علم اللہ اصلاحی
About the Author: ALAMULLHA ISLAHI/محمد علم اللہ اصلاحی Read More Articles by ALAMULLHA ISLAHI/محمد علم اللہ اصلاحی : 60 Articles with 54376 views http://www.blogger.com/profile/14385453359413649425.. View More