مسیحا یا موت کے سوداگر

ڈاکٹر ،انجینئر ،سائنس دان اور ٹیچر معاشرے میں ایک مقام رکھتے ہیں ۔ان کی خدما ت قابل ستائش اور قابل بیا ں ہوتی ہیں ۔ہر کوئی ان کی شخصیت اوران کے مقدس پیشہ کو سلام کر تا ہے ۔خصوصا ڈاکٹراور ا ساتذہ کی جتنی قدر دنیا میں ہوتی ہے شاید ہی اتنی کسی اور شخصیت کی ہوتی ہو۔ڈاکٹروں کا پیشہ مسیحائی پیشہ ہے ۔یہ ایسا مقدس پیشہ ہے جس سے انبیاءاور اولیا ءاللہ جیسی عظیم ہستیا ں منسلک رہی ہیں ۔جاں بہ بلب اور تڑ پتے مریضوں کا آخری سہارا یہی ڈاکٹر بنتے ہیں ۔رات دن دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کر کے ان کی دعائیں لیتے ہیں اور آخرت میں مستحق اجر ٹھہر تے ہیں ۔زمانہ کے بدلتے رنگ ہوں یا حالات کی تلخیاں اور بے رخیاں ،برستے بادل ہوں یا کڑکتی بجلیاں ،کوئی بڑی سی بڑی مصیبت بھی ان کے مقصد کو متزلز ل نہیں کر سکتی۔ہر وقت خدمت خلق میں مصر وف رہنا انہی لوگوں کا شیوہ ہے۔

لیکن اصل بات وہی ہے کہ انسا ن کتنا اعلی ،باکردار اور باعزت ہو اس کی سوچ اور اس کا منصب کتنا ہی بلند ہو مگر ا س کا مقام ،کردار اور عزت اور منصب اس وقت پاش پاش ہو جاتے ہیںجب وہ اپنے فرض منصبی اور حسن اخلاق سے پہلو تہی کرتا ہے۔اخلاقیا ت انسان کی شخصیت کو اجاگر کرتی ہیں ۔فرائض کی ادائیگی انسان کو معاشرے میں باعزت اور باوقار بناتی ہے۔اس کے برعکس فرائض سے سبکدوشی اور غفلت نہ صرف انسانی شخصیت کو متاثر کرتی ہے بلکہ معاشرے کے بگاڑ اور فساد کا سبب بھی بنتی ہیں۔اس وقت ارضِ پاک جن مسائل سے دوچار ہے اس کی اہم وجہ فرض منصبی کی بر وقت ادائیگی میں غفلت اور لاپر واہی کرناہے ۔مغرب کی ترقی کا راز فرض منصبی کی بر وقت ادائیگی ہی میں پنہاں ہے۔

پاکستان میں آئے دن جو ہنگامے اور ہڑ تالیں ہوتی ہیں اس سے ہر درد مند پا کستانی کا دل دکھتا ہے ۔لیکن گذشتہ چند دنوں سے پنجاب میں ینگ ڈاکڑوں کی ہڑتال کے باعث ہر پاکستانی کوسخت صدمہ ہو ا ہے ۔پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں میں ینگ ڈاکٹروں کی ہڑ تا ل ایک افسوسناک امر ہے ۔ان کے اس رویہ سے معاشرے میں ڈاکٹروں اور ان کے مقدس پیشہ سے نفرت کو ہوا مل رہی ہے اور اقوام عالم کی نظر میں پاکستان کا امیج بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔تعجب ہے !ان مسیحاﺅ ں کی سوچ اور انداز پرکہ غریب ،نادار ،مفلس اور سسکتے مریضو ں کو چھوڑ کر اپنی خواہشات اور مطالبات منو انے کے لیے ہسپتالوں کے تالے لگا کر سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں ۔آخر مریضوں کو تڑپتے چھوڑ کر مسیحا کس راہ پر چل پڑے ہیں ؟کیا ان کا پیشہ اس بات کی اجازت دیتاہے ؟پیشہ چھوڑئیے ،ذرا! اپنے ضمیر سے اس کا فیصلہ کیجئے۔کیا آپ کا ضمیر آپ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے ۔۔۔؟نہیں نہیں،ایسا تو حیوانوں کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتاانسان تو پھر بھی انسان ہے۔ اگر سبزی فروش ہڑتال کر یں تو عوام اشیا ءخوردو نوش سے محروم ہو جاتے ہیں اور اگر سی این جی ،پٹرول پمپ مالکان سڑکوں پر نکلیں تو ٹرانسپو رٹ بند ہو جاتی ہے،لیکن اگر یہ مسیحا ہڑتال کریں تواس کا نتیجہ ظاہر ہے کسی بھی صورت درست نہیںنکلتا۔گذشتہ سا ل انہی ڈاکڑوں کی ہڑتال کے باعث کئی جانیں ضائع ہوئیں۔اپنے جا ئز مطالبات کے لیے احتجا ج اور ہڑتال کر ناہر اس شخص کا حق ہے جس کی حق تلفی ہو رہی ہو ۔لیکن یہ احتجاج اس وقت احتجا ج رہتا ہے جب پر امن ہو ،نہ کسی کا نقصان ہو اور نہ کسی کی حق تلفی ۔دنیا میں ہر طبقہ اپنے مطالبات کے لیے احتجا ج اور ہڑتال کرتا ہے مگر ڈاکٹر وں کا احتجاج اورہڑتال کبھی سننے میں نہیں آئی ۔ برطانیہ میں ڈ کٹروںنے اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کر نے کا ارادہ کیا مگراس ارادے کو صرف اس لیے ترک کر دیا کہ اس سے نقصان سراسر مریضوں کو ہوگا ۔لیکن کمال جائیے !ان کی ذہانت پرکہ انہوں نے اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کیا مگر پر امن طریقہ سے ۔ پوسٹل سروس والوں کو اپنی جگہ احتجا ج کے لیے کھڑا کیا اور اپنے مطالبات منو الیے۔

جہاں تک پنجاب میں ینگ ڈاکٹر وں کی ہڑتال اور ان کے رویہ کا تعلق ہے تو وہ سراسرمریضو ں کے ساتھ زیادتی اور نا انصافی ہے ۔پنجاب حکومت کے مطابق ینگ ڈاکٹروں کو مراعات اور الاﺅ نسز کے علاوہ جو تنخواہیں دی جاتی ہیں وہ دیگر صوبوں کے ڈاکٹروں کی بنسبت زیادہ ہے ۔اعدادو شمار کے گھوڑوں کو دوڑایاجائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی کہ دیگر سرکا ری محکموں کی بنسبت ان مسیحائی پیشہ وروں کا کتنا خیا ل رکھا جاتا ہے۔چنانچہ ایک 17سکیل کا افسر جو دیہی علاقوں میں فرائض سر انجام دیتا ہے اسے تقریبا 60ہزار روپیے جبکہ سول افسرکو 29ہزار ماہ وار ملتے ہیں ۔اسی طر ح گریڈ 18کے ڈاکڑو ں کی تنخواہ 81ہزار سے ایک لاکھ تک ہے اورگریڈ 20میں کام کرنے والے ڈاکٹر ایک لاکھ سے 2لاکھ 29ہزار روپیے وصول کر تے ہیں۔اس کے علاوہ الاﺅنسز کی مد میں ایک خطیر رقم ان مسیحاﺅ ں پر خرچ کی جاتی ہے ۔ان میں ہیلتھ سیکٹر الاﺅنس کی مد میں تقریبا5ہزار سے 30ہزار تک اور ہیلتھ پروفیشنل الاﺅ نس کی صورت میں 10ہزار سے 15ہزار تک ماہوار ملتے ہیں ۔ان تمام مالی فوائد کے باوجود ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتال سمجھ سے بالا تر ہے۔ان کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے تقریبا 20سے22ارب روپیے کی خطیر رقم کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔یہی وجہ ہے پاکستان ڈاکٹر فورم کے سربراہ ڈاکٹر انوارالحق نے اس ہڑتا ل کو بلا جواز قرار دیا ہے۔

افسوس صد افسو س !جن غریبوں نے لاکھوں روپیے ٹیکسوں کی مد میں خرچ کر کے ان مسیحاﺅ ں کے اخراجات برداشت کیے اور ان کو اس مقام تک پہنچایا آج وہی ڈاکٹر ان غر یبوں کے علاج معالجے سے انکاری ہیں ۔چند دن قبل وزیر اعلی پنجاب نے مسیحاﺅں کے بدلتے تیور کو درست سمت لانے کے لیے انقلابی قدم اٹھایا اور اخبارات میں ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتال کے باعث مریضوںکو پیش آمد ہ صورت حال کے پیش نظر والدین کے نام خط لکھا ،جس میں والدین سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنے بچوں کو پر امن رہنے کی تلقین کریں اور جاں بہ لب مریضو ں کی سسکیو ں کو دیکھ کر ینگ ڈاکٹروں کی ہڑتا ل ختم کر وائیں ۔ درددل رکھنے والے ینگ ڈاکٹروںکو چاہئے کہ وہ جلداز جلدہڑتال ختم کر کے دکھی انسایت کی خدمت اور اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کے لیے ڈیوٹیوں پر واپس آجائیں گے ۔یہی اس پیشہ سے وابستہ افراد اور مسیحاﺅ ں سے توقع کی جاسکتی ہے۔ورنہ یہ مسیحامعاشرے میں موت کے سوداگر بن جائیں گے ۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 45 Articles with 38275 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.