ہندو پولیس، مسلمان پولیس

دہلی کی ایک عدالت نے اسی ہفتہ ایک معمر شخص کو کوک شاشتر ٹائپ کی چار قابل اعتراض کتابیں اپنے پاس رکھنے کے جرم میں ایک ہفتہ کی قید اور ایک ہزار روپیہ جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ یہ مقدمہ آٹھ سال سے چل رہا تھا اور پولیس کا مطالبہ تھا اس کو سخت سزا دی جائے ،ہرچند کہ استغاثہ اس کے خلاف پختہ ثبوت پیش نہیں کرسکا تھا۔ مقدمہ کی طوالت سے عاجز آکر آخر ملزم نے عدالت سے کہا کہ ہرچند میں بے قصور ہوں، تاہم اعتراف جرم کئے لیتا ہوں ، مجھے اس مقدمہ سے نجات دلادیجئے۔ عدالت اس کی یہ استدعا قبول کرلی۔ سزا کا حکم سنادیا، لیکن کیونکہ وہ ضمانت پر رہا ہونے سے پہلے سزا کی مدت سے زیادہ جیل کاٹ چکا تھا ،اس لئے اس کو اب جیل نہیں جانا پڑا۔جرم کی نوعیت دیکھئے اورمقدمہ کی وہ مصیبت جو آٹھ سال تک ملزم کے سر پر مسلط رہی۔ اس مقدمہ میں ملزم بھی ہندو ہے ،اس کو گرفتار کرنے اور مقدمہ چلانے والا پولیس کاعملہ بھی ہندو ہے۔اس کے باوجود اس کو اتنی زحمت اٹھانی پڑی۔ اگر ملزم مسلمان ہوتا تو فوراً یہ خیال آتا کہ یہ تو فرقہ ورانہ تعصب کا معاملہ ہے۔

یہاں یہ کیس ایک مثال کے طور پر پیش کیاگیا، ورنہ ملک بھر میں اس طرح کے کیس ہوتے رہتے ہیں، جس میں قابل نظر اندازخطاﺅں پر گرفتار کرکے مقدمہ قائم کردیا جاتا ہے اور عدالت کا بیش قیمت وقت ضائع کردیا جاتا ہے۔ سرکاری خزانے اور ملزم کی جیب پر اس کا بوجھ پڑتا اور پولیس عملہ بھی بلاوجہ کی مصروفیت میں الجھا رہتا ہے۔ پولیس کے اس روش کے خلاف شکایات بھی عام ہیں۔بلاثبوت گرفتاری اور عدالتی کاروائی کی سست رفتاری کی وجہ سے معمولی معمولی الزامات کے تحت قیدیوں کو سالوں جیل میں رہنا پڑتا ہے۔اندھیر گردی کا عالم یہ ہے کم سن اوردودھ پیتے بچوں کے نام بھی ایف آئی آر میں شامل کرلئے جاتے ہیں۔ لاءکمیشن آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندستانی جیلوں میں زیر سماعت قیدیوں کی تعداد 57فیصد سے زیادہ ہے۔گویا سزا کاٹنے والے مجرموں سے زیادہ وہ لوگ جیلوں میںبند ہیں جن کا قصور ابھی عدالت سے ثابت نہیں ہوا ۔ اس طرح کے زیر سماعت قیدیوں کی مدت قید دس ، بیس اور تیس سال یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔

مسلمان قیدی زیادہ کیوں؟
اس میں چونکادینے والی بات یہ ہے کہ مسلمان گرفتار شدگان کی تعداد ان کے کل آبادی کے مقابلے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ گویا مسلمانوں کے تعلق سے پولیس کے رویہ پر کریلا اور نیم چڑھا کی مثال صادق آتی ہے۔چنانچہ یہ تاثر عام ہے کہ پولیس مسلمانوں کے ساتھ کچھ زیادہ ہی زیادتی کرتی ہے۔مثال کے طور پر سچرکمیٹی نے اپنی رپورٹ میںیہ انکشاف کیا ہے کہ مہاراشٹرا کی جیلوں میں ایک ہزار میں 324قیدی مسلمان ہیں جب کہ ریاست میں ان کی آبادی ہزار میں صرف 106 ہے۔ اسی ریاست میں ایک سال سے کم مدت سے جیل کی سلاخو ں کے پیچھے جن لوگوں کو پولیس نے دھکیل دیا ہے ،ان میں مسلم قیدیوں کی تعداد فی ہزار قیدی 406 تھی۔گجرات میں حال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ ریاست میں مسلم آبادی فی دس ہزار صرف 906ہے ، جب کہ جیلوں میں انکی تعداد فی دس ہزار قیدی ڈھائی ہزار سے اوپر یعنی ایک چوتھائی سے زیادہ ہے۔قومی راجدھانی دہلی میں جہاں مسلم آبادی فی ہزار 117 ہے ، جیلوں میں ان کی تعداد فی ہزار 292 ہے۔

یہاں مثال کے طور پر صرف چند ریاستوں کا ذکر کیا گیا ورنہ ملک بھر میں حالت کم و بیش ایسی ہی ہے ۔ سچر کمیٹی کی یہ رپورٹ نومبر 2006 میں آئی تھی۔ خوش گمانی یہ تھی کہ اس کے بعد صور تحال کچھ بہتر ہوگی مگر حال ہی میں ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کی جو رپورٹ آئی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صور تحال مزید خراب ہوئی ہے۔ چنانچہ مہاراشٹر کی جیلوں میں زیر سماعت مسلم قیدیوں کی تعداد سنہ2005ءمیں 324فی ہزار سے بڑھ کرسنہ 2011ءمیں 335 فی ہزار ہوگئی ہے۔

ان اعداد و شمار کے کیا نتیجہ اخذ کیا جائے؟ کیا ان سے جامعہ نگر تھانے کے لائق ایس ایچ او کا یہ تاثر درست ثابت ہوتا ہے کہ مسلم اقلیت دیگر اقوام کے مقابلے زیادہ قانون شکن ہے ؟ایسا نہیں ہے۔ عدالتی کاروائی کے بعد مسلم ملزمان کی سزایابی کی شرح سے اس نظریہ کی تصدیق نہیں ہوتی۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہ شرح فی ہزار قیدی صرف 191 ہے۔ یعنی ایک ہزار میں سے صرف 191قیدیوں کو ہی عدالت سے سزا مل پاتی ہے جبکہ 809ملزمان بری ہوجاتے ہیں۔ عدالتی معاملات سے واقف افراد کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو سزا ہوجاتی ہے ان میں بڑی تعداد ایسے ملزمان کی ہوتی ہے جن کے مقدمے کی پیروی میں خامی رہ جاتی ہے۔ اگر پیروی ٹھیک سے ہو تو یہ تعداد مزید کم ہوجائیگی۔ ان 191میں سے ایک اندازہ کے مطابق نصف سے زیادہ اپیل کی دوران چھوٹ جاتے ہےں۔لب لباب یہ کہ پولیس کیس کمزور ہوتا ہے اور عدالتی کاروائی میں بھی پولیس افسران دلچسپی نہیں لیتے۔یہ تسلیم کہ اس کی ایک بڑی وجہ عدالتی کاروائی میں غیر معمولی تاخیر بھی ہے۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ پولیس کو جتنی دلچسپی کسی کیس میں گرفتاریاں دکھا کر ’کیس حل کرلینے‘ کے دعوے میں ہوتی ہے اتنی جرم کو ثابت کرنے میں نہیں ہوتی اور کیونکہ کسی بے قصور کو بلا ثبوت گرفتار کرکے اس کی زندگی تباہ کرنے والے پولیس عملے سے کوئی باز پرس نہیں ہوتی اس لئے بے قصوروں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالدینے اور پھر بھول جانے میں کوئی قباحت نہیں ہوتی۔

مسلم علاقوں میں مسلم تھانیدار
حال ہی میں مرکزی داخلہ سیکریٹری مسٹر آر کے سنگھ نے اعلان کیا ہے کہ مرکزی حکومت نے سچر کمیٹی رپورٹ کی اس سفارش کو منظور کرلیا ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں کے تھانوں میں کم از کم ایک مسلمان افسر لازماً تعینات کیا جائے۔اصلاً یہ اعلان او بی سی کوٹے میں ذیلی 4.5فیصد ریزرویشن کا ناقص حکم کے عدالت سے کالعدم ہوجانے کے بعد مسلمانوں کی اشک شوئی کا اقدام تصور کیا جارہا ہے، تاہم اس حکم کے بعد ایک نیا انکشاف ہوا ہے۔ پولیس کے پاس اتنے افسر ہیں ہی نہیں کہ اس حکم پر عملدرامد کیا جاسکے۔ مثال کے طور پر دلی پولیس نفری میں 83000 میں صرف 1500 عملہ مسلم ہے۔ ان کا تناسب فی ہزار صرف 18 ہے اور جیسے جیسے درجہ بڑھتا ہے یہ تناسب کم ہوتا جاتا ہے۔ اعلا افسران میں صرف ایک جائنٹ کمشنر آف پولیس اور چار ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر آف پولیس کا تعلق مسلم اقلیت سے ہے ۔ ایک بھی اسپیشل کمشنر یا ڈپٹی کمشنر مسلمان نہیں ہے۔ تقریباً یہی صورتحال دیگر ریاستوں میں بھی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ تقسیم کے وقت ہندستانی پولیس فورس میں مسلمانوں کا تناسب ان کی آبادی سے کہیںزیادہ تھا اورپولیس میں بڑی تعداد میں مسلم افسران بھی تھے۔ مسلم تنظیمیں، خصوصاً جمعیة علماءہند مسلسل یہ مطالبہ کرتی رہی ہے کہ پولیس اور مسلح پولیس دستوںمیں مسلمانوں کی تعداد ان کی آبادی کے تناسب کے مطابق ہونی چاہئے اور یہ کہ خصوصاً فسادات کے دوران پولیس کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ شدید متعصبانہ ہوتا ہے۔ لیکن اس پر حکومت نے کبھی توجہ نہیں دی۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ مسلمان پولیس کی طرف رخ ہی نہیں کرتے۔ حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی جب کہ پورے ملک میںکانگریس کا ایک چھتر راج تھا ،سیکولرزم کا نعرہ لگانے والی کانگریس ہی عملاً ہندستان کو ہندوراشٹر میں تبدیل کرنے کے اقدامات کے تحت سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی بھرتی کی حوصلہ شکنی کرتی رہی ہے۔اسی ذہنیت کی غمازی اس صدارتی فرمان سے ہوتی ہے جو آئین کی دفعہ 340کے تحت ایس سی ایس ٹی ریزرویشن کے لئے جاری ہوا اور جس میں جان بوجھ کر مسلمانوں کے خلاف تعصب برتا گیا اورہندو ایس سیایس ٹی کو شامل کیا گیا۔ مسلم اور عیسائی برادیوں کو شامل نہیں کیا گیا۔اس کے خلاف معاملہ سپریم کورٹ میںہے مگر مرکزی حکومت ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ سے اس کی کاروائی کو روکے ہوئے اور اپنا حلف نامہ داخل نہیں کررہی ۔ یہ تفریق بھی مذہب کی بنیاد پر ہے اور اس لئے قطعاً غیر آئین ہے۔ اب جو او بی سی کوٹے میں 4.5ریرویشن کا نوٹی فکشن جاری کیا تھا وہ بھی اسمبلی چناﺅ کے پیش نظر ایک سیاسی ہتھ کنڈہ تھا اور اس میں جان بوجھ کر ”مذہبی اقلیت“ کی اصطلاح استعمال کی گئی تاکہ عدالت اس کو کالعدم کردے۔ اگر نیت درست ہوتی تو سب سے پہلے آئین کی دفعہ 340کے تحت صدارتی آرڈر سے مسلمانوں کے خلا ف تعصب کو ختم کیا جاتا۔ اور ذیلی کوٹے کے خلاف جب معاملہ اندھرا ہائی کورٹ میںگیا تھا تو اس کی سنجیدگی سے پیروی کی جاتی ۔مسلمانوں کو سیاسی مغالطہ میں رکھنا اور ان کے ساتھ تعصب برتنے کا یہ سلسلہ پرانا ہے۔آزادی کے فوراً بعد جب سردار پٹیل وزیر داخلہ تھے، تب باضابطہ ایک سرکلر جاری ہوا تھا کہ کلیدی عہدوں پر مسلمانوں کی تقرری نہ کی جائے۔ اس کو آج تک واپس نہیںلیا گیا ہے۔ پچھلے ساٹھ سالوں میںمسلم مخالف یہ ذہنیت اوپر سے نیچے تک پوری انتظامیہ میں زیر سطح جاری ہے۔ یہی ذہنیت پولیس میں بھی کارفرما ہے۔ چنانچہ نہ تو مسلمانوں کو بھرتی کیا جاتا ہے اور نہ ان کے ساتھ منصفانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے بلکہ ان کو جیلوں میں ڈالنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

نیا فرمان
اب جو ہر مسلم اکثریتی علاقوں کے تھانوںمیں کم از کم ایک مسلمان افسر کی تقرری کا فرمان جاری ہوا ہے، اس کا کیا حشر ہوگا، یہ دیکھنا ہوگا۔ دہلی پولیس کے ایک سینئر افسر مسٹر ڈی سی سریواستو کا خیال ہے کہ اس سے پولیس اور عوام کے درمیان رابطہ بہتر ہوگا ۔یہ رائے درست ہوسکتی ہے اگر مسلم افسر موجی خان یا شجاع خاورمرحوم کے نقش قدم پر چلیں۔دہلی کے ہی اسپیشل کمشنر پولیس (انتظامیہ ) مسٹر ایس سی بسّی کا کہنا ہے پولیس میں بھرتی کےلئے مسلم نوجوانوںکی کافی درخواستیں نہیں آتی ہیں۔ ایڈیشنل سی پی (ساﺅتھ ویسٹ) مسٹر اجے چودھری ، جو مسلمانوں میں اچھی نظر سے دیکھے جاتے ہیں،اپنے طور پر جامعہ علاقے میں کوچنگ کلاسیں چلارہے ہیں تاکہ مسلم نوجوانوں کی پولیس کی طرف دلچسپی پیدا ہو۔ مگر سابق پولیس کمشنر مسٹر اجے راج شرما کا خیا ل ہے: ” مسلم افسران کی تقرری کا مطلب یہ ہوا کہ دیگر مذہب کے افسران میں اعتماد کی کمی ہے۔ ایک زیادہ ذمہ دار اور غیر جانب دار افسر زیادہ بہتر متبادل ہے۔“

بیشک مسٹر شرما کی رائے زیادہ صائب ہے۔ مسئلہ پولیس افسر کے مذہب کا نہیں ہے۔وہ کسی بھی مذہب کا کیوںنہ ہو، اصل بات یہ ہے کہ اس کا عوام کے رویہ کیسا ہے؟ وہ کتنا سچا ہے اور کتنا مغالطہ میں رکھنے پر یقین رکھتا ہے؟ صحیح بات یہ ہے کہ ہندو ہو چاہے مسلمان ، عموماً لوگ پولیس افسران پر بھروسہ نہیں کرپاتے اور اس سے بچنے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔ا س صورتحال کو پولیس خود اپنا رویہ بدل ہی سدھار سکتی ہے۔ اس میں مذہب کا دخل نہیں ۔ ہم نے کئی ہندو افسر ایسے دیکھے ہیں جن کا رویہ زیادہ بہتر ہوتا ہے۔جبکہ مسلمان افسر مسلمان کی جائز معاملہ میںبھی مدد کرتے ہوئے ڈرتا ہے کہ کہیں اس پر جانبداری کا الزام نہ لگ ہوجائے۔اس لئے سچی بات یہ ہے اکثر معاملات میں ہم مذہب افسر سے ہی زیادہ گہرے زخم پہنچتے ہیں۔ اصل بات یہی ہے کہ افسران میں غیر جانبداری اور اپنے منصب کے تئیں ذمہ داری کی جو کمی ہے اس کو دور کیا جائے۔ ایک مصیبت یہ ہے کہ کام اور انصاف سے زیادہ توجہ ’کلکشن‘ پر رہتی ہے۔ اس کا زور کم کیا جائے۔ تعلیم اورتربیت کے دوران ہونہار نوجوانوں کے ذہنوں کو مسموم کرنے کی ملک کے اندر جو مہم سنگھ پریورار چلاتا ہے اس سے حکومتیں بے خبر نہیں۔اس کی حوصلہ افزائی سیاسی قیادت بھی کرتی ہے۔مثال کے طور پر ہاشم پورہ اور ملیانہ میں جو کچھ پولیس اور پی اے سی نے کیا اس کو سیاسی پشت پناہی حاصل نہ ہوتی اور خطا صرف پولیس کی ہوتی تو اب تک ان کو سزا مل چکی ہوتی۔ اسی طرح کی پشت پناہی شورش زدہ علاقوں میں بھی مسلح دستوں کو حاصل ہے اور ان پر لوگوں کو ہلاک کردینا جائز کردیا گیا ہے۔ سنگھ پریوار کے حوصلہ افزائی کا سلسلہ تو 1963میں ہی شروع ہوگیا تھا جب ’سوئم سیوکوں ‘ کے دستہ کو یوم جمہوریہ تقریب میںشریک کیا گیا تھا۔ کیا موجودہ حکومت اس متعصبانہ روش کو بدلنے اور ملک کو حقیقی سیکولر نظام کے تحت ڈھالنے کے لئے کچھ کر رہی ہے؟ صرف سیاست کرنا ہی تو کافی نہیں ہے۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180762 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.