نیازمانہ ،نئی صبح،نئی شام پیدا کر

ایک چر اغ سے سو چر اغ جلتے ہیں۔یہ حقیقت اور مشاہدہ کے عین مطابق ہے۔اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ایک دیا اپنے ارد گرد کی سینکڑوں اشیاءکو روشن کر سکتا ہے بلکہ کرتاہے۔یہ ہی حال ایک معلم اور استاد کا ہے جس کے چشمہ سے قیامت تک لوگ سیر اب ہو تے ہیں ۔علم ایک ایسی روشنی ہے جس کی کرنیں چار دانگ عالم میں ضر ور پھیلتی ہیں ۔صدیوں تک لو گ اس کی بہاروں کے مزے لوٹتے ہیں۔معاشرے کی تعمیر وترقی میں علم کابنیادی کردارہے اور معاشرے میں بگاڑکاسب سے بڑاسبب بھی علم سے انحراف ہے ۔ کیونکہ ظاہری بات ہے جو آدمی صاحب علم ہو گا وہ یقینا ہر اس کا م سے اجتنا ب کر ے گا جس سے لوگوں کو نقصان ہو ۔عموما معاشرے میں بگاڑ اور فساد جاہلوں کے رویہ سے ہی آتا ہے ۔پھر علم میں کوئی تخصیص بھی نہیں ،دنیاوی علم ہو یا دینی ،انجینئر نگ کا علم ہو یا حدیث کا ،ڈاکٹری کا علم ہو یا فقہ کا ،علم صحافت ہو یا علم زراعت سبھی علوم معاشرے میں روشنی پھیلاتے ہیں اور ان تمام علوم سے وابستہ افراد معلم اور متعلم کے لقب سے پکارے جاتے ہیں ۔

دنیا میں رائج ایسے بے شمار علوم ہیں جن کی تحقیق اور تعلیم پر بہت زور دیا جاتا ہے ۔ان علوم کی حفاظت اور ترویج کے لیے بہت سے ایسے ادارے اور افر اد ہیں جن پر لاکھوں روپیے روزانہ خرچ کیے جاتے ہیں ۔اس کے علاوہ بہت سے ایسے علوم ہیں جن میں طبقاتی گروہ بندیاں ہیں ۔ایک طبقہ ایک علم کو حاصل کر نے کے لیے اتنی تگ ودو کرتاہے کہ دیگر علوم اس کے سامنے ہیچ ہوتے ہیں ،جبکہ دوسر ا طبقہ اس علم کو اپنے لیے زہر قاتل سمجھتا ہے ۔اس علمی فرقہ واریت کا نتیجہ یہ نکلا کہ نا بلد لوگ معلمین بن بیٹھے ہیں اور معاشرے میں جہا لت پر وان چڑھ رہی ہے۔لیکن آج بھی ایسے بے شمارادارے اور لوگ موجود ہیں جو میانہ روی کے زیو ر سے آراستہ ہیں ،ہر فن ،ہر میدان کے شہسوراہیں اور علمی طبقاتی گروہ بندیوں سے کوسوں دور ہیں ۔علم ومعرفت کی روشنیا ں انہی لوگوں کے سینوں سے پھوٹتی ہیں ۔یہی لوگ ہیں جو علوم پر لگی گر دوغبار کو صاف کرتے ہیں ۔

ان اداروں میں مدارس اور مدارس کے فیض یافتہ بھی ہیں۔مدارس دینیہ ایک تاریخ رکھتے ہیں ،ان کی افادیت اور ان کی خدمات کی بدولت معاشرے میں علم کی پھیلتی کر نیں آج بھی ایک عام مسلمان کو اس کے عقیدے کے ساتھ وابستہ رکھتی ہیں ۔مدارس علماءاور فضلاءکی ایک کھیپ تیا ر کر رہے ہیں اور ان مدارس میں پڑھنے والے بوریہ نشین جہاںمعاشرے میں پھیلتی انارکی وگمراہی کا سد باب کرتے ہیں اور مسلمانوں کے عقیدے کے محافظ ہیںوہیں وطن عزیز پاکستان کی جغرافیائی ،نظریاتی حدود کے بھی محافظ ہیں ۔ان سب باتوں کے باوجود مدارس کے فضلاءکی خاطرخواہ تعد اد قلم سے اپنا رشتہ ناتہ توڑ چکی ہی ۔وہ قلم جس کی عظمت کا چرچہ اللہ کے کلام میں موجود ہے اہل علم کی سستی ،لاپرواہی کی بدولت آج یہ قلم اسلا م دشمن قوتوں کا آلہ بن چکا ہے ۔آئے روز نت نئے چربے استعال کرکے مسلمانوں کے عقائد کو متزلزل کرنے کی بھونڈی سازش کی جاتی ہے ۔مغربی افکا ر سے آلودہ روشن خیا ل لوگوں کے قلم اسلام ،مسلمانوں اور مدارس کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔ یہی قلم جب مولنا ظفر علی خان،ابوالکلام آزاد کے ہاتھ میں تھے تو زمیندار اور الہلال جیسے پاکیزہ افکار کے حامل اخبار اور جریدے مسلمانوں کی درست سمت فکر ی رہنمائی کر تے اور مسلمانوں میں جذبہ حریت پیداکر نے میں ممد ومعاون ثابت ہوتے تھے۔لیکن۔۔۔! وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات بھی بدلتے گئے ۔قلم کو ذریعہ معاش بنا لیا گیا۔حرمت قلم کو پامال کیاجانے لگاآزادی اظہار رائے کے نام پر عوام کوگمراہ کرنے کی روایت پڑگئی۔ان حالات میں ایک مسیحا کاانتظارتھاجو تمام فرسودہ رسموں کو ختم کر دے اور معاشرے میں انقلاب برپاکردے ۔

چنانچہ انہی مدارس کے فیض یافتہ مولنا عبدالقدوس محمدی صاحب نے حالات کی نزاکت کو سمجھا ،وقت کی نبض پرہاتھ رکھا،اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک اچھی روایت قائم کر ڈالی ۔ مدارس کے جدید فضلاءجو حیرانگی کی وادیوں میں بھٹکتے پھرتے تھے ان کے لیے امید کی شمع جلائی۔مدارس میڈیا ورکشاپ کے نام سے ننھا سا پودہ لگایا ،اب یہ ننھا پودہ بڑہتے بڑہتے تنادار درخت بن گیا ہے۔ اس سائبان کے نیچے 20دن کی مختصر مدت میںبیٹھے ،سسکتے،خوشہ چینی کرتے تشنگان تشنگی دور کرکے ملک وملت کی رہبری اور رہنمائی میں مصروف ہیں۔ میڈیا ورکشاپ کے پھل جناب عظمت علی رحمانی،فرحان فانی ،عبداللہ شارق،توصیف احمد قومی اخبارات کے ادارتی صفحوں پرگاہے بگاہے متنوع موضوع لیے جلوہ افروز ہوتے ہیں۔اسی ورکشاپ کے پروردہ عظمت علی رحمانی نے آئی ٹی کی دنیا میں تہلکہ مچانے والی کم عمر ارفع کریم کی زندگی پردختر پاکستان کے عنوان سے جامع ،مفصل کتاب تصنیف کی،جس میں دختر پاکستان کو کم عمری میں ملنے والی شاندار کامیابیوں کو احسن انداز میں زیب قرطاس کیا گیا۔اس کے علاوہ بہت سے ایسے نام ہیں جن کا تذکر ہ یہا ں مشکل ہے۔

بہر حال! مولنا عبدالقدوس محمدی صاحب کی یہ کاوشیں بہت سے لوگوں کی راہنمائی کے لیے نمونہ ہیں۔جو لوگ پر امن اورخوشحال معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر نا چاہیں ان کے لیے حضرت کے نقش قد م پر چلنا بے حد موثر ہے۔کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں جو قومیں ترقی یافتہ ہوئیں یا ہیں ان کی ترقی کا راز جدید علوم سے آراستگی میں مضمر ہے۔اگر آج بھی ہم دنیا کی نظروں میں اپنا مقام پید ا کر نا چاہتے ہیں اور ترقی یافتہ اقوام کی صفو ں میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ضرور ہمیں ان علو م کو سیکھنا ہوگا۔ذرائع ابلاغ کے خاردار میدان میں کودنا ہوگا اور اس میدان میں اپنا سکہ منوانا ہوگا ، تب جا کر ہم اقوام عالم میں اپنا کھویا ہو ا مقام بحال کر سکتے ہیں ۔ شاعر مشرق نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا:
دیار ِمشرق میں اک مقام پیدا کر نیا زمانہ ،نئی صبح ،نئی شام پیدا کر
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 45 Articles with 38294 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.