میں اکثر ان کے دفتر جاتاہوں۔خود
نہ جاﺅں تو لے جایا جاتا ہوں۔یا پھر بلوایا جاتا ہوں۔مگر حیرت اس بات کی ہے
ان کے ہاں جو بھی جب بھی ملے سب کے سب ایک ہی بات کرتے ہیں۔سب کے سب کا ایک
ہی لہجہ۔ایک ہی اندازِ بیاں۔ہر مر تبہ ایک ہی جیسا سماں۔ہاں مگر ایماں میں
تبدیلی آتی رہتی ہے۔اس کی مقدار مختلف اوقات میں مختلف ملتی ہے۔شائد نظام
غلط ہے،شائد وہ غلط ہیں ےا شائد پھر میرے ہی سمجھنے میں کہیں غلطی ہو
گئی۔دلائل تو ہر ایک مو قف کے ساتھ ہیں۔نظام غلط ہوتا تو نتیجہ وہ نہ ہوتا
جو آج ہے۔کیا ہو تا ؟ کیوں ہو تا اور کیسے ہوتا؟ اس کاتعین تو آج تک اس ملک
کے بڑے بڑے دانشور نہ کر سکے۔جہاں تک میرے مشاہدے کی بات ہے، میں نے اپنے
جیسے کئی لوگوں اور کود سے بہتر کئی لوگوں سے اس کے متعلق پوچھا سب کا ایک
ہی تجزیہ تھا۔کئی بار تو ان کے اپنے لوگ بھی اہی کہہ جاتے ہیں جو میں ےا
میرے جیسے کہتے ہیں۔پھر ایک ہی بات کہ کیا وہ غلط ہیں؟اگر وہ بھی نہیں ،میں
بھی نہیں اور نظا م بھی نہیں تو پھر ان کے کام کا نتیجہ ہر بار نکتہ چینی
اور نا انصافی کے کاغذات میں کیوں گنا جاتا ہے۔کبھی بھی کوئی بھی پولیس پر
اعتماد نہیں کرتا۔خاص کر مظلوم اور سادہ لوح لوگوں کو اس جُرم کا مر تکب آج
تک نہ پاےا ۔نہ ہی اس کیس میں کبھی غریب نظر آیا۔ےہ سب باتیں میں بھی ےقینِ
محکم سے نہ کہا کرتا تھا مگر جیسا کہ ذکر کیا کہ اکثر ملاقات ہوتی ہے تو ان
کی رفاقتِ بے ثمر نے میرے اس عقیدے مین پختگی لائی۔ایک کیس درج کروانے کے
لیے جس کے تمام تر شواہد اور گواہ موجود تھے نہ جانے کتنے چکر کاٹنے
پڑے۔باوجود اس کے نہ تو کیس درج ہوا نہ ہی کوئی تسلی بخش جواب۔اور ان کا
لہجہ ایسا کہ گویا شہر میں ہونے والے تمام تر کیس میں ہم ہی مجرم
ہیں۔افسرانِ بالا کی غیر موجودگی میں ان کے نہ ہونے کا بہانہ اور جب وہ
آجائیں تو کئی اور باتیں نتیجہ پھر بھی وہیں۔با اثر لوگوں کے زیر اثر تھانہ
میں جو کُچھ ہو رہا ہے اس سے نہ صرف افسران بالا بلکہ کئی اور ذمہ دار لوگ
بھی باخوبی واقف ہیں مگرایمان کی کمزوری ےا پھر سرکاری نوکری اجانے کا ڈر
ےا کوئی اور ذاتی دلچسپی کی وجہ سے آج تک اس سامراجی نظام کے خلاف ہ آواز
اُٹھی ہے نہ ہی کسی کو آواز اُتھانے کی اجازت دی گئی ہے۔اور ساٹھ سال سے
ذیادہ عمر کا وہ شخص آج بھی ڈی ایچ کیو ہسپتال میں زیر علاج ہے۔جسے اسلحہ
سے لیس افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا۔میڈیکل رپورٹ کی اجازت دینے سے بااثر
افراد نے پولیس کو باز رکھا۔بعد ازاں عدلیہ کے سہارے لیکر جب رپورٹ بن بھی
گئی تو آئے دن ٹال مٹول کا شکار کیا جا رہا ہے۔ تین دن گزر گئے مگر با اثر
افراد کے دباﺅ کی بیاد پر ٓج تک مقدمہ درج نہ ہو پایا۔اور انصاف کے طلبگار
آج بھی میانوالی کے افسرانِ بالا اورذمہ دار افراد سے محض انصاف کی بھیک
مانگتے نظر آتے ہیں۔مگر ان کا قبلہ درست نہیں۔کیونکہ پاکستان میں اس طرح سے
انصاف کا حصول نا ممکن ہے۔سب جمیر مر چکے ہیں۔سب کے سب تماشہ دیکھیں گے ۔انصاف
کی دھجیاں اڑیں گی۔پھر جب انصاف نہ ملنے پر مظلوم کوئی راست قدم کی طرف
بڑھیں گے تو وہی بااثر افراد ان کو سزا دلوائیں گے۔در حقیقت میں اس وقت سزا
کے حقدار انصاف اور انصاف کے رکھوالے ہوں گے۔جن کے نزدیک انصاف اور قانون
ایک بکنے والی طوائف کی مانند ہے جسے خریدا جا سکتا ہے حاصل نہیں کیا جا
سکتا۔اللہ کی پاک ذات ہم سب کو ایمان اور انصاف کے راستے پر چلنے کی توفیق
دے اس سے پہلے کہ مخلوق خدا کے اعمال بربادی اور قیامت کا پیش خیمہ بنیں۔ |