عظمتوں کے مسافر

تفریق و جمع کا قاعدہ محض ریاضی کے اصولوں پر مرتب نہیں ہوتا ،انفرادی و معاشرتی ضابطوں میں بھی اس کلیے کو اتنی ہی اہمیت حاصل ہے کہ جتنی ریا ضی کی موشگافیوں کو سلجھانے میں ایک طالب علم کے لیے ہے،قوموں میں تفریق و جمع کاقاعد ہ تو اپنے مسلمہ اثرا ت رکھتا ہے ،طبقات کے مابین تفریق قوم کے زوال کا سبب بنتی ہے اور یہ زوا ل استعماری قوتوں کو اجارہ داری کا موقع فراہم کرتا ہے ،انگریز ایک حسابی قوم ہے ،اعداد وشمار سے جڑ ے ہر کام کو اہمیت دیتی ہے ،ہندوستان میں قبضہ جمانے کے بعد اس حسابی قوم نے یہ کلیہ خوب آزمایا اور مختلف طبقات میں تفریق پیدا کر کے ہندوستان نامی سونے کی چڑیا کو بے بال و پر کر دیا ۔وہ تفریق کا کلیہ آزما کر اپنے لیے مال جمع کرتے رہے اور کل کے گدڑیے آج کے شاہ ہوگئے ۔تفریق و جمع کے فارمولے نے اپنا کام دکھایا اورآج تک یہ حسابی قوم ریاضی کے انہی اصولوں کو مسلمانوں پر آزما رہی ہے۔

اگرچہ انگریزوں نے مختلف طبقات کے اندر تفریق کی دیواریں کھڑی کیں تاہم مُلّا و مسٹر کی تفریق نے مسلم قوم کو سخت تفرقے میں ڈالا ۔مدرسے والے اور کا لج والے، باریش اور کلین شیو ،ٹائی والے اور رومال والے ،کیپ والے اور ٹوپی والے کے فرق نے انگریزوں کی شیونگ کریم ،ریزر بلیڈ،کیپ اور ٹوپی کی فروخت میں تو خوب اضافہ کیا مگر مسلما ن بے چارے اپنے جنگلی مرغوں کی طرح لڑتے رہے ۔

عمومااس قسم کے مباحث میں کسی ایک طبقے پر تنقید کرکے ایک نظرئیے کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار کیا جاتا ہے ۔تاہم راقم کے خیال میں مسٹر و مُلّا دونوں نادان بچے ہیں ۔اس خلیج کو مزید گہرا کرنے میں دونوں طبقوں کا ایک سا قصور ہے ۔دونوں طبقے اپنے اپنے گناہوں کے مجرم ہیں اور اس خلیج کو باٹنے میں مُلّا و مسڑ دونوں کو اپنی بانہیں وا کرنی ہوگی ،مسٹر کو ٹائی سمیت ملّا نے گلے لگانا ہوگا اور کاندھے پر روما ل ڈالے ملا کو ایک مسٹر نے اسی گرم جوشی سے ویل کم کرنا ہوگا جس گرم جوشی سے وہ ٹم ،ڈک اینڈ ہیری کو کرتا ہے ۔

راقم نے اپنے صحافتی کیرئیر میں مُلّا و مسٹر کے دعوے تو بہت سنے ہیں مگر اس تفریق کے خاتمے کے لیے کی گئی کوششوں کا عملی مظاہرہ نہیں دیکھا۔دونوں طبقات کی رہبری کرنے والے اپنی اپنی جگہ اتنے شدت پسند ہوچکے ہیںکہ ایک دوسرے کو حقیر سمجھنے کی کوششوں میں یہ بھلا بیٹھے ہیں کہ وہ ایک ہی کلمے کو ماننے والے ہیں ۔رہبروں کے اس خدائی واسطے کے بیرنے شاید دونوں طبقات کے اندر ایسی فکر رکھنے والے لوگ پیدا کر دئے ہیں جو اس معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی سی کو ششیں کر رہے ہیں ۔یونیورسٹی سے فارغ التحصیل میرے عزیز م ریحان اللہ جب مدرسوں کے اندر جا کر وہا ں کے طلبہ کو کمپیوٹر سکھانے کا کام کرتے نظر آتے ہیں تو مجھے موسم کی تبدیلی کے اشارے نظر آنے لگتے ہیں ۔گذشتہ دنوں آرٹس کونسل آف پاکستان میں مدرسوں کی صفوں پر بیٹھ کر دورہءحدیث مکمل کرنے والے نوجوان طالب علم عظمت علی رحمانی کی کتاب کی تقریب رونمائی بھی اس عزم کی ایک کڑی تھی ۔شاید یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مدرسے کے طالب علم کی کتاب کی تقریب رونمائی آرٹس کونسل کے زیر اہتمام ہوئی ۔اور ملک بھر کے میڈیا نے اس کو خاطر خواہ کوریج دی ۔ملک کے ادیبوں ،چوٹی کے دانشوروں اورعلماءنے عظمت علی رحمانی کی کاوشوں کو سراہا۔ریحان اللہ والا کی طرح عظمت رحمانی مسٹر ملا کی تفریق کو دور کر نے کے لیے جس عزم سے سرگر م ہیں وہ لائق صد تحسین ہے ،مگر اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے اور لوگوں کومیدان میں آنا ہو گا ۔’مدرسہ کوئی اچھوت جگہ نہیں ‘ یونیورسٹیوں کے پروفیسر زیہا ں آکر ریحان اللہ والا کی طرح مد رسے کے بچوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کراتے ہیں ۔آرٹس کونسل سمیت تمام ثقافتی اداروں پر ملّاکااتنا ہی حق ہے جتنا ایک مسٹر کاہے۔ملّا بھی شاعر ہوتاہے،ادیب ہوتاہے مگر اس کاادب ایک محدود دائرے میں قید ہے،اس کافن مدرسے کے اطراف میں قائم کتابوں کی دکانوںسے آگے نہیں بڑھ پاتا‘اور عظمت علی رحمانی نے ملّا کے گرد قائم اس خود ساختہ خول کو توڑنے کی ایک سعی کی ہے۔کیا ہی اچھا ہو !کہ ان جیسے نوجوانو ںکو بطور نمونہ قوم کے سامنے پیش کرکے دونوں طبقات کے درمیان حائل خلیج کو کم کیاجائے۔وفاق المدارس کے ناظم اعلی قاری حنیف جالندھری او ر ہائر ایجوکمیشن کے ڈاکٹر عطاءاللہ اس طرز پر کام کرنے والے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کریں تو خاطر خواہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔خلیج تو پاٹنی ہے‘فرق کو مٹانا ہے۔۔۔قدم تو بڑھانے ہوں گے۔
Azmat Ali Rahmani
About the Author: Azmat Ali Rahmani Read More Articles by Azmat Ali Rahmani: 46 Articles with 55489 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.