ایک چالاک زمیندار نے گاﺅں کے
معصوم اور غریب کسانوں کو اپنے چُنگل میں ایسے پھنسایا ہوا تھا کہ غریب
کسان سخت محنت کرکے زمینوں سے اچھی پیداوار تو حاصل کرتے لیکن اس کے باوجود
بھی ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا تھا اور پورا گاﺅں خوشحالی کی بجائے دن بدن
بدحالی کی طرف جا رہا تھا کیونکہ گاﺅں کے بڑے زمیندار نے تمام کسانوں کی
زمینیں اپنے قبضے میں لے کر اُس کے عوض کسانوں کو بھاری سود پر قرض دے رکھا
تھا اسی لیئے کسانوں کی تمام تر آمدن زمیندار کے قرض اور سود کی رقم
اُتارنے میں صرف ہوجاتی تھی اور بچارے کسان خالی ہاتھ ملتے رہ جاتے تھے۔
ایک دن گاﺅں کے ایک بزرگ کسان کے دما غ میں ےہ خیال آیا کہ آخر ہم کب تک
اپنے خون پسینے کی کمائی زمیندار پر نچھاور کرتے رہیں گے ہم اپنی زمینوں سے
اچھی پیداوار حاصل کر نے کے باوجود بھی بدترین بد حالی کا شکا رہیں دن رات
سخت محنت غریب کسان کرتے ہیں لیکن اُسکا پھل زمیندار کھا رہا ہے کئی سالوں
سے ہم زمیندارکو اپنی تمام تر جمع پونجی دیتے آرہے ہیں لیکن اس کے باوجو د
زمیندار کا قرض ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اگر یہ سلسلہ یہیں روکا نہ گیا
تو ہماری آنے والی نسلیں بھی بڑے زمیندار کی مقروض اور غلام پیدا ہوں گی۔
پھر ایک دن گاﺅں کے اُس بزرگ کسا ن نے تما م گاﺅں والوں کو ایک جگہ پر
اکٹھاکیا اور اس بات پر قائل کیا کہ ہم سب نے ملکر ہمارے گاﺅں کو ایک مثالی
گاﺅں بنانا ہے جہاں تعلیم کے لیئے سکول ہونگے پینے کے لیئے صاف پانی ہوگا
ہسپتال ہونگے بجلی ہوگی اور خوشحالی ہی خوشحالی ہوگی لیکن اس مقصد کو حاصل
کرنے کے لیئے ضروری ہے کہ پہلے ہم سب زمیندار سے اپنی اپنی زمینیں واپس لیں
اور زمیندار کا سارا قرض اُتار کر پھر دوبارہ قرض نہ لینے کا عہد کریں۔
بزرگ کسان کی یہ بات سُنتے ہی گاﺅں کے چند لوگ بڑی ہی حیرانگی سے بولے اگر
ہم زمیندار سے قرض نہیں لیں گے تو اپنے گھر وں کے اخراجات اور پھر نئی فصل
کے لیے بیج ،اسپرے کھاد وغیرہ کے تمام تر اخرا جات کیسے پورے کریں گے ۔
بزرگ کسان نے جواب دیا!میں جانتا ہوں ایسا کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن
نہیں اگر ہم سب ملکر یہ چاہیں تو ایسا ممکن ہوسکتا ہے اس بار فصل کی بیجائی
کے لیے ہمارے پاس جو کچھ ہے ہم وہ لگا دیں گے لیکن زمیندار سے قرض نہیں لیں
گے اور نہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلائیں گے بس یاد رکھو ایک بار کا مرنا بار
بار مرنے سے بہتر ہے۔پس پھر سب گاﺅں والے اس کوشش میں لگ گئے اور اُتنی رقم
اکٹھی کرلی جتنی ضرورت تھی اور یہ اُس گاﺅں کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا
کہ گاﺅں والوں نے اپنی مدد آپ کے تحت فصل کی بیجائی کی پھر آخر کار بزرگ
کسان کی ذہانت ،مخلص بے باک قیادت اور گاﺅں والوں کی محنت رنگ لائی کسانوں
کو فصل سے اتنی آمدن ہوئی کہ انہوں نے زمیندار کا پوراقرض اُتا رکر اپنی
زمینیں بھی چُھڑا لیں اور اگلی فصل کے لیئے بھی کچھ رقم ہاتھ میں رکھی پس
پھر گاﺅں والے کامیابی اور ترقی کی راہ پر ایسے چلے کہ پھر پیچھے مڑکر نہ
دیکھااور چند برسوں میں ہی وہ گاﺅں ایک مثالی گاﺅں بن گیا جس کا گاﺅں والوں
نے خواب دیکھاتھا اور آج اُس گاﺅں کے سبھی کسان ہی بڑے زمیندار ہیں اور گاﺅں
میں خو شحالی ہی خو شحالی ہے کیونکہ ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر
ہو۔طلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرا یا نہیں کرتے۔
میرے عزیز ہم وطنوں! پاکستان کی موجودہ صورتحال بھی اُس گاﺅں کی کہانی سے
کچھ مختلف نہیں ہے جہاں ہم سب عوام گاﺅں کے کسان ہیں اور امریکہ بڑا
زمیندار ہے جس نے سود پر قرض دینے کی لت ڈال کر ہم سے ہماری خوداری چھین لی
ہے اور دشمنان ِ پاکستان کی یہ کوشش ہے کہ ہم ہمیشہ قرضوں کے بوجھ تلے ایسے
ہی دبے رہیں تاکہ کبھی بھی ان کے سامنے سینہ تان کر سر اُٹھا کر او ر ان کی
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہ کر سکیں اسی سازش کے تحت وہ ہمیں قرضوں پے
قرضے دئیے جا رہے ہیں۔پاکستان کی اس وقت 18کروڑ کی آبادی میں تقریباً
12کروڑ لوگ خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اس تعداد
میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ہمارے حکمران اس سنجیدہ صورتحال کے
باوجود ایسے اقدامات اُٹھا رہے ہیںجس سے قرضوں میں ڈوبے ہوئے پاکستان کو
مزید قرضوں کے بوجھ تلے دھکیلا جا رہاہے۔قیام پاکستان سے لیکر اب تک جتنا
قرض پاکستان نے لیا تھا اُس سے زیادہ قرض موجودہ حکومت ان چار سالوں میں لے
چکی ہے۔سرکاری عدا د وشمار کے مطابق پاکستا ن اس وقت 11726.5ارب رو پے کا
مقروض ہے اور جس کا ہم بہت زیادہ انٹرسٹ ریٹ 25%سے 35.2% ادا کررہے ہیں
ہرپاکستانی اور یہاں تک کہ ہر پیدا ہونے والا ہر بچہ تقریباً 65ہزا روپے کا
مقروض ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے قرض لے لے کر پوری قوم کو ایسی سزا دی ہے جس
کا ہرجانہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی بھر نا پڑ ے گا اگر حکمرانوں نے
قرضوں کی اتنی خطیر رقم پاکستان کے عوام کی فلاح بہبود پر بھی خرچ کی ہوتی
تو پھر غم نہ تھا کیونکہ اس پیسے کی جھلک پاکستان کے ان اہم اداروں میں بھی
نظر نہیں آئی جو ہماری آمدن کا اہم ذریعہ ہیںمشال کے طورپر، پی آئی اے ،
واپڈا، ریلوے ، سٹیل مل کیونکہ ےہ تما م وہ ادارے ہیںجو پاکستان کی معیشت
میں ر یڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت رکھتے ہیںلیکن اس قت ان تما م اہم اداروں کا
جو حشر نشر ہو چکا ہے وہ عوام کے سامنے ہے ایسی صورتحال میں پاکستان میں
خوشحالی اور ترقی کی بات کرناہتھیلی پر سرسوں اُگانے کی بات کرنے کے مترادف
ہے۔ پاکستان کو مقروض بنانے والے پہلے حکمران یااب موجودہ حکمران آج بھی
بڑے آرام اور سکون کی زندگی کزار ہے ہیں لیکن ان تما م پاکستان لوٹنے والے
حکمرانوں کی عیاشیوں اور شاہ خرچیوں کی سزا آج پور ی قوم کو گیس ، بجلی ،
آٹے ،چینی اور پانی کی قلت کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ پاکستان کی موجودہ
صورتحال میںاُمید کی کوئی کرن تو نظر نہیں آتی ہاں البتہ ایک بے لوث ،باکردار
بے باک اورایماندار قیادت اس سار ی صورتحال سے پاکستان کو باہر نکال سکتی
ہے جو گاﺅں کے بزرگ کسان کی طرح پوری قوم کو متحد کرے اور اُن میں یہ شعور
پیدا کرے کہ قرضوں پر زندہ رہنے والی قو میں عظیم قومیں نہیں بنا کرتیں
بلکہ زندہ اور عظیم قومیں تو وہ ہوتی ہیں جو ہمت ،جرات ،بہادری اور دلیری
سے ہر قسم کے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں بھوک اور غربت سے مر تو جائیں
لیکن چند سکوں کے لیئے اپنے ضمیر کا سودا نہ کریں آج ضرورت ہے ہم سب کو صرف
اس فلسفے کو سمجھنے کی!
ہمت ہے تو کر پیدا عرشِ بریں میں مقام اپنا
مانگی ہوئی جنت سے دوزخ کا عذاب اچھا |