ماہ ِ شعبان کی۲۲ تاریخ 492ہجری
کوجب عیسائی بیت المقدس میں داخل ہوئے تو اُنہوں نے حیوانیت کی حد کرتے
ہوئے شہر میں ایک مسلمان کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ حتیٰ کہ عورتوں ، ضیعف
مردوں اور دودھ پیتے بچوں تک کو ذبح کردیا۔ بیت المقدس پر قبضے کے دوران
عیسائیوں نے ظلم اور سفاکی کی وہ نظیرقائم کی کہ تفصیلات سُن کررونگٹے کھڑے
ہوجاتے ہیں۔
درد مندی کے، رحم کے جذبات کشت خوں میں مخل نہیں ہوتے۔مارتے ہیں جوبے
قصوروں کواُن کے سینوں میں دل نہیں ہوتے (انور شعور)
یہ مسلمانوں کی نسل کشی کا وہ دور تھا ، جب دوسوسال تک مسلمانوں کا قتل ِ
عام کیا جاتا رہا۔ ہرطرف سے مسلمانوں پر حملے ، لوٹ مارجاری تھی، قتل وغارت
کا وہ بازار گرم تھا کہ جس کی مثال تاریخ ِ انسانیت میں نہیں ملتی۔ یہی حال
آج اُمت مسلمہ کا ہے۔ سارے کا سارا کفر اکٹھا ، ایک دوسرے کا حمائیتی اور
یکجاہو چُکا ہے۔ مشرق سے مغرب تک مسلمانوں کا قتل ِ عام ہورہا ہے۔ لیکن
بکھری ہوئی اُمت کے حکمران، راہنما، میڈیا کفر کے ہاتھوں اس قدربے بس اور
مجبور ہوچکے ہیں کہ ہرطرف خاموشی اور بے حسی سمجھ سے بالاتر ہے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ِ ہے کہ جوشخص کسی ناجائز امرکوہوتے ہوئے دیکھے اگر اس
پر قدرت ہوکہ اس کو ہاتھ سے بند کردے تو اس کو بند کردے۔ اگراتنی قدرت نہیں
زبان سے اس پر انکار کردے، اگر اتنی بھی قدرت نہ ہوتو دل سے اس کو بُرا
سمجھے اور یہ ایمان کا بہت ہی کم درجہ ہے۔
برما کے مسلمانوں پر جوقیامت برپا ہے اس دُکھ ، مصیبت کی گھڑی میں ترقی
پسند اور نام نہاد امن پسند غیر مسلم طاقتوں کی اپنے ایجنڈے کی تکمیل پر
خاموشی تو سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن پوری دُنیا میں اسلامی ریاستوں کے
سربراہوں سے لیکر مذہبی اور سیاسی راہنما تک اس انسانیت سوزواقع پرخاموش
اورشرم ناک رویہ اختیارکئے ہوئے ہیں۔ برما میں ہزاروں عورتوں،بوڑھوں، بچوں
کے قتل ِ عام سے دیہات کے دیہات لاشوں اور خون سے بھرے ہیں، ندی
نالوں،سڑکوں، جنگلوں میں برما کے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا
ہے۔اس درندگی میں مسلمانوں کے شہر، بستیاں اور دیہات جلا کر خاکستر اورصفحہ
ہستی سے مٹا دئیے گئے ہیں۔اس ظلم اور بربریت کے خلاف مناسب طریقے سے احتجاج
تودور کی بات ہے،مناسب الفاظ میں ان مظالم کی مذمت تک نہیں کی جارہی۔خاص
کربے مقصد چیخنے چلانے اور بریکنگ نیوزکے لئے ہر وقت مضطرب ،بے چین آزاد
میڈیا نے برماکے مسلمانوں کے ساتھ دل دہلا دینے والے مظام پر دانستہ ،مصلحتاً
خاموشی اور بے حسی کی انتہا کردی ہے۔
آج تمام اقوام غیر آپس کے اختلافات بھلاکر اسلام کے خلاف متحد ہوگئی ہیں۔
یہود ونصاریٰ اورتمام غیرمسلم بھوکے بھیڑیوں کی طرح ہم مسلمانوں پر جھپٹ
رہے ہیں۔غیر مسلم طاقتیںایک طرف تمام مسلم ممالک کے وسائل کو بے دردی سے
لوٹ رہی ہیںتو دوسری جانب انہیں وسائل کواُمت مسلمہ کے چھوٹے اور معصوم
بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور عورتوں کا قتل ِ عام کرنے سمیت اُمت مسلمہ کے
درمیان مزید اختلافات اور پھوٹ ڈالنے کی حکمت عملی پر کامیابی سے عمل پیرا
ہیں۔ ہم ہیں کہ خود فریبی میںمبتلا ہوکر دُنیا وآخرت سے بے فکر ، جھوٹ ،
مکروفریب اوردھوکہ دہی میں لگے ہیں۔ آج دُنیا کی محبت اور چاہ نے ہمیں ایسے
مواقع پراپنے اسلاف کا کردار، شاندار ماضی اور آخرت سب کچھ بھلادیا ہے۔
بقول حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ
ہر کوئی مست ہے ذوقِ تن ِ آسانی ہے ۔ تم مسلمان ہو ؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے
؟
حیدری ؓ فقر ہے نے دولت ِ عثمانی ؓ ہے ۔ تم کو اسلاف سے کیا نسبت ِ روحانی
ہے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر ۔ اور تم خوار ہوئے تار ک ِ قرآن ہو کر
احکامات الہی سے غفلت، لالچ اور حب ِ دنیا کی اسی روش نے ہمیں کمزور اور بے
بس کردیا ہے کہ غیرمسلم اسلام کی مخالفت میں سخت اور دلیر ہوتے جارہے ہیں۔
ہم بجائے ایک امت کے ذاتی اغراض کا شکار ہو کر مختلف فرقوںمیں بٹ گئے اور
پورے عالم میں صرف مسلم ممالک ہی انتشار، بدامنی، خانہ جنگی اور غیر مسلموں
کے عتاب کا شکار ہیں۔آج اُمت مسلمہ نے اپنے رب کی بجائے نیٹو،امریکہ اور
ڈالرپر بھروسہ کرلیا، اپنے رب کو بھلادیا اور رب نے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ
دیا ہے۔
ترجمہ-:اگر اللہ تمھاری مدد کرے گا تو تم پر کوئی غالب نہ ہوسکے گا اور اگر
اس نے مدد چھوڑ دی تو پھر ایسا کون ہے جو اس کے بعد تمھاری مددکر سکے اور
مومنین کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ (سورة آل ِ عمران 160)
دنیائے اسلام کے تمام مسلمانوں کو جسم واحد سے تشبیہ دی گئی ہے۔ کہ جیسے
جسم کے کسی حصہ میں تکلیف ہو تو سارا جسم بے چین ہوجاتا ہے۔ اسی طرح اگر
دُنیاکے کسی حصہ میں کسی کومسلمان کوکو ئی تکلیف پہنچے تو ہر مسلمان کو
اپنے بھائی کے لئے بے چین ہوجانے کی تعلیم دی گئی ہے۔ لیکن ہر کوئی اپنی
کردار کا بخوبی اندازہ لگا سکتاہے۔ ہم تو وہ بدنصیب قوم ہیں جن کے حکمران ،
غیروں کے ایجنڈا پر عمل پیرا ہیں۔ جو اپنے ہی ہمسائے اور بھائی کے مارے
جانے میں ہرممکن مدد اور تعاون کر رہے ہیں۔
آج پوری اُمت مسلمہ میں ایک بھی صلاح الدین ایوبی جیسانہیں ، جو اللہ سے
ڈرنے والا ، قانون ،انصاف کا پابند اورصاحب کردارہو جو مسلمانوں کا کھویا
ہوا وقار دوبارہ واپس دلا سکے اورجوپوری دُنیامیں پھیلے مسلمانوں کی
نمائیندگی کرتے ہوئے ،برما سمیت دنیا بھرمیں ہزاروں بے گناہ اور معصوم
مسلمانوں کے قتل ِ عام کے خلاف آواز اُٹھا سکے۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے۔کہ جو شخص ایسے وقت میںمسلمان کی مدد نہ کرے کہ اُس
کی آبروریزی ہو رہی ہوتو اللہ جل شانہ،اس کی مدد سے ایسے وقت میں اعراض
فرماتے ہیں جبکہ وہ مدد کا محتاج ہو۔
اے رب العزت ہمارے گناہوں کو معاف فرما، ہمارے حال پر رحم فرما اور ہمارے
ملک پاکستان سمیت پُورے عالمِ اسلام میں امن و سکون عطاءفرما (آمین ثم آمین
یارب العالمین)۔ |