الخدمت‘ جنت کا حصول اور رفاقت ِرسول

کسی معاشرے کی زندگی‘ اس کے خیر اور حسن وجمال کا تعین اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ معاشرہ اپنے کمزور لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان کے معاشرے میں بڑی زندگی ہے۔ بڑا خیر ہے۔ بڑا حسن وجمال ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ الخدمت‘ ایدھی فائونڈیشن عالمگیر ویلفیئر ٹرسٹ‘ شوکت خانم میموریل اسپتال اور ان جیسے درجنوں ادارے زکوٰۃ‘ خیرات‘ صدقات سے نہ صرف یہ کہ چل رہے ہیں بلکہ ہر سال ان اداروں کی خدمات کے دائرے میں وسعت پیدا ہورہی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کا جذبۂ خدمت بڑھ رہا ہے کم نہیں ہورہا۔ پاکستان میں مذہبی تعلیم کو دیکھا جائے تو اس کا کم وبیش 90 فیصد حصہ عوام کے تعاون سے اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ پاکستان گزشتہ 30 برسوں میں جہاد کے تین بڑے تجربات سے گزرا ہے۔ اور ان تجربات کے لیے صرف جانوں کی نہیں مال کی بھی ضرورت پڑی ہے اور پاکستانی معاشرے نے اس سلسلے میں ہمیشہ فراخ دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان میں زلزلہ آیا تھا تو صرف جماعت اسلامی نے اس میں پانچ ارب روپے کا حصہ ڈالا تھا۔ یہ رقم لوگوں نے جماعت اسلامی پر اعتماد کرتے ہوئے جماعت کو دی تھی۔ گزشتہ دوبرسوں میں ملک میں مسلسل سیلاب آیا ہے اور اس سلسلے میں بھی جماعت اسلامی نے کروڑوں روپے سے لوگوں کی مدد کی ہے۔ یہ رقم بھی لوگوں کے جذبۂ خدمت کی علامت ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ یہ تمام کام امریکا اور یورپ کی معاشی سطح پر کھڑے ہو کر نہیں کررہا۔ پاکستان کی کم وبیش 80 فیصد آبادی ایک اور دو ڈالر یومیہ کے درمیان کھڑی ہے۔ متوسط طبقہ گزشتہ تیس برسوں میں پھیلنے کے بجائے سکڑا ہے۔ ملک کے مالدار طبقے کے اراکین ترک وطن کے مرض میں مبتلا ہیں۔ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ روزگار کے مواقع ضرورت کے مطابق پیدا نہیں ہو رہے۔ لیکن پاکستانی قوم کمزور لوگوں اور کمزور طبقات کی مدد سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستانی قوم کا جذبہ خدمت صرف مالی ایثار تک محدود نہیں۔ پاکستان میں زلزلہ آیا تو حکومت اور اس کے ادارے گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہوگئے۔ ہم زلزلہ کے 17 ویں روز آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہاں نہ مقامی حکومت کا کوئی وجود ہے نہ وہاں صوبائی حکومت کو تلاش کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت کا کوئی نشان وہاں دستیاب ہے۔ یہاں تک کہ ملک کے سب سے منظم ادارے فوج کا بھی یہ حال تھا کہ مظفرآباد میں کمبائنڈ ملٹری اسپتال کا ملبہ زلزلہ کے 17 ویں روز اٹھایا جارہا تھا۔ لیکن ان 17 دنوں میں صرف مظفرآباد کے ایک خیمے میں کام کرنے والا جماعت اسلامی کا شفاخانہ اس عرصے میں 20 ہزار سے زیادہ لوگوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کرچکا تھا۔ جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکن اور ہزاروں عام شہری ملبہ ہٹانے اور زخمیوں کو اسپتالوں تک لانے اور بے گھر ہونے والوں کو رہائش اور کھانے پینے کی سہولتیں فراہم کررہے تھے۔ یہ ایسا منظر تھا جسے بھارت اور ایران کیا امریکا تک میں نہیں دیکھا جاسکتا تھا۔ امریکا کی ریاست پنسلوانیہ میں طوفان بادو باراں آیا اور اس کا ایک شہر نیواورلیون نہروں کے پشتے ٹوٹنے کی وجہ سے ڈوب گیا اور متاثرہ شہر میں تین چار دن بعد تک نہ کوئی حکومت موجود تھی اور نہ ہی وہاں کسی ’’این جی او‘‘ کا دیدار کیا جاسکتا تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستانی معاشرے کی روحانی اور اخلاقی طاقت غیرمعمولی ہے اور اس میں خیر کے جذبے کے ’’وسیع ذخائر‘‘ موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ ذخائر دریافت ہوچکے ہیں اور بہت سوں کو ابھی دریافت ہونا ہے۔ اس کام کی ابتدا الخدمت نے یتیموں کی فلاح وبہبود کا انقلابی منصوبہ شروع کرکے کردی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 17 سال سے کم عمر رکھنے والے یتیموں کی تعداد 42 لاکھ ہے۔ یتیموں کی اتنی بڑی تعداد فطری حالات اور کچھ زلزلے اور پے درپے آنے والے سیلابوں کا نتیجہ ہے۔ ملک کی مجموعی اقتصادی حالات میں ان بچوں کی حالت خراب ہے جن کے سر پہ ماں باپ کا سایہ ہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس صورت حال میں 42 لاکھ یتیموں پر کیا گزر رہی ہوگی۔ ہمارے دین میں یتیموں کی سرپرستی اور کفالت کو بڑی فضیلت حاصل ہے۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا ہے۔ ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور (آپ نے شہادت اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ فرمایا)۔ چنانچہ الخدمت نے ابتدائی مرحلے میں ملک کے مختلف علاقوں میں دس ہزار یتیموں کی کفالت اور سرپرستی کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ الخدمت کے منصوبے کے تحت دس ہزار یتیموںکو تعلیم وتربیت‘ غذا اور صحت کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ ایک تخمینے کے مطابق ایک بچے پر ماہانہ ڈھائی ہزار اور سالانہ 30 ہزار صرف ہوں گے۔ اس طرح الخدمت کو اس منصوبے کے لیے سالانہ 30 کروڑ روپے درکارہوں گے۔ جو لوگ ایک یا زائد یتیموں کی کفالت کریں گے۔ انہیں اس بات کی آزادی حاصل ہوگی کہ وہ ملک کے جس علاقے میں چاہیں یتیموں کی کفالت کرسکتے ہیں۔ الخدمت انہیں متعلقہ بچے کے تمام کوائف سے آگاہ کرے گی اور منصوبے کے آغازکے بعد کفالت کرنے والوں کو بچوں کی تعلیمی کارکردگی سے آگاہ رکھنے کا مکمل بندوبست کیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں الخدمت نے اپنی ویب سائٹ تیار کرلی ہے۔ مطلب یہ کہ جو لوگ یتیموں کی کفالت کریں گے وہ اپنے سرمائے کے استعمال اور اس کے نتائج سے مکمل طور پر واقف ہوں گے۔ اسی طرح الخدمت نے یتیموں کی کفالت کے منصوبے کو مکمل طور پر شفاف بنادیا ہے۔ الخدمت کے ذمہ داروں کی خواہش یہ ہے کہ مخیر خواتین وحضرات کم ازکم ایک بچے کے ایک سال کے اخراجات برداشت کریں۔ لیکن یہ ایسا منصوبہ ہے کہ اگرکوئی شخص صرف ایک ماہ کے اخراجات بھی دے سکتا ہو تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ الخدمت یتیموں کی پرورش اور سرپرستی کا جو انقلابی منصوبہ لے کر اٹھی ہے وہ اصولی اعتبار سے حکومت کے کرنے کا کام ہے لیکن پاکستان کے حکمران طبقے نے گزشتہ تیس چالیس سال میں معاشرے کے کمزور طبقات کو سینے سے لگانے کے بجائے انہیں زیادہ سے زیادہ ترک کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے مگر حکمرانوں نے تعلیم کی ذمہ داری کو ادا کرنے سے گریز کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سطح پر تعلیم کا آدھا بوجھ نجے شعبے نے اٹھا کر تعلیم کو تجارت بنادیا ہے۔ یہی حال صحت کے شعبے کا ہے۔ نتیجہ یہ کہ معاشرے کی اکثریت کے لیے بنیادی علاج بھی تعیش بن گیا ہے اور بے شمار لوگوں کے لیے مرنا بھی آسان نہیں رہا۔ اسی اعتبار سے دیکھا جائے تو الخدمت ایک چھوٹا سا ادارہ ہونے کے باوجود حکومت اور ریاست بن کر کھڑا ہوگیا ہے اور اس کی بنیاد اللہ پر بھروسہ اور یہ یقین ہے کہ مومن اچھی نیت اور اخلاص کے ساتھ کام شروع کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کام میں برکت پیدا کردیتا ہے اور مشکل کو آسان کردیتا ہے الخدمت کے ذمہ داروں کو پاکستانی معاشرے کے جذبہ خدمت سے بھی بڑی امیدیں ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو الخدمت کے اس منصوبے سے صرف سماجی اور تعلیمی انقلاب برپا نہیں ہوگا بلکہ اس سے معاشرے میں ایک روحانی اور اخلاقی انقلاب بھی برپا ہوگا۔ اس لیے کہ اگر ہمارا معاشرہ یتیموں کی کفالت کو ’’ایک نظام‘‘ بنانے میں کامیاب ہوگیا تو یہ اس معاشرے کی طرف مراجعت ہوگی جو رسول اکرمؐ نے برپا کیا تھا اور جس کا مشاہدہ خلافت راشدہ کے دور میں ساری دنیا نے کیا تھا۔ ہم میں سے کون ہے جو آگے بڑھے اور جنت کے حصول کے ساتھ ساتھ جنت میں رفاقت رسولؐ کا حقدار بن کر ابھرے؟ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم لوگ اس سلسلے میں کیا کرسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب آسان ہے۔ جن کے پاس سرمایہ ہے انہیں اپنے سرمائے سے الخدمت کی مددکرنی چاہیے۔ جن کے پاس قلم اور زبان کی قوت ہے انہیں اپنی یہ قوت الخدمت کے لیے بروئے کار لانی چاہیے اور جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہے وہ کم ازکم پانچ دس ایسے لوگوں تک الخدمت کے منصوبے کی اطلاع پہنچا سکتے ہیں جو اہل ثروت تو ہیں مگر الخدمت کے منصوبے سے آگاہ نہیں ہیں۔
arsalahmed
About the Author: arsalahmed Read More Articles by arsalahmed: 5 Articles with 4047 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.