زرخیز زمینیں ،خوبصورت آبشاریں ،لہلہاتے
کھلیان ،برف پوش پہاڑ ،قدرتی وسائل اور فطرتی صلاحیتیوں سے بھر پور نوجوان
پاکستان کے وجودکا حصہ ہیں ۔جغرافیائی اور سرحدی اعتبا ر سے اہم محل وقوع
کے حامل ملک میں کسی چیز کی کمی نہیں۔توحید کی قوت بھی ہے اور ایٹمی طاقت
بھی ،دنیا کی بہتریں فوج بھی ہے اور بلند حوصلے والے مر مٹنے والے باشندے
بھی ہیں ۔کمی ہے تو صرف اور صرف انصاف پسند ،دیانتدار ،باکردار اور دردِدل
رکھنے والے مسیحا کی جو اس ملک کو کرپشن ،جہالت ،خیانت اور ظلم کی دلدل سے
نکال دے ،ہر سوپھیلی ہوئیں تاریکیوں کو روشنیوں سے جگمگادے ،معاشرے میں امن
وامان کی فضاءقائم کر دے ،گھر گھرتعلیم کی شمعیں جلا دے۔قیام پاکستان سے اب
تک جتنا ظلم ہم نے اپنے آپ پر اور اس ملک پر کیا وہ لکھنے کے قابل ہے نہ
بیان کرنے کے۔لاکھوں مسلمانوں کے خون سے آبیاری پانے والے اس وطن نے جتنے
ہونہار ،عقلمند اور باصلاحیت افراد پیدا کیے آج پوری دنیا ان پر رشک کر تی
ہے،ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے محسن پاکستان ہوں یا ڈاکٹر ثمر مبارک مند جیسے
محنتی اور مخلص سائنسدان ،ان کے کارنامے پوری دنیا کے لیے کسی اچنبھے سے کم
نہیں ہیں ۔ارفع کریم سے شافع تھوبانی تک ملک کا نام روشن کرنے والے ہزاروں
ستارے ہیں جن کے کارنامے پاکستان کے لیے باعث فخر اور قابل اعزاز ہیں ۔
1995میں پید اہونے والے ارفع کریم رندھاوا نے اپنی مختصر زندگی میں جو عظیم
کارنامے سر انجام دیے تاریخ میں اب تک کسی نے نہیں دیے ۔دنیا کی کم عمر
ترین آئی ٹی سپییشلسٹ کا اعزاز پانے والی دختر پاکستان خوبصورت شاعرہ بھی
تھیں اور بااعتماد ،بااخلاق انسان بھی تھیں ۔عظمت علی رحمانی کی کتاب دختر
پاکستان بتلاتی ہے کہ ارفع کریم پاکستان کا ایک تابناک اور درخشندہ ستارہ
تھیں ۔بے پناہ صلاحیتوں کی حامل ارفع نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن
کیا ۔ارفع کی رفعتوں کا سفر جاری ساری تھا کہ فرستادہ اجل پیغام اجل لے کر
آ پہنچااور ارفع کو عالم اسفل سے عالم ارفع کی طرف لے گیا۔14جنوری 2012کو
قوم کی بیٹی 16سال 11ماہ بارہ دن کی عمر پاکر خالق حقیقی سے جاملیں۔لیکن
ارفع کی موت سے یہ کارنامے اور اعزازات ختم نہیں ہوئے بلکہ تاقیامت اس سر
زمین سے ایسے ستارے ابھرتے رہیں گے جو پاکستان کا علم دنیا میں بلند کریں
گے (انشاءاللہ) ۔کیونکہ اقبالؒنے کہاتھا :
نہیں ناامید اقبال اپنی کشت ویر اں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
وطن عزیز دنیا کے مختلف میدانوں میں اب تک اپنی خداد صلاحیتوں کا لوہا منو
اچکا ہے۔ ایک سر وے کے مطابق پاکستان دنیا کی چوتھی ذہین ترین قوم ہے ۔یہی
وجہ ہے وقتا فوقتا اس ذہانت کا اظہا ر ہوتا رہتا ہے ،کبھی ارفع کریم اور
آسیہ عارف کی صورت میں تو کبھی شافع تھوبانی کی صورت میں ۔8سالہ شافع
تھوبانی نے جو کارنامہ سر انجام دیا اب تک سائنس و ٹیکنالوجی کے شہسوار بھی
سر انجا م نہیں دے پائے۔13مارچ 2004ءمیںپید اہونے والے شافع تھوبانی نے
8سال کی عمر میں مائیکر وسافٹ سرٹیفائید پر وفیشنل بننے کا اعزاز حاصل کیا
۔دلچسپ بات یہ ہے کہ 2004میں ہی ارفع کریم نے دنیا کی کم عمر ترین آئی ٹی
سپیشلسٹ بننے کا اعزاز حاصل کیاتھا ۔شافع کے والد کہتے ہیں کہ” شافع شروع
سے ذہین ،محنتی تھا اور کمپیوٹر میں غیر معمولی دلچسپی رکھتاتھا “۔اسی محنت
کی بدولت شافع نے 19اپریل 2012میں مائیکر وسافٹ کے امتحان میں شرکت کی اور
91فیصد نمبر لے کر مائیکر و سافٹ سپیشلسٹ بن گیا ۔شافع تھو بانی کہتا ہے کہ
مجھے اپنے کام پر فخر ہے اور میں پاکستان کی ترقی کے لیے اپنی صلاحیتیں
بروئے کار لاﺅ ں گا۔آٹھ سالہ شافع کا یہ کارنامہ ہونہار اور باصلاحیت افر
اد کے لیے ایک پیغام ہے کہ دنیا میں مشکل سے مشکل کام محنت اور بلند ہمتی
کی بدولت سر انجام دیا جاسکتا ہے۔
ارفع کریم اور شافع تھوبانی جیسے ہزاروں باصلاحیت پھول ہیں جو خداد
صلاحیتوں کے مالک ہیں اور ملک کے لیے کچھ کر نے کا جذبہ رکھتے ہیں ،لیکن
کوئی مخلص ۔انصاف پسند ،علم دوست مسیحا نہیں جو ارفع اور تھوبانی جیسے
موتیوں کو چن چن کر ایک لڑی میں پر و دے ۔ارفع کریم کی وفا ت پر وزیر اعلی
پنجاب نے کندہا دیا، وزیر اعظم نے گھر جاکر تعزیت کی ،ڈاک نے یاد گاری ٹکٹ
جاری کیا اور حکمر نوں نے ٹیکنا لوجی یونیورسٹی بنا نے کا اعلان کیا۔مگر
ابھی تک سوائے یادگاری ٹکٹ کے کوئی منصوبہ شروع نہیں ہوا۔منصوبے کیسے شروع
ہوں؟منصب پرفائز لوگوں کو اپنے منصوبوں سے فرصت توملے۔ افسوس ہم اپنے قومی
ہیر وکے ساتھ بھی منافقت کرتے ہیں ،یہی وجہ ہے مختار مسعودنے اپنی کتاب میں
لکھا کہ ”بڑے آدمی انعام کے طور پر دیے جاتے ہیں اور سزا کے طور پر روک لیے
جاتے ہیں “۔اگر حکمران صحیح معنوں میں ان جواہرات کی قدر کر نا شروع کر دیں
تو اسلاف کی کھوئی ہوئی میراث واپس لاسکتے ہیں اور غرناطہ اور ہسپانیہ کی
بہاریں لوٹ سکتی ہیں ۔بس بات درد اور اخلاص کی ہے۔ |