اسلامی نظام میں مساوات ہے

حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نمرود نے پوچھا کہ آپکا رب کیا کرتا ہے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ؛ میرا رب زندگی اور موت دیتا ہے۔ اس نے کہا کہ یہ تو میں بھی کرسکتا ہوں اور ساتھ ہی دو ملزمان کو طلب کیا جن میں سے ایک کو سزائے موت اور دوسرے کو بری کرنے کا حکم ہوچکا تھا۔ نمرودنے سزائے موت والے کوبری کردیا اور بری کیئے جانے والے کو سزائے موت دیدی۔ اور اس طرح اپنے رب ہونے کی دلیل دی۔ لیکن دوسری طرف اللہ کے نبی تھے انہوں نے اس طاغوت کو فرمایا کہ میرا رب سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اور مغرب میں غروب کرتا ہے تو سورج کو مغرب سے لے آ تو اسکے ہوش ا ڑ گئے۔ اللہ اللہ ہے۔ اس نے اپنے رسولوں کے ذریعے انسان کو عدل کی تعلیم دی۔ عدل کا مطلب یہ ہے کہ اگر چیز اپنے مقام سے ہٹا دی جائے اور اسے دوبارہ اپنی اصلی جگہ پر لایا جائے تو اس کا نام عدل ہے۔ مثلا کسی کی جیب سے کسی دوسرے شخص نے رقم نکال لی۔ رقم نکالنے والا خود یا کوئی اور یہ رقم دوبارہ اپنی جگہ پر رکھ دیتا ہے تو گویا رقم لوٹ کر اپنی جگہ پر آگئی ۔اس کا نام عدل ہے۔ چوروں، ڈاکوﺅں، غاصبوں، قاتلوں اور ظالموں سے جب قانون متاثرین کو حق دلاتا ہے تو اسی کا نام عدل ہے۔ اگر عدل دنیا میں ناپید ہوجائے یا ظالم اسے مفلوج کردیں تو دنیا میں بڑا فسا د پیدا ہوگا۔انہیں اسلام نے حقوق العبادکا نام دیا ہے۔ کتاب اللہ کا موضوع چونکہ انسان اور جنات ہیں اسی لیئے انسانوں کے مابین تعلقات کو متواز ن رکھنے کے لیئے اللہ تعالی نے سب کے حقوق و فرائض کا تعین فرمادیا اور انکے نفاذ و تفصیلات کا مکمل اختیار رسول معظم ﷺ کو عطا فرمایا۔ بار بار قرآن کریم میں فرمایا گیا کہ یا ایھا الناس انا خلقنکم من تراب اے لوگو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔ فرمایا اے لوگو ہم نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا۔ اسی سے اسکی زوجہ کو اور پھر ان دونوں سے بہت سارے مرد وں اورعورتوں کو پیدا فرمایا لھذا تم اس اللہ سے ڈرتے رہو۔ (سورة النسائ)۔ قانون کے نفاذ اور قیام عدل میں اللہ تعالی نے اپنے انبیاءکرام کو بھی استثنانہیں دیا۔ قانون الہی سب انسانوں کے لیئے برابر ہے۔میں یہاں اپنے دل کو تھام کرضبط اشک ریزی کرتے ہوئے ایک واقعہ کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ کہیں آج کے مسلمانوں کو قانون الہی سمجھنے کی توفیق مل جائے۔ کائنات کے آقا رحمة للعلمین ، حبیب رب العالمین شفیع المذنبین ﷺ کو سخت بخار ہے ا ور آپ ﷺ اپنے پروانوں کو پیاری پیاری ہدایات دینے انکے جھرمٹ میں تشریف فرماہیں ۔ اور ارشادات کے ضمن میں یہ فرماتے ہیں کہ اگر میں نے کسی کے ساتھ کوئی ناانصافی کی ہویا کچھ دینا ہو تو بتائے۔ ایک صحابی حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کی کہ ایک دفعہ آپ ﷺ نے میری ننگی پیٹھ پر کوڑا مارا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بدلہ لے لو۔ حضرت عکاشہ نے عرض کی کہ پیٹھ سے کپڑا بھی اٹھائیں۔ صحابہ کرام رضی عنہم میں انتہا درجہ کی بے چینی پیدا ہوگئی۔یہاں تک کہ سیدہ خاتون جنت سلام اللہ علیہا اور امہات المﺅمنین رضی اللہ عنہم کی رونے کی آوازیں سنی گئیں۔ہر کوئی حضرت عکاشہ کی اس حرکت پر سخت پریشان تھا۔ سرکار علیہ الصلوة والسلام نے پیٹھ سے کپڑا اٹھایا تاکہ عکاشہ اپنا بدلہ لے لے۔ پرآشوب منظرتھا ۔ حضرت عکاشہ نے درہ پھینکا اور آقا کریم علیہ الصلوة والتسلیم کے جسم اطہر سے لپٹ جاتے ہیںاور مہر نبوت کو بوسہ دیتے ہیں۔ اور عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم عکاشہ کے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان بدلہ لینے کی میری جرات ناممکن۔ میں تو مہر نبوت کو چومنا چاہتا تھا۔کیونکہ جس نے آپ کے جسم مبارک کو چھولیا اس پر نار جہنم حرام ہے۔ وجہ یہ تھی سرکار ﷺ انتہائی حیا دار ہیں آپ ﷺ اپنے جسم کا کوئی حصہ کھولنا پسند نہ فرماتے ہیں۔حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ نے یہ حیلہ محض مہر نبوت کی زیارت اور چومنے کے لیئے کیا لیکن سرور کون مکاں ﷺ کے ساتھ پیش آنیوالے واقعات کا مقصد امت کی تعلیم اور رہنمائی کی حکمتیں رکھتا ہے۔ جب حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ نے بدلہ لینے کا کہا توہر کسی نے انہیں کہا کہ آپ ﷺ اللہ کے حبیب ہیں یہ مطالبہ انتہائی بے ادبی ہے۔ بلکہ سرکار علیہ الصلوة والسلام نے قیام عدل کی اعلی مثال پردہ فرماتے فرماتے بھی قائم کردی۔ جب اللہ کے رسول اور تاجدار انبیاءﷺ اپنے آپکو قانون سے مستثنی قرار نہیں دیتے تو کسی ملک کا صدر ہویاکچھ بھی ہو اس کی کیا حیثیت ہے کہ وہ اپنے آپکو یا اسکے حواری اسے قانون سے مستثنی قراردیں۔آپ ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلی امتیں ہلاک ہوئیں کہ جب ان کا کوئی بڑا جرم کرتا تو اسے مستثنی قرار دیتے اور کوئی چھوٹا جرم کرتا تو اسے سزا دیتے۔ اسلام دین فطرت ہے اور اسکے تمام احکامات فطرت انسانی کے مطابق ہیں۔ سب انسان برابر ہیں ۔ انتظامی لحاظ سے کسی کا بڑا ہونا اسے قانون سے بالاتر قرارنہیں دیتا۔اگر ایسا ہوتا تو کیا سیدنا حضرت علی حیدر کرار کرم اللہ وجھہ حضرت قاضی شریح رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش نہ ہوتے۔ آپ فرماتے میرا مرتبہ بلند ہے اور قاضی تنخواہ دار ہے۔ اسکی عدالت میں پیش ہونامیری توہین ہے۔جب تک امیرالمومنین ہوں کسی عدالت میں پیش نہ ہونگا۔ مگر پاکستان کی پی پی ،انکا صدر زرداری ہر قانون سے اپنے آپکو بالاتر سمجھتے ہیں۔جھوٹ کی انتہا کہ عدالت عظمی کے کسی حکم کی آج تک ان لوگوں نے تعمیل نہیں کی مگر یہ کہتے ہوئے شرماتے نہیں کہ ہم تو عدالت کا احترام کرتے ہیں۔ اب اس بات کافیصلہ تو عوام ہی کریں گے۔ کہ سچا کون ہے جھوٹا کون؟ہمارے ملک کے طالع آزماﺅں کی حالت نہائت قابل رحم ہے۔ برسر اقتدارآنے کا صرف یہ مقصد ہوناچاہیئے کہ اللہ کے قانون کے مطابق ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنایاجائے اور قوم کو حقیقی معنوں میں با عمل مسلمان بنایا جائے تاکہ غیر مسلم انکی پیروی کریں۔ لیکن وطن عزیز کے ساتھ جو شرمناک سلوک آج تک سیاستدانوں نے کیا اسکے نتائج آج قوم کے سامنے ہیں۔اب حکمرانوں نے اپنی مجرمانہ ذہنیت کا مزید اظہار کردیا کہ وزرا ، صدر اوروزیر اعظم جب چاہیں اور جس طرح چاہیں عدلیہ کی توہین کرسکیں گے۔ دوسرے الفاظ میں کابینہ کی حیثیت عدلیہ پر مقدم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ توہین اپنے سے کمترین کی ہی کیجاتی ہے۔ دوسری طرف پی پی کی قیادت کو جو چیز زیادہ چبھتی ہے وہ ہے دوہری شہریت پر قدغن۔ جو لوگ دونوں ہاتھوں سے لڈو کھانے کے عادی ہیں وہ بڑے بے چین ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے پی پی کی قیادت کے سارے پول کھل رہے ہیں اور اب ان کو چھپانے کے حیلے بہانے تلاش کیئے جارہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے گرو جی برطانیہ میں ہی رہ کر پاکستان کی سیاست لڑرہے ہیں۔ انہیں تو دہری کی بجائے تہری اور چوہری قسم کی شہریت کی زیادہ ضرورت ہے۔ بلکہ انکی تمنا ہے کہ انہیں اسرائیل کی شہریت مل جائے تو انکے سارے دکھوں کا مداوا ہوجائے۔ایک اے این پی کی قیادت کسی حد تک قومی غیرت کا مظاہرہ کررہی ہے۔ لیکن خطرہ ہے کہ ایوان صدر میں شطرنج کے بادشا ہ کوئی کھیل نہ کھیل جائیں۔ پی پی کی قیادت اصول حکمرانی سے بے بہرہ اور عقل سلیم سے قلاش ہیں۔ محض اپنے چند بازیگروں کے تحفظ کے لیئے ایسے اقدامات کرنے پر اتر آئے ہیں کہ امریکہ، برطانیہ اور دوسرے اسلام دشمن ممالک کے وفادار پاکستان کے اراکین منتخب ہونگے ، وزیر اعظم اور صدربھی بن سکتے ہیں۔ لیکن قومی مفادات کو قوم پی پی کے چند نفس پرستوں کی بھینٹ نہیں چڑھنے دے گی۔ بلا تامل برملا کہے دیتا ہوں کہ یہ چند افراد پوری قوم اور ملک کو یرغمال نہیں بناسکتے ۔ ہا ں یہ ضرور ہے کہ اب انکی سیاسی تجہیز و تدفین کا وقت قریب آگیا ہے۔ جب چیونٹو ں کی ہلاکت آنے والی ہوتی ہے تو انہیں پر لگ جاتے ہیں جیسا کہ پی پی کی قیادت کو پر لگ چکے ہیں۔ مغربی جمہوری پارلیمانی نظام کا خاصہ ہے کہ نااہل اور ، بددیانت اور غاصب بر سر اقتدار آئیں گے۔ جب تک نظام حکومت تبدیل نہیں ہوتا انسان انسان کا غلام رہے گا۔من پسند قانون بنائے جارہے ہیں۔ اسلام نے ہر انسان کے حقوق کا تعین کردیا ہے ۔ مقتول کے ورثا کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ قصاص لیں، دیت لیں یا معاف کردیں۔ ورثا کے علاوہ یہ حق اللہ نے اپنے رسول کو نہیں دیا تو صدر پاکستان کو کہاں سے حاصل ہوگیا۔ اگر کوئی اس بارے صدر پاکستان کا حق تسلیم کرتا ہے تو یہ کفر ہے۔ صدر پاکستان کا قاتلوں یا ریاست میں فساد کرنے والوں کی سزائیں معاف کرنا خلاف اسلام ہے جو کفر ہے۔ اگر 73ءکے آئین میں صدرکے استثنا اور سزا یافتہ مجرموں کی جو شقیں درج ہیں وہ خلاف اسلام ہیں ۔ انہیں آئین سے نکال دینا فرض عین سمجھا جائے۔ جو ترمیم و تنسیخ کیجائے شرط ہے کہ نیت صاف فلاح کی ہو۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیئے آئینی تبدیلیاں حکمرانوں کے ناپاک عزائم کی مظہر ہیں۔اب عوام صرف سچ قبول کریں گے۔ لھذا سیاستدان اب سچ اور صرف سچ ہی اپنائیں۔الحمدللہ کہ ملک میں عدلیہ پہلی مرتبہ حقیقی معنوں میں فعال ہے اور قانون دان طبقہ حکمرانوں کے ہر غیرآئینی فیصلوں کے سامنے ہراول دستہ کی حیثیت سے موجود ہے۔ پی پی کے فیصلوں کو عدالت میں چیلینج کیا جاسکتا ہے۔

اتنا نہ اکڑ،نہ اتنے جذبات میں رہ
حد سے نہ گذر،دائرہ ذات میں رہ
اک قطرہ ناپاک نسب ہے تیرا
اوقات یہی ہے تیری،اوقات میں رہ۔(سید نصیرالدین شاہ گیلانی)
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140700 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More