اس ملک کو اسلامی جمہوریہ
پاکستان کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ کون سا اسلام؟ اور کہاں کا اسلام ہے اس ملک
میں؟ ہم نے اسلام بھی دیکھا ہے اس مذہب کے ماننے والے شراب سے دور ہیں، سچ
بولتے ہیں، چوری پر فوراً سزا اور جھوٹ بہت کم بولتے ہیںیہ سب کچھ ہوتا ہے۔
سعودی عرب میں جھوٹ، شراب اور زنا وہاں بھی ہے مگر اس حد تک نہیں جس انتہا
سے اس ملک میں ہورہا ہے۔ یہ ملک ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا میرے اور
آپ کے اباﺅاجداد نے قربانیاں پیش کیں۔ اُس وقت ایک ہی نعرہ تھا۔
پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ لا الہ الا اﷲ
لے کر رہیں گے پاکستان۔۔۔۔۔۔بن کر رہے گا پاکستان
اسلام کے نام پر یہ ملک تو بن گیا مگر اسلامی اصولوں سے انحراف ہم نے بہت
پہلے سے ہی کرنا شروع کر دیاتھا۔ جب قائد نے کہہ دیا کہ پاکستان ایک فلاحی
ریاست ہوگا اور ا س کے دنیا کے ساتھ تعلقات ہوں گے۔ بالکل ٹھیک کہا تھا
قائد نے مگر ہم اس فرمان کو دوسری طرف لے گئے۔ ہم نے فلاحی ریاست کا مطلب
سمجھا شراب اور زنا کے اڈے۔ اسلامی اصولوں سے انحراف جھوٹ اور بے حیائی کی
انتہا۔
قارئین! مجھے کچھ عرصہ قبل ایک پرائیویٹ ہوٹل جو کہ شملہ پہاڑی لاہور میں
واقع ہے اس کےHRڈیپارٹمنٹ میں کام کرنے کا موقع ملا جو میں نے دیکھا وہ سب
حقیقت ہے اور ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑ ے گا۔ اس ملک کے محافظ یعنی
پولیس کے لوگ بڑی بڑی گاڑیوں میں شراب لے کر جاتے، SHOصاحب خود شراب کی
سپلائی کو کسٹمرز تک یقینی بناتے۔ محافظ جو محافظ تو نہیں ہیں مگر غنڈے
ضرور ہیں وہ بھی آتے اور شراب لے جاتے ۔ کچھ مشہور علماءکرام بھی تشریف
لائے(ضرورت پڑنے پر نام بتایا جاسکتا ہے) وہ بھی شراب لےتے اور کمرے بک
کرواتے طرح طرح کے کھانے اورہر رنگ کی لڑکیاںبھی دستیاب ہوتیں۔ جو حضرات
باہر سے خود شراب لینے کے لیے ہوٹل کے اندر داخل ہوتے واپسی پر پولیس والے
انہیں گھیر لیتے پھر یا تو انہیں شراب میں سے حصہ دینا پڑتا یا پھر
نقدی۔گاڑیوں کی ڈگیاں بھر بھر کر جاتیں۔ زیادہ تر شراب پاکستان کی ہی کمپنی
مری بیوریج کی ہوتی۔ہمارے علماءبھی ادھر آتے ہیں سیاست دان بھی میڈیا کے
لوگ بھی۔ ڈاکٹرز بھی اور تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ
ادھر آتے اور ٹائم پاس کرتے۔ لاہور کے کچھ ہوٹلز جہاں شراب عام ملتی ہے ان
میں سے دو ہوٹلز ڈیوس روڈ پر اور دو ہوٹل مال روڈپر موجود ہیں۔آپ سب جانتے
ہیں کہ یہ بڑے بڑے ہوٹلز ہیں جنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ان ہوٹلز کے پاس
شراب کے پرمٹ بھی موجود ہیں ان ہوٹلوں کے مالکان کے بقول ان کے ہوٹل میں
فارنرز آتے ہیں جو شراب کی ڈیمانڈ کرتے ہیں اس وجہ سے انہیں شراب رکھنا
پڑتی ہے۔
جس ہوٹل میں بندہ کو کام کرنے کا کچھ عرصہ موقع ملا ادھر ایک مہینے میں دو
چار فارنرز ہی آئے۔ باقی ٹرکوں کے ٹرک کہاں گئے؟ کہاں جاسکتے ہیں؟ اسلامی
جمہوریہ پاکستان کے لوگ پیتے ہیں ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے روکا گیا ہے(سب
کی بات نہیں ہورہی کچھ لوگ بہت زیادہ شاکر بھی ہیں)۔اور نام اسلام کا
استعمال کرتے ہیں دو سال قبل جب میں عمرہ کے لیے لاہور ائیرپورٹ سے جدہ
روانہ ہونے لگا تو دیکھا کہ ائیر پورٹ کے قریب بڑے بڑے بورڈز لگے ہیں جہاں
لڑکیوں کی تصویریں عجیب و غریب لباس میں آویزاں ہیں۔سعودی عرب میں جدہ ائیر
پورٹ پر بھی کچھ بورڈ دیکھے جس سے پتا چلتا تھا کہ واقعی یہ ایک اسلامی ملک
ہے۔ارے اسلام کا خالی نام ہی استعمال نہ کرو بلکہ اس پر عمل بھی کرو۔
آج ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے۔ جھوٹ اور چغلی ہم میں عام ہے ۔راہ زنی،
چوری چکاری، حق تلفی عام ہے۔وہ کچھ ہو رہا ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر
سکتے۔ لاہور شہر میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو اس ملک میں فحاشی عام کرنا
چاہتے ہیں۔ وہ جگہ جگہ فیشن شوز کرواتے ہیں وہ بھی اپنی جیب سے اور انٹرنیٹ
پر فحاشی کو عام کرنے کے لیے Pagesبنارہے ہیں اور وہ اپنے کام میں تیزی سے
کامیاب ہورہے ہیں۔ گلبرگ، سنت نگر، شادمان وغیرہ میں فحاشی کے اڈے قائم ہیں
جو پولیس کی نگرانی میں چل رہے ہیں لکھنے کا مقصد آپ سے ایک سوال کرنا تھا
کہ ہمیں شرم کیوں آتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ یہ اسلامی ملک نہیں
یہاںImplementation of Islam بہت کم ہے۔ یہاں قرآن کو صرف قسمیں کھانے کے
لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں قرآن کے ساتھ شادیاں کی جاتیں ہیں، یہاں
کاروکاری عام ہے۔ ہم اپنی بہنوں کو تو پردے میں دیکھنا چاہتے ہیں مگر
دوسروں کی بہنوں کی عزت نہیں کرتے۔ یہاں ملک کے محافظ ہی شرابی ہیں۔ پھر مت
کہیں اس ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ ہم خود بالواسطہ یا بلاواسطہ سب
کچھ کرتے ہیںجو اسلامی اصولوں کے خلاف ہے۔ میں آخر میں سڑکوں کے وزیرِ
اعلیٰ سے اپیل کروں گا کہ ان ہوٹلوں کو شراب کی سپلائی بند کی جائے اور
پولیس جس کا کام جان و مال کی حفاظت کرتا ہے۔ اس میں سے کالی بھیڑوں کو
نکالا جائے اور فحاشی پھیلانے والے گروہوں کو بھی گرفتار کیا جائے۔ |