تحریر : حافظ محمود حسن
توحید اسماء و صفات
اللہ تعالیٰ بہت سی صفات کمال سے متصف ہیں بلکہ ہر کمال آپ ہی کی ذات سے
وابستہ و آراستہ ہے اور کائنات کے جس فرد کو کوئی کمال ملا ہے وہ اللہ
تعالیٰ کا ہی عطا کردہ ہے۔ مخلوق کا کوئی کمال اپنا بھی نہیں اور ہر جہت سے
کامل و لامحدود بھی نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر عیب و نقص سے پاک ہیں،
جیسا کہ سورۂ اخلاص کا ترجمہ دیکھنے سے ہر مسلمان اس حقیقت کو اچھی طرح
جان سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں چار مقامات پر یہ بتایا ہے کہ اچھے اچھے
نام﴿الاسماء الحسنیٰ﴾ اسی کے لئے ہیں، ان اسمائ اور صفات میں کچھ تو ایسے
ہیں جن کا استعمال اللہ تعالیٰ کے لئے ہی خاص ہے اور ان کا استعمال کسی
دوسرے کے لئے جائز نہیں ہے اور کچھ اسمائ ایسے ہیں جو ثانوی درجے میں مخلوق
کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں۔
اسماء و صفات الٰہی کے بارے میںتین اصول
اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات سے متعلق درست ایمان رکھنے کے لئے تین اصولی
باتیں ہر مسلمان کو ذہن میں رکھنی چاہئیں۔
﴿۱﴾ قرآن کریم اور سنت نبویہ سے اللہ تعالیٰ کے جو اسمائ و صفات ثابت ہیں،
ان پر بغیر کسی کمی بیشی اور تحریف کے ایمان لایا جائے۔
﴿۲﴾اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی مشابہت اور ہر عیب سے پاک سمجھا جائے۔
﴿۳﴾ ان اسماء و صفات کی کیفیات کی تعیین اور ان کی تہہ تک رسائی سے گریز
کیا جائے کیونکہ یہ انسانی فکر سے بلند معاملہ ہے اور انسانی فکر اس راہ
میں ٹھوکر کھاکر گمراہی یا کفر کی دلدل میں دھنسا سکتی ہے۔
اللہ کے ناموں کا حق
سورۂ اعراف میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وللّٰہ الاسماء الحسنیٰ فادعوہ بہا و ذروا الذین یلحدون فی اسمائہ سیجزون
ما کانوا یعملون ﴿180﴾
ترجمہ: اور اللہ کے لئے ہیں سب نام اچھے، سو اس کو پکارو وہی نام لے کر اور
چھوڑ دو ان کو جو کج راہ چلتے ہیں اس کے ناموں میں، وہ بدلہ پاکر رہیں گے
اپنے کئے کا۔
حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی(رح) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:’’غافلین
کا ذکر کرکے مؤمنین کو متنبہ فرمایا ہے کہ تم غفلت اختیار نہ کرنا، غفلت
دور کرنے والی چیز خدا کی یاد ہے، سو تم ہمیشہ اس کو اچھے ناموں سے پکارو
اور اچھی صفات سے یاد کرو، جو لوگ اس کے اسمائ و صفات کے بارہ میں کج روش
اختیار کرتے ہیں انہیں چھوڑ دو وہ جیسا کریں گے ویسا بھگتیں گے۔ خدا کے
ناموں اور صفتوں کے متعلق کجروی یہ ہے کہ خدا پر ایسے نام یا صفت کا اطلاق
کرے جس کی شریعت نے اجازت نہیں دی اور جو حق تعالیٰ کی تعظیم و اجلال کے
لائق نہیں، یا اس کے مخصوص نام اور صفت کا اطلاق غیر اللہ پر کرے، یا ان کے
معانی بیان کرنے میں بے اصول تاویل اور کھینچ تان کرے، یا ان کو معصیت
﴿مثلاً سحر وغیرہ﴾ کے مواقع میں استعمال کرنے لگے۔ یہ سب کجروی ہے‘‘۔
﴿تفسیر عثمانی﴾
اللہ کے ناموں میں الحاد کی چار شکلیں
اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں میں الحاد اور کج روی
کی چار شکلیں ہیں:
﴿۱﴾ اللہ تعالیٰ کو ایسے نام یا صفت سے یاد کیا جائے جس کی شریعت نے اجازت
نہ دی ہو اور وہ نام یا صفت اللہ تعالیٰ کی شانِ عظمت و جلال کے لائق نہ ہو
جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے ﴿معاذ اللہ﴾ اللہ تعالیٰ کو حضرت عزیر و حضرت
عیسی علیہما السلام کا باپ قرار دیا ہے۔
﴿۲﴾ اللہ تعالیٰ کے مخصوص نام اور صفات کو غیر اللہ کے لئے بولا جائے مثلاً
کفار اپنے بتوں کو ’’الٰہ‘‘ کہتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے ناموں پر اپنے
بتوں کا نام رکھتے تھے۔
تفسیر کبیر کے مصنف امام رازی(رح) نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں
’’اللہ اور الرحمن‘‘ دو ایسے نام ہیں جو اسی کے ساتھ خاص ہیں ان کا کسی
دوسرے کے لئے استعمال درست نہیں اور دیگر جو نام مثلاً رحیم، کریم، عزیز
وغیرہ دوسروں کے لئے استعمال ہوتے ہیں، اگر ان کے ساتھ کسی ایسے لفظ کو
بڑھا دیا جائے جس سے اس کا مفہوم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہوجائے تو پھر ان
ناموں کو بھی غیر اللہ کے لئے نہیں بولا جا سکتا مثلاً خالق السمٰوات و
الارض، ارحم الراحمین وغیرہ اور اس میں علمِ غیب اور عالم الغیب بھی داخل
ہے کیونکہ عالم اور علم کا استعمال مخلوق کے حق میں عمومی حالات میں تو
درست ہے لیکن جب ’’غیب‘‘ کی طرف منسوب کردیا تو یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص
ہوجاتا ہے اور اس کا غیر اللہ کے لئے استعمال درست نہیں رہتا۔
﴿۳﴾ اللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں کی تشریح و توضیح اور تاویل میں بے اصول
کھینچا تانی کرے اور ان کا ایسا مطلب بیان کرے جس سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق
کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہو جیسا کہ بعض وہ قرآنی آیات جن میں اللہ تعالیٰ
کے لئے ید ﴿لغوی معنیٰ ہاتھ﴾ وجہ﴿لغوی معنیٰ چہرہ﴾ وغیرہ جیسے الفاظ آئے
ہیں ان سے وہی ظاہری معنیٰ مراد لینا جو ہم انسان باہم بول چال میں سمجھتے
اور جانتے ہیں۔ ﴿معاذ اللہ﴾
﴿۴﴾ اللہ تعالیٰ کے مبارک ناموں کو معصیت اور گناہوں کے کاموں میں استعمال
کرنا جیسا کہ بہت سے بے دین و ملحد، جادو گر اور ناجائز تعویذ گنڈے کرنے
والے ناپاکی کی حالت میں اور ناپاک طریقوں سے اللہ تعالیٰ کے ناموں کو
استعمال کرتے ہیں﴿اللہ تعالیٰ اس شر اور فتنے سے امت کی حفاظت فرمائے، آج
کل تو ہر شہر میں گندگی کے ڈھیروں پر بیٹھے ایسے نام نہاد عاملوں کی بھرمار
لگی ہوئی ہے﴾
نکتہ علمیہ
امام رازی(رح) اس کی تفسیر میں ’’مسئلہ ثانیہ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ
آیت کریمہ کے الفاظ ’’للّٰہ الاسمائ الحسنیٰ‘‘ سے حصر کا فائدہ حاصل ہو رہا
ہے اور حصر کا مطلب یہ ہے کہ اسماء حسنیٰ ﴿خوبصوت نام﴾ خاص اللہ ہی کے لئے
ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ جو کچھ ہے وہ حادث، ممکن
اور نوپید ہے، یعنی ان کی ذات اور صفات سب اللہ تعالیٰ کی عطائ کردہ ہیں،
ذاتی نہیں ہیں ان مخلوقات کی ذات و صفات میں اصل چیز افتقار و احتیاج ہے،
اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیضان نہ ہو تو یہ مخلوق معدوم محض ہوتی لہٰذا
ہر کمال، ہر شرف اور ہر فضیلت اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے
سوا جو کچھ ہے وہ بحرِ فنا و نقصان میں غرق ہے۔ |