مولانا نسیم احمد فریدی(رح) شیخ
الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی (رح) کے تلمیذ اوردارالعلوم دیوبند کے
جید الاستعداد وبلند پایہ فاضل و فیض یافتہ تھے۔آپ کا سلسلہ نسب حضرت بابا
فرید الدین گنج شکر(رح) سے جڑتاہے۔ آپ نے 1938ئ میں دارالعلوم دیوبند سے
سند فراغت حاصل کی۔ اخیر عمر تک جامعہ اسلامیہ امروہہ میںفرائضِ تدریس
انجام دیتے رہے۔ طویل عرصہ تک مولانا منظور احمد نعمانی(رح) کے ماہنامہ ’’الفرقان‘‘
میں مضامین لکھتے رہے۔ جن کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہے۔ آپ نے پہلی بیعت
اپنے استاذ شیخ الاسلام حضرت مدنی(رح) سے کی ،ان کے انتقال کے بعد حضرت شیخ
زکریا کاندھلوی(رح) کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور ان سے خلافت بھی حاصل ہوئی۔
اس وقت ہمارے سامنے ان کی آخری عمر کا قلمی و تحقیقی اثاثہ’’ نادر مکتوبات
شاہ ولی اللہ دہلوی(رح)‘‘ کی صورت میں موجود ہے جو ادارہ ثقافت اسلامیہ سے
شائع ہوا ہے۔جس میں آپ نے حضرت شاہ ولی اللہ(رح) کے ڈیڑھ سو کے قریب
نادرمکاتیب کا سلیس اردو ترجمہ کرکے اہلِ علم کے افادہ کے لائق بنایاہے۔ان
مکاتیب کو حضرت شاہ ولی اللہ (رح) کے نامور اور محبوب ترین شاگرد شیخ محمد
عاشق پھلتی اور ان کے فرزند مولانا عبد الرحمن پھلتی نے جمع کیا ہے۔ ان
مکاتیب میں ذاتی احوال کے علاوہ بہت سے اسرار شریعت بھی موجود ہیں۔ ذیل میں
آپ کے دو مکتوبات نقل کیے جارہے ہیں؛ان میں ایک مکتوب حضرت کی گرانقدر
وصیتوں پر مشتمل ہے، جبکہ دوسرے مکتوب میں حضرات صوفیائ کرام میں رائج بیعت
کی حقیقت اور اس سے متعلقہ دیگر امور پر بڑی خوبصورتی اور جامعیت کے ساتھ
روشنی ڈالی گئی ہے، یہ مکاتیب علمائ ، طلبہ اورحضرات شیوخ طریقت سے منسلک
افراد کے لیے بہت مفید اور رہنما ہیں۔
پہلا مکتوب:چند اہم وصیتیں
برادرم میر نور شاہ
بعد سلام ،مطالعہ کریں؛
میری پہلی وصیت ارکانِ اسلام کو قائم رکھنے اور بدعتوں اور کبیرہ گناہوںسے
دور رہنے کی ہے۔ جس نے ارکانِ اسلام میں سستی کی یا گناہوں کا مرتکب ہوا یا
بدعتوں کا معتقد ہوا، وہ نجات کے راستے سے دور جاپڑا۔انا للہ وانا الیہ
راجعون
ان مذکورہ بالا باتوں کو پختہ و مضبوط کرلینے کے بعد طاعاتِ قلبی و زبانی
اور اعمالِ اعضائ وجوارح سے اوقات کو معمور رکھنا ہے۔ جب تک اوقات کو معمور
نہ رکھا جائیگا، نقش ونگار جو کہ مقامات و احوال سے عبارت ہیں کس دیوار پر
قائم کریں گے؟
کارِ عالم درازی دارد
ہر چہ گیرید مختصر گیرید
﴿دنیا کا کام بہت طول رکھتا ہے، یہاں کا جو کام بھی اختیار کرو مختصر
اختیار کرو۔﴾
ہم نے فرض کیا کہ کسی شخص کو زہر دیا گیا۔ تمام اطبائ اس بات کو یقینی طور
پر جانتے ہیں کہ اگر ایک ساعت گذر جائے گی اور یہ شخص قے نہ کریگا تو
مرجائیگا۔
ایک طبیب حاذق نے استفراغِ قے ﴿قے لانے﴾ کا نسخہ لکھا، اور اسی شخص کے ہاتھ
میں دے دیا۔ اس سیدھے اور بیوقوف شخص نے نسخے کو پڑھا اور اس کی دوا پر غور
کرنے لگا کہ یہ لفظ عربی ہے یا یونانی اور اس لفظ کی لغت کے اعتبار سے
حرکات و سکنات کیاہیں؟ تاکہ اس کے ہجے درست ہوجائیں۔ اس کے بعد اس نے ان
ادویہ کی ماہیت اور جامع مانع خواص میں غور و فکر کرنا شروع کیا اور اس
نسخے کے متعلق جو ندرتیں تھیں ان میں مشغول ہوگیا۔ طبیب حاذق نے کہا اے بے
وقوف آدمی وقت ایسا آگیا کہ تو اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے گا۔ ان اشیائ کی
تحقیق کرنے کی فرصت کہاں ہے؟
اگر زندگی چاہتاہے تو اس نسخے کی دواؤں کو خرید لے۔اس کا خرید لینا بھی
خود مؤثر نہیں ہے بلکہ مؤثر اس نسخے کی دواؤں کا پینا ہے۔دواؤں کا پینا
بھی مؤثر نہیں ہے بلکہ مؤثر قے کرنا اور اجزائے زہر کا باہر نکالنا ہے۔
اسی طرح سے شارع علیہ السلام نے بکمالِ مہربانی چند نسخے جن سے مراد
عباداتِ قلبی و زبانی ہیں، خطراتِ نفسانی و شیطانی زہر کھانے والوں کے لیے
تجویز کیے ہیں۔ ایک سادہ لوح آدمی ارکانِ اسلام کی تحقیق اور علمائ کے
اختلاف اور مواقعِ اختلاف کی تنقیح میں اور ان میں غور وفکر میں کہ اس
اختلاف میں کون زیادہ صحیح طریقے پر ہے، اپنے اوقات گزارتا ہے؛
عمر در تحصیلِ دانش رفت ونادانم ہنوز
کاروان بگذشت ومن در فکر سامانم ہنوز
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ
دوسرا مکتوب:تصوف کے بارے چند باتیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
برادرم عزیز القدر میر فتح اللہ، اللہ تعالیٰ ان پر اپنی معرفتوں کے دروازے
کھول دے۔
فقیر ولی اللہ کی جانب سے سلامِ محبت
انتظام کے بعد مطالعہ کریں۔ صوفیہ کی بیعت جو توارث ومتواترچلی آرہی ہے دو
قسم کی ہے: بیعت تحکم اور بیعت تبرک۔اسی طرح سے صوفیہ کا خرقہ جس کا رواج
چلا آرہا ہے دو قسم کا ہے: خرقۂ تحکم اور خرقۂ تبرک۔ تحکم سے مراد یہ ہے
کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا طالب کسی ایسے شیخ سے جو کہ جامعِ ظاہر وباطن
ہو ربط قائم کرے اور اس بات کو اپنے اوپر لازم کرلے ﴿اور یہ نیت کرلے﴾ جو
کچھ یہ شیخ ایسے اعمال و اشغالِ مقربہ کے متعلق فرمائے گا جو کہ شریعت غرّا
﴿روشن شریعت﴾ سے ثابت ہیں اپنے عمل میں لاؤں گا اور اس شیخ کی متابعت کروں
گا۔ اپنی اس نیت دلی کو علامتِ ظاہر سے نشانزد کرے اور اس شیخ کے پاس آئے
اور اس سے بیعت کرے یا اس کے ہاتھ سے خرقہ پہنے۔
تبرک سے مراد یہ ہے کہ سلاسلِ صوفیہ میں سے کسی سلسلے سے عقیدت اور محبت
پیدا کرے اور اس سلسلے کے مشائخ کی شفاعت ﴿سفارش﴾ کا امیدوار ہوجائے اور
بحکم حدیثِ صحیح المرئ مع من احب ﴿انسان اس شخص کے ساتھ ہوتا ہے جس سے وہ
محبت کرتاہے﴾ یہ خواہش کرے کہ اس کی حیات و ممات اور حشر و نشر اس جماعت کے
ساتھ وابستہ ہو۔
اس محبت کو کسی نشان سے ظاہر کرے اور اس جماعت میں سے کسی شخص سے بیعت کرے
یا اس کے ہاتھ سے خرقہ پہن لے، اگر اس نے خالص وصول الیٰ اللہ کی نیت محکم
و مضبوط طریقے پر نہ کی ہو ﴿تو﴾ اس شخص کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ بحسبِ
سہولت صوفیہ کے بعض اوراد و اشغال کو عمل میں لائے۔
اگر تم یہ کہو کہ روشن شریعت تو تمام افرادِ بنی آدم کے واسطے وارد ہوئی ہے
اور تمام احکامِ شریعت کتاب و سنت سے ظاہر ہیں پھر کسی ایک شخص کو حاکم
بنانے کی کیا ضرورت ہے؟میں اس کے جواب میں کہوں گا ہاں شریعت میں اللہ
تعالیٰ سے قرب پیدا کرنے والے تمام اعمال، افکار، اورادواحوال و مقامات
وارد ہیں مگر ہر عمل کو اس کے محل میں لانا ہر شخص کو میسر نہیں ہوتا،
سوائے اس شخص کے جو اس بارے میں تجربہ رکھتاہو اور ان مذکورہ چیزوں میں
﴿یعنی اعمال وغیرہ﴾ سے رنگین ہوا ہو۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ محدیثین احادیث
و آثار میں کمال تبحر واستعداد کے باوجود احکامِ دینیہ اور ان کے مآخذ
تفسیر اور استنباطِ آیات وغیرہ سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے مفسرین کے محتاج
ہوتے ہیں اور یہی علت علمائِ متبحرین کی احتیاج کی علت ہے، ایسے شخص سے جو
کہ سالکِ مقامات ہو، اس میدان میں کام کیے ہوئے ہو اور واقعات کو دیکھے
ہوئے ہو ﴿اور صوفیہ سے﴾ ان عوام الناس کی احتیاج ہوجو کہ احادیث کی آثار کو
جانتے پہنچانتے نہیں ہیں بہت ہی واضح ہے۔
ایک اور نکتہ جو اس بھی زیادہ باریک ہے،یہ ہے کہ شریعتِ غرّا، ایک قرابادین
﴿نسخوں کا مجموعہ یا بیاض﴾ ہے کہ جس میںتمام امراضِ نفسانیہ میں سے ہر مرض
کی دوا لکھی ہوئی ہے۔ یعنی اس میں چھوٹی اور بڑی ہر چیز کا احاطہ کیا گیا
ہے لیکن شخصِ خاص کے لیے تدبیر مثلایہ کہ اس شخص کو ذکر زبانی زیادہ نافع
ہے یا ذکر قلبی؟ انقطاع اور عزلت بہتر ہے یا لوگوں سے اختلاط اور میل جول۔
یہ بات کسی ایسے صاحبِ بصیرت کی فراست و کمالِ ذہانت پر موقوف ہے جس نے
پوری پوری مہارت حاصل کرلی ہو۔ کیا تم اس بات کا مشاہدہ نہیں کرتے کہ تمام
فنون علم بلکہ تمام صناعات﴿دست کاری﴾ تعلیم و تعلم اور مشق کے محتاج
ہیں۔حاصلِ کلام؛بیعت تبرک کا طریقہ یہ ہے کہ شیخ مرید سے مصافحہ کرے اور
دونوں مقصدِ بیعت کو اپنی اپنی زبان سے ادا کریں اور تلفظ کے ساتھ۔
یہ مصافحہ فقیر کو مشائخ طریقہ سے دو طرح سے پہنچا ہے ،ایک یہ کہ شیخ اپنے
داہنے ہاتھ کو مرید کے داہنے ہاتھ پر رکھے اور کہے کہ میں نے تجھ کو اپنی
فرزندی میں قبول کیا اور میں تجھ کو متابعتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم
اور فلاں سلسلے کے ﴿یعنی جس سلسلے میں بیعت ہورہی ہے﴾ مشائخ کی محبت کی
وصیت کرتا ہوں۔ اور مرید کہے کہ میں نے آپ کو اپنا شیخ ﴿پیر﴾ مان لیا اور
میں نے آپ کی وصیت کے مطابق متابعت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور اس
سلسلے کے مشائخ کی محبت کو اپنے دل پر مضبوط طریقے سے جمالیا۔ مصافحہ کا یہ
طریقہ فقیر کو مشائخِ عرب سے پہونچا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کا ظاہر
ید اللہ فوق ایدیھم ﴿الفتح:۱﴾ اس پر دلالت کرتا ہے۔ مصافحہ کادوسرا طریقہ
یہ ہے کہ شیخ مرید کے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیکر کلماتِ
ماثورہ کو جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہیں تلقین کرے اور یہی
عمل فقیر کے والد ماجد قدس سرہ ﴿حضرت شاہ عبد الرحیم(رح)﴾ کاتھا۔ وہ فرماتے
تھے کہ خواب کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے میری بیعت اسی طریقہ پر
ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں
مبارک ہاتھوں میں لے لیا تھا پس میرے نزدیک یہی طریقہ محبوب ہے اور اس فقیر
حقیر عفی عنہ کو بھی جو دولت بیعت ﴿آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم﴾ سے خواب
میں نصیب ہوئی اسی طریقہ پر تھی اور کلماتِ ماثورہ یہ ہیں:الحمد للہ نحمدہ
ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن
سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ و اشہد ان لا
الٰہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد دو
تین آیتیں مناسب معنی تلاوت کرے۔ مثلا:ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ
ید اللہ فوق ایدیھم فمن نکث فانماینکث علی نفسہ ومن اوفی بما عاہد علیہ
اللہ فسیؤتیہ اجراً عظیماً۔﴿الفتح ۰۱﴾﴿جولوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں اللہ کا
ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے، پس جو عہد توڑے گا وہ اپنے نفس کے لیے عہد
توڑے گا، اور جو اللہ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرے گا اسے اجرِ عظیم دیا
جائیگا﴾﴿۲﴾ یاایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ وابتغوا الیہ الوسیلۃ و جاہدوا
فی سبیلہ لعلکم تفلحون ﴿المائدہ۵۳﴾ ﴿اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی
طرف وسیلے تلاش کرو اس کی راہ میں مجاہدہ کرو تا کہ تم فلاح پا جاؤ﴾تلاوت
کرے۔
اس کے بعد﴿شیخ﴾ کہے ﴿کہ﴾ کہو! اٰمنت باللہ بما جائ من عنداللہ علیٰ مراد
اللہ ﴿میں اللہ پر ایمان لایا ساتھ اس چیز کے جو اللہ کی مراد کے مطابق
اللہ کی طرف سے آئی ہے﴾اٰمنت برسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم علٰی مراد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ،تبرأت من جمیع الکفر والعصیان استغفراللہ
الذی لا الٰہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ۔بایعتُ رسولَ اللہ صلی اللہ
علیہ و سلم بواسطۃ خلفائہٰ علی خمس شھادۃ ان لا الہ الا اللہ وان محمدا
عبداللہ ورسولہ واقام الصلوٰۃ وایتائ الزکوٰۃ وصوم رمضان وحج البیت ان
استطعتُ الیہ سبیلا۔بایعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بواسطۃ خلفائہ علی
ان لااشرک باللہ شیئا ولا اسرق ولا ازنی ولا اقتل ولا اتی ببھتان افتریہ
بین یدی ورجلی ولا اعصیہ فی معروف ۔ ﴿اور ایمان لایا میں اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ و سلم پر جس طرح کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم چاہتے ہیں میں بے
تعلق ہوا تمام کفر کی باتوں سے اور گناہوں سے، میں اللہ حی وقیوم سے
استغفار کرتا ہوں اور اس سے توبہ کرتا ہوں اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ
و سلم سے بیعت ہوتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلفائ کے واسطے سے ان
پانچ باتوں پر:﴿۱﴾اللہ ایک ہے اور محمدصلی اللہ علیہ و سلم اس کے بندے اور
رسول ہیں ﴿۲﴾ اس پر کہ نماز قائم کروں گا ﴿۳﴾ زکوٰۃ دوں گا ﴿۴﴾رمضان کے
روزے رکھوں گا ﴿۵﴾ اگر استطاعت ہوئی تو حج بیت اللہ کروں گا۔ اور میں نے
بیعت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ کے خلفائ کے واسطے سے اس بات
پر کہ اللہ کے ساتھ کسی کو کو شریک نہیں کروں گا اور کسی پر بہتان اور تہمت
نہ لگاؤں گا اور میں معروف میں ان کی نافرمانی نہیں کروں گا ﴾اس کے بعد
کہو کہ اخذت الطریقۃ الفلانیۃ المنسوبۃ الی الشیخ الاعظم والقطب الافخط
الشیخ فلان اللہم ارزقنا فتوحھا واحشرنا فی زمرۃ اولیائھا برحمتک یا ارحم
الراحمین۔﴿یعنی میں نے فلاں سلسلہ کو اختیار کیا جو کہ فلاں شیخ اعظم اور
قطب الافخم﴿شیخ کا نام لے﴾ کی طرف منسوب ہے۔ اے اللہ ہمیں اس کی فتوحات و
برکات نصیب فرما اور اس کے اولیائ کے زمرے میںہمارا حشر فرما اپنی رحمت سے
اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے﴾
اس کے بعد چاہیے کہ شیخ مرید کی استقامت کے بارے میں دعا کرے اور پوری پوری
کوشش سے اللہ تعالیٰ کی جناب میں مرید کے حسنِ خاتمہ کو طلب کرے۔اس کے بعد
صلوٰۃ مسنونہ یعنی اشراق، ضحی﴿چاشت﴾،صلوٰۃ الزوال، صلوٰۃ الاوابین اور تہجد
پڑھنے کا حکم کرے اور صبح و شام اور سوتے وقت کے اوراد مختصر طریقے پر
تعلیم و تلقین کرے۔ خاص طور پر مسبحاتِ عشر کی تاکید کرے کیونکہ یہ اکثر و
بیشتر صوفیہ کا معمول ہے۔رضوان اللہ علیھم۔ اور تاکید بلیغ اقامتِ شریعت کے
بارے میں اور بدعات،خواہشاتِ نفسانی، فحش، غیبت اور زبان کی تمام آفتوں سے
اجتناب کے لیے ضروری ہے۔
ہمیں اسی کلام پر اپنی بات کو ختم کرنا چاہیے۔
والحمد للہ عزوجل والسلام علی سید الرسل الکرام |