امن و امان کے قیام اور قانون کی
بالادستی کیلئے باہمی تعاون اور اشتراک عمل کی مختلف صورتیں بڑی اہمیت کی
حامل قدریں ہیں لیکن یہ تعاون اور اشتراک عمل نیکی اور بھلائی کے کاموں میں
ہونا چاہئے اگر باہمی تعاون اور اشتراک عمل کی یہ قوت شیطانی ذہن کی طرف
جھک جائے تو معاشرہ فتنہ و فساد، شر اور ظلم کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔
ارشاد خداوندی ہے:
اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ
اور ظلم (کے کام) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ (المائدہ، 5 : 2)
باہمی تعلقات کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ایک دوسرے مقام پر یوں ارشاد
فرمایا گیا۔
بے شک مسلمان تو (آپس میں) بھائی بھائی ہیں (حقیقی بھائی کی طرح ہیں) پس
اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرا دو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم
کیا جائے (الحجرات، 49 : 10)
فتنہ و انتشار سے بچنے اور آپس میں اخوت و محبت کے جذبات کو فروغ دینے پر
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اقوال مبارکہ میں بہت زیادہ زور
دیا ہے، افتراق و نفاق سے بچنا، قتل و غارت گری سے ہاتھ روکنا اور اپنی روز
مرہ زندگی میں اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ جذبہ
خیر سگالی کے بغیر قیام امن کی ہر کوشش ناکام رہتی ہے اس لئے قومی اور بین
الاقوامی سطح پر رواداری کے جذبات کی ترویج اور وسیع پیمانے پر اس کی تشہیر
آج کے انسان کی بھی بنیادی ضرورت ہے۔
حدیث پاک (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ہے کہ مسلمان دوسرے مسلمان کا
بھائی ہے نہ تو اس پر ظلم کرے اور نہ اسے ظالم کے حوالے کرے اور جو شخص
اپنے بھائی کی حاجت براری میں رہتا ہے۔ اللہ تعالی اس کی ضروریات پوری کرتا
ہے جو شخص کسی مسلمان سے مصیبت دور کرے اللہ تعالی قیامت کے دن اس کی مصیبت
دور کریگا جس نے کسی مسلمان کی ستر پوشی کی اللہ تعالی قیامت کے دن اس کے
عیب چھپائے گا(صحیح البخاری، 1 : 3330)
کسی جھگڑے کی صورت میں حکم ہے کہ فریقین میں صلح کرا دو، زیادتی کرنے والے
کو طاقت استعمال کر کے اسے زیادتی سے روک دینے کی بھی مسلمانوں کو ہدایت کی
گئی ہے۔ اور اگر دوگروہ مسلمانوں کے آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کرا دو
(الحجرات، 49 : 9) اسلام میں جنگ صرف فتنہ و فساد کو روکنے کیلئے ہوتی ہے۔
بغاوت کو کچلنے اور ظلم کو رفع کرنے کیلئے تلوار نیام سے باہر کی جاسکتی
ہے۔ اور ان سے جنگ کرتے رہو حتی کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین (یعنی
زندگی اور بندگی کا نظام عملا) اللہ ہی کے تابع ہو جائے (البقرہ، 2 : 193)
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیغمبر امن
مرخ مصطفوی انقلاب کے سوا کسی دوسرے حقیقی ہمہ جہت انقلاب کا نام لینے سے
قاصر ہے۔ انقلاب فرانس اور انقلاب برطانیہ اور انقلاب روس وغیرہ جزوی اور
وقتی انقلاب تھے۔ یہ انقلاب برپا ہوئے تو صرف سیاسی اور معاشی تبدیلیاں
ظہور پذیر ہوئیں لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انقلاب رحمت صحیح
معنوں میں انقلاب تھا جو انسانی زندگی میں خوشگوار تبدیلیوں کا باعث بنا
اور جس کے ثمرات سے بنی نوع انسان رہتی دنیا تک فیض یاب ہوتی رہے گی جس نے
فرد کے اندر بھی انقلاب برپا کیا۔ اس کی سوچ کا رخ بدلا اور اس کے راہوار
عشق کو خیر کی راہوں پر گامزن کیا۔ نیکی، طہارت، پاکیزگی، پرہیزگاری اور
تقوی سے اس کی کتاب روز و شب کا دیباچہ لکھا۔ معاشرے میں آسمانی ہدایت کے
عملی نفاذ سے اجتماعی رویوں کو ایک نئی جہت عطا ہوئی۔ سرکشی کو اطاعت میں
تبدیل کر دیا گیا۔ فتنوں اور سازشوں کے تاریک دور کا خاتمہ ہوا۔ عدل و
مساوات کا دور دورہ ہوا اور مصطفوی انقلاب کوئی خونی انقلاب نہیں تھا۔
تصادم اور معرکے ضرور ہوئے لیکن ان میں ہونیوالا جانی و مالی نقصان دیگر
انقلابات کے مقابلے میں بہت کم تھا بلکہ نہ ہونے کے برابر تھا جبکہ مذکورہ
انقلابات میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے۔ کروڑوں کی املاک تباہ ہوئیں، فتح
مکہ کے وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہتے تو ایک ایک ظلم کا بدلہ
لے سکتے تھے۔ ایک ایک زیادتی کا جواب دیا جا سکتا تھا لیکن حضور (صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم) جنہیں کل جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا نے عام
معافی کا اعلان کر کے تاریخ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا حتی کہ اپنے خون کے
پیاسوں کو بھی معاف کر دیا، ذاتی انتقام کا ہر تصور ہوا میں تحلیل ہو کر رہ
گیا۔ مقابلہ نہ کرنے والوں سے تعرض نہ کیا گیا۔ اسلامی عساکر کے سالار کو
ہدایت جاری ہوئیں کہ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں اور مذہبی راہنماں پر ہاتھ نہ
اٹھایا جائے۔ نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دائمی امن کی
بنیاد رکھی، سعودی عرب جس میں اسلامی سزائیں نافذ ہیں وہاں بہت کم جرم ہوتے
ہیں آج بھی اگر ہم عالمی سطح پر جرائم، لوٹ مار، قتل و غارت گری اور غنڈہ
گردی کو روک کر فلاحی معاشروں کے قیام کا خواب دیکھ رہے ہیں تو ہمیں پیغمبر
امن کے فرامین سے ہدایات حاصل کرنا ہونگی۔
تعلیمات اسلامی پر عمل کئے بغیر نہ جرائم کی رفتار میں کمی آسکتی ہے نہ
استحصال کرنیوالوں کا ہاتھ روکا جا سکتا ہے اور نہ حقیقی معنوں میں نسل آدم
کو حقیقی امن کا مژدہ سنایا جا سکتا ہے۔ بے سکون اور مضطراب انسانیت کو اگر
امن، عافیت اور سلامتی کی تلاش ہے تو اسے جھک جانا ہو گا مکین گنبد خضرا
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دہلیز پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے
دامان کرم سے وابستہ ہوئے بغیر امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو
سکتا۔
اسلام دین امن
اسلام سراپا دین امن ہے۔ اسلام سراپا رحمت ہے، اسلام سراپا سلامتی ہے،
مسلمان جنگجو تھے اور نہ ہیں بلکہ یورپ سے افریقہ اور افریقہ سے ایشیا تک
جہاں بھی اسلامی حکومتیں قائم ہوئیں انہوں نے سب سے پہلے اپنے معاشروں میں
امن قائم کیا۔ امن عدل کے بغیر ممکن نہیں اس لئے اسلام نے عدل کے قیام پر
زور دیا چنانچہ حاکمان وقت تک عام آدمیوں کی طرح عدالتوں میں پیش ہوتے رہے۔
مستشرقین کے بے بنیاد الزامات میں کوئی وزن نہیں۔ جہاد تو دہشت گردی کے
خاتمے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ظلم اور نا انصافی فتنہ و فساد اورشر انگیزوں
کو روکنے کا وسیلہ ہے۔ جن غیر مسلم محققین نے تعصبات سے بالا تر ہو کر اور
مکمل غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تاریخ کے دروازے پر دستک دی ہے اور
خلوص دل سے کسی نتیجہ پر پہنچے کی کوشش کی ہے وہ اس حقیقت کا اعتراف کئے
بغیر نہیں رہ سکے کہ دنیا میں صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جو امن اور
سلامتی کی ضمانت دیتا ہے جو ہر سطح پر دہشت گردی اور تخریب کاری کی حوصلہ
شکنی کرتا ہے۔ آج بھی اسلام کی آفاقی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو دنیا امن
کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ اسلام کے حصار رحمت میں داخل ہو کر ہر ایک شخص اللہ
اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پناہ میں آ جاتا ہے اور اللہ
اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رحمت اسے روئے عافیت میں لے
لیتی ہے۔
نماز کے اختتامی کلمات اور دعا
مسلمانوں کی عبادات بھی امن اور سلامتی کی آئینہ دار ہیں، نماز افضل ترین
عبادت ہے۔ یہ انفرادی سطح پر بھی ایک فرد کے پر جوش اور مخالفانہ جذبات کو
اعتدال اور توازن کی راہ دکھا کر اس کے ذہنی دبا کو کم کرتی ہے، اجتماعی
سطح پر بھی نماز مسلمانوں کے اندر رواداری کے جذبات کو فروغ دیتی ہے اور
دوسرے کے مسائل کو سمجھنے کیلئے پانچ بار یقینی مواقع فراہم کرتی ہے۔ افراد
معاشرہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں اور یوں معاشرہ امن اور
سلامتی کا محافظ بن کر آسودہ لمحوں کو فرد کا مقدر بنا دیتا ہے۔ نماز کے
بعد جو دعا مانگی جاتی ہے وہ بھی امن اور سلامتی کی خوشبو سے معطر ہے۔ اے
اللہ تو سلام ( امن والا) ہے اور تیری طرف سے سلامتی ہے تو برکت والا ہے۔
اے جلال اور بزرگی والے (صحیح مسلم، 1 : 218)
ارشاد خداوندی ہے ........ بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے (آل عمران،
3 : 19)
گویا رب کائنات نے بنی نوع انسان کیلئے ایک ہی دین پسند کیا ہے اور وہ
اسلام ہے جو سراسر سلامتی، امن اور عافیت کا دین ہے۔
قرآن: کتاب امن
پیغمبر اسلام پیغمبر امن ہیں اور ان کا لایا ہوا دین، دین امن ہے تو لاریب
ان پر نازل ہونیوالا آخری الہامی صحیفہ قرآن مجید فرقان حمید بھی کتاب امن
ہے، یہ آسمانی ہدایت کی آخری دستاویز ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ
تعالی نے خود لے رکھی ہے۔ قیامت تک اس میں کوئی لفظی تحریف بھی ممکن نہیں۔
زیر زبر کے ردوبدل کی بھی کوئی جسارت نہیں کر سکتا، یہ قرآن کا اعجاز ہے۔
بنی نوع انسان کیلئے اس میں رحمت ہی رحمت ہے۔ سلامتی ہی سلامتی ہے۔ امن ہی
امن ہے اور عافیت ہی عافیت ہے۔ قرآن مجید نے رہتی دنیا تک اولاد آدم کو امن
اور سلامتی کی بشارت دی ہے۔ اس کتاب امن کو سراسر سلامتی اور امن والی رات
میں اتارا گیا۔
بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے اور آپ کیا سمجھتے ہیں(کہ)
شب قدر کیا ہے؟ شب قدر (فضیلت و برکت اور اجروثواب میں) ہزار مہینوں سے
بہتر ہے۔ اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے
(خیر و برکت کے ) ساتھ اترتے ہیں۔ یہ (رات) طلوع فجر تک (سراسر) سلامتی ہے۔
قرآن پاک میں جو ضابطے اور اصول دیئے گئے ہیں وہ سب کے سب دائمی نوعیت کے
ہیں، کسی خاص خطے کسی خاص قوم یا کسی خاص وقت کیلئے نہیں بلکہ بلا تفریق
رنگ و نسل یہ ہدایات اس کرہ ارضی پر بسنے والے تمام انسانوں کیلئے ہیں اور
اس کائنات رنگ و بو کے آخری دن تک کیلئے ہیں۔
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت پاک وہ مینارہ نور ہے جس کی
جھلملاتی روشنیوں کو اپنا پرچم بنا کر عازم سفر ہونے والے قافلے راہ عبودیت
میں بھٹکتے ہیں اور نہ گمراہ ہوتے ہیں، نہ ان کے پائے استقلال میں لغزش آتی
ہے، نہ ان کا ایمان متزلزل ہوتا ہے، نہ بادمخالف راستے کی دیوار بنتی ہے
اور نہ خوف شب خون ہی ان کے پاں کی زنجیر بنتا ہے۔ اپنے نصب العین سے غیر
مشروط لگن انہیں رواں دواں رکھتی ہے۔ منزلیں خود بڑھ کر ان مکرم مسافروں کے
تلوں کو بوسے دے کر اپنے اقبال کو سربلند کرتی ہیں۔ تمسکات انبیا و رسل کا
حرف اول بھی انہیں کی ذات ستودہ صفات اور حرف آخر بھی انہیں کا وجود مسعود،
تمام نبیوں کے وہی امام اور تمام رسولوں کے وہی سردار اور ہم غریبوں کے بھی
وہی ماوی و ملجی، جنہیں بعد ازخدا بڑگ توئی کی خلعت فاخرہ سے نوازا گیا اور
جن کے سراقدس پر ختم نبوت کا تاج سجایا گیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے جنہیں
چلتا پھرتا قرآن کہا کتاب دیدہ و دل کے ورق ورق پر انسانیت کے اس نجات
دہندہ کی سیرت لکھی ہوئی ہے۔ اسی معلم اعظم کے نقوش پا کے آثار حروف علم و
دانش کی سجدہ گاہ ٹھہرے۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہمہ
گیر شخصیت کے وسیلہ جلیلہ سے جو آفاقی تعلیمات اور الہامی ہدایات بنی نوع
انسان کو عطا ہوئیں وہ پوری انسانیت کیلئے ضابطہ امن قرار پائیں۔ حضور (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس کے قربان جائیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم) نے جو ارشاد فرمایا اسلام کی جن تعلیمات کو فروغ دیا خود ان پر
عمل کیا اور ان سے سرمو انحراف کی کوئی ایک بھی مثال قائم نہ ہو سکے۔ |