مارشل لائ۔۔۔ کیا ایک بار پھر دعوت

 ایک عجیب ماحول اور بے چینی ہے جس نے پورے ملک کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے اور اب تو میرے جیسے غیر ضروری طور پر خوش گمان بھی پریشان ہیں ۔ایسا نہیں ہے کہ یہ بے چینی اور بد انتظامی کسی اور ملک میں نہیں پائی جاتی لیکن ہمارے ملک کو اس نے بہت بری طرح اپنی لپٹ میں لے رکھا ہے۔بد امنی اور دہشت گردی تو اپنی جگہ اور اس کے ذمہ داروں کا تو تعین کرتے ہوئے نظریں دشمنوں کی طرف اٹھ جاتی ہیں لیکن بد انتظامی اور سیاسی بے چینی اور خیانتوں کا ذمہ دار کون ہے ؟اداروں کے ٹکرائو کا دوش کس کو دیا جائے عدلیہ ، مقننہ، انتظامیہ سب لرزہ براندام نظر آتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ایک میں کچھ دم خم ہو بھی تو دوسرا اسے نکالنے کے چکر میں نظر آتا ہے ۔صرف ا پنی دُکان چمکانے کی فکر ہے ،ملک ہاتھوں سے جاتا ہے تو جائے بلکہ اب تو ملک کی بات کرنے والا بیوقوف گردانا جا رہا ہے ۔دفتر ،سکول یا ہوٹل میں فالتو بتی بجھائیںتو داد جو ملتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ کون سا تم نے اپنی جیب سے بل دینا ہے۔یہ وہ رویہ ہے جو عوام اپنے حکمرانوں سے سیکھ رہے ہیں یا ان سے انتقام لینے کے لیے اپنا رہے ہیں۔ ایسے میں ہر درد دل رکھنے والے پاکستانی کا دل رو پڑتا ہے اور وہ کچھ کر سکنے کی خواہش کرتا ہے لیکن حکومت ہے کہ ہر صورت اپنے حال میں گم رہنے پر مصر ہے ۔ ایسے میں اسمبلی کے فلور پرایک بار پھر ماشل لائ کی باز گشت سنائی دی کہ کیا حالات پھر مارشل لائ کی طرف جا رہے ہیں۔ ایک اخباری خبر کے مطابق نون لیگ کے ایاز امیر اور خواجہ سعد رفیق نے دس جولائی کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اس خدشے کا اظہار کیا، جبکہ دوسری طرف شیخ رشید کو یہ گلہ ہے کہ فوج کیوں کچھ نہیں کر رہی اورعاصمہ جہانگیر کو یہ شکایت ہے کہ فوج پردے کے پیچھے سے سب کچھ کر رہی ہے ۔جب کہ کیا ہی اچھا ہو کہ ہمارے سیاستدان خود اپنی کوتاہیوں پر نظر کریں اپنی خامیاں تلاش کریں اور ان کو رفع کرنے کی تجویز کریں ۔لیکن وہ تجویز کرتے ہیں تو یہ کہ وہ عدالت سے ماورائ ہوں ،شہریت کسی اور ملک کی رکھیںاور حکومت اس بیچارے ملک پاکستان پر کریںجبکہ وہ یہ قسم کھا چکے ہوںکہ بحالت جنگ مابین پاکستان وامریکہ یا پاکستان وبرطانیہ آخرالذکرکے وفادا رہیں گے ۔ یہی لوگ جب حکومت میں ہوتے ہیں تو حالات کو اُس نہج پر لے آتے ہیں جس پر آج ہیں اور پھر خود ان اندیشوں کا اظہار شروع کردیتے ہیں جن کااظہار اب کیا جارہا ہے یعنی مارشل لَائ۔ مارشل لَائ یقینا اِن مسائل کا حل نہیں بس ایک وقتی بچائو ہوتا ہے جو کر لیا جاتا ہے۔ اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں، فوج کو بھی نہیں کہ فوج کا کام حکومت نہیں حفاظت ہے یعنی ملکی سرحدوں کی حفاظت لیکن چونکہ یہ فوجی بھی پاکستان کے عام شہری پہلے اور فوجی بعد میںبنتے ہیں اور دونوں صورتوں میں ملک کے بارے میں سوچنا ان کا حق ہے۔ لہذا یہ سوچنا کہ یہ حالات سے آنکھیںبند کرکے رکھیں گے کسی طرح ممکن نہیں اور پھر ایک غیر آیئنی اقدام کے طور پر فوجی حکومت آجاتی ہے۔بلکہ اب تو جب حالات حکومت کے قابومیں نہ آرہے ہوں تو عام لوگ یہی سنتے پائے جاتے ہیں کہ ایسی جمہوریت سے مارشل لائ بھلا ۔ اگر چہ میں ذاتی طور پر ہرگز اس کی قائل نہیں لیکن عوام کو اپنے روزمرہ مسائل کا حل چاہیے انہیں کھانے کو روٹی اور رہنے کو جگہ چاہیے آ ئین اور قانون تو ان کی سوچ سے بہت بالا تر چیز یں ہیں۔

پاکستان میں مارشل لائ کوئی انوکھی چیز نہیں ہے اور اکثر اوقات ایسے حالات پیدا کرنے کے ذمہ دار ہمارے سیاستدان ہوتے ہیں۔ تاہم اب کی بار باوجود ایک کرپٹ ترین حکومت ہونے کے فوج نے جس ضبط وتحمل کا ثبوت دیا ہے اور خود کو سیاست اور حکومت سے دور رکھا ہے وہ قابل تحسین ہے اور اگرجمہوریت اور یہ حکومت اتنا عرصہ چلی تو اس میں حکومت سے زیادہ فوج کا ہاتھ ہے جو کھلی آنکھوں سے حالات خراب ہوتے دیکھتی رہی لیکن اپنی ہی ذمہ داریوں سے عہدہ برائ ہوتی رہی اور حکومت کا کام سیاستدانوں کے لیے چھوڑے رکھا۔ ملک میں جو انار کی پھیلائی جارہی ہے اس کا نام حکومت نہیں اور نہ ہی یہ جو کچھ کیا جارہا ہے کسی طرح کی ملک دوستی ہے۔ جمہوریت کو جمہوریت کی طرح برتا جائے تو تب ہی یہ ایک بہتر طریقِ حکمرانی ہے اگر اسے آمریت بنادیا جائے تو عوام کی شخصیات میں دلچسپی بڑی قلیل المدت ہوتی ہے اور یہ سمجھنا کہ کوئی بھی انسان ناگزیرہے انتہائی حماقت ہے۔ موجودہ حکومت حالات کو خود سنبھالنے کی کوشش کرے تو یہ ملک و قوم کے حق میںزیادہ بہتر ہوگا اور موجودہ حالات کے لیے فوج یا کسی بھی دوسرے اِدارے کو موردِالزام ٹھہر انا بھی خود کو برالذمہ قرار دینے کی بس ناکام کوشش ہوگی۔ اب اسی بات کو لیجئے کہ بغیر ملکی حالات وضروریات کو مدِنظر رکھے اپنی من پسند قانون سازی کی جارہی ہے۔ اس بات کی ذرہ برابر پرواہ نہیں کہ اِس سب کچھ کا ملک پر کیا اثر پڑے گا۔ بس دھن یہی ہے کہ انتخابات وقت سے دو ماہ بھی پہلے نہ ہوں اور جب بھی ہوں ایک بار پھر جیت لیے جائیںجائز یا ناجائزکسی بھی طریقے سے۔ حال اپوزیشن کا بھی کچھ مختلف نہیں ان کا مطمح نظر بھی اگلی حکومت حاصل کرنا ہے نہ کہ خدمت اور نہ ہی اس نے موجودہ دورِ حکومت میں ایمانداری سے اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔

اگر آج کے حالات کا ایماندارنہ تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت ہے کہ منظر کچھ اچھا نہیں ہے لہذا یہ وقت انتہائی سمجھ داری کا مظاہرہ کرنے کا ہے ۔ سوال مارشل لائ یا نہ مارشل لائ کا نہیںہے بلکہ ملکی سا لمیت اور بقا کا ہے۔ فوج نے اب تک جس سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے ورنہ کئی ایسے مواقع آئے کہ یہی محسوس ہوا کہ اب صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹاکہ اب۔ اب اللہ کرے ایسا ہی ہو اور ملک میں جمہوریت چلتی رہے۔ فوج اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برائ ہوتی رہے اور سیاستدان اپنی ذمہ داریوں کو پہچان سکیں اور انہیں ادا کرنے لگ جائیں اور باقی اداروں کو اپنا کام کرنے دیں۔ حکومت بہر حال بالا دست ہوتی ہے اور عدلیہ، فوج، انتظامیہ جو بھی ادارہ اچھا کام کرے اسے عوامی سطح کے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے سراہاجانا چاہیئے۔شخصیات سے اختلاف کرنا چاہیں تو کریں لیکن اداروں سے نہیں۔ آرمی چیف، چیف جسٹس یا کسی دوسرے ادارے کا سربراہ تنقید سے ماورائ نہیں ہونا چاہیئے لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہر بد انتظامی اور مسئلے کی وجہ ان اداروں کو قرار دیا جائے اور حکومت بری الذمہ ہوجائے۔ بجائے الزامات کے، مسائل کی جڑتک پہنچ کر ملک کی حالت سنوارنے کی سنجیدہ کوشش اس کا اولین فرض ہونا چاہیئے کیونکہ عوام انہیں اسی لیے منتخب کرتے ہیں نہ کہ ان کی تجوریاں بھرنے اور نہ ہی خدانخواستہ ملک کی تباہی کے لیے۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو خودسے بڑھ کر اس ملک کی فکر کرنے کی توفیق دے اور ہمار ے ملک کی حفاظت کرے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552366 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.