بسنت \جشن بہاراں

بسنت کا تہوار آج کل ایک رسم کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے اور اس کو بہت ہی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔اگرچہ یہ تہوار پہلے بھی منایا جاتا تھا مگر گزشتہ چند سالوں سے اس کو سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے اور اس تہوار میں پتنگ بازی کے دوران دھاتی ڈور، کمیکل لگی ڈور،اور ہوائی فائرنگ سے درجنوں افراد ہر سال جاں بحق ہوجاتے ہیں۔اس کے باوجود یہ تہوار پابندی کے ساتھ منایا جاتا ہے۔اس کی تاریخ اور حقیقت کیا ہے ہم اس کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں

قدیم ہند کے زرعی معاشرے میں سال بھر کے عرصے کو چھ موسموں میں تقسیم کیا گیا تھا اور لوگوں کا سب سے دلپسند موسم تھا ’وسنت رِتو‘ــــ یعنی وہ موسم جب نہ تو اتنی سردی ہو کہ پھول پتوں پر کہرا جم جائے اور نہ اتنی گرمی کہ چیل انڈا چھوڑ دے۔اس کھلتے ہوئے خوشگوار موسم کا سواگت کرنے کے لئے ماگھ مہینے کی پانچ تاریخ کو ایک جشن کا اہتمام کیا جاتا جو کہ ’بسنت پنچمی‘ کہلاتا۔

یہ سلسلہ ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں اب بھی جاری ہے اور اس موقع پر اب دیگر رسوم ادا کرنے کے علاوہ علم و عرفان کی دیوی سرسوتی کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آج اس تہوار میں جو پتنگ بازی، ہلہ گلہ اور ڈھول تاشے بجائے جاتے ہیں ابتداء میں ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا، بلکہ اس کی شروعات اٹھارویں صدی کے آغاز میں ہوئی تھی اور اس کا ایک بہت ہی اہم پس منظر ہے۔

ذکریا خان گورنر پنجاب کے دور (1759-1709) میں میں سیالکوٹ کے ایک ہندو کھتری لڑکے حقیقت رائے دھرمی نے نبیٰ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے تھے اور مسلمانوں میں اشتعال پھیل گیا۔ اس گستاخی کا اسقدر سخت نوٹس لیا گیا کہ معاملہ عدالت تک جا پہنچا، اس کا کیس لاہور شفٹ کرلیا گیا عدالت نے اسے سزائے موت کا حکم سنایا۔ حقیقت رائے کی برادری نے پوری کوشش کی کہ اس کی سزا معاف ہوجائے مگر ایسا نہ ہوا اور اس بدبخت کو 1734ء میں سکھ نیشنل کالج کے گراؤنڈ واقع گھوڑے شاہ لاہور میں پھانسی دیدی گئی۔ حقیقت رائے کی سسرال سکھ برادی میں تھی اس لیے سکھ برادری کو بھی اس واقعے کا شدید غم تھا اور سکھوں کی خالصہ کمیونٹی نے ہندوں کے ساتھ مل کر ان تمام مسلمانوں کو قتل کر کے لیا جو کہ کسی نہ کسی طرح اس گستاخ کو پھانسی دلانے میں شامل تھے۔مسلمانوں کو قتل کرنے کے بعد ہر سال حقیقت رائے کی برسی پر ہندوئوں اور سکھوں کی جانب سے اس کی یاد میں میلہ منعقد کیا جانے لگا۔اور یہ میلہ اس کی سمادھی واقع کوٹ خواجہ سعید لاہور جو کہ آج بھی بابے کی مڑھی کے نام سے مشہور ہے یہاں منایا جانے لگا،اس میں مرد اور عورتیں زرد رنگ کی پگڑیاں اور کپڑے پہن کر شریک ہوتے تھے اور مسلمانوں سے انتقام کی خوشی میں خوب جشن مناتے اور پتنگیں اڑاتے تھے۔ یہی رویات ڈاکٹر بی ایس مور نے اپنی کتاب Punjab under Mughals میں تحریر کی ہے (بعض روایات کے مطابق جس دن اس کو پھانسی دی جانی تھی اسی دن اس کی برادری نے اس کو خراج تحسین پیش کرنے اور اس کو حوصلہ بڑھانے کے لیے ایک میلہ کا اہتمام کیا اور اس میں مرد و عورتوں نے زرد رنگ کےکپڑے پہنے اور ڈھول تاشوں کے ساتھ پتنگیںبھی اڑائیں،اور اس کے بعد ہر سال یہ میلہ منعقد کیا جانے لگا)۔اور یہیں سے بسنت اور پتنگ کا آپس میں تعلق قائم ہوگیا۔اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ سادہ سے تہوار جو کہ صرف دیہاتوںمیں منایا جاتا تھا اس کو پوری پلاننگ کے ساتھ پورے پنجاب اور بالخصوص لاہور میں پھیلایا گیا،اور اب اسکی وسعت پورے پاکستان تک ہوگئی ہے۔

جو لوگ اس فضول رسم کو زور و شور سے مناتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں اور اس کو جشن بہاراں کہتے ہیں ان کو یہ بات ضرور سوچنی چاہیے کہ ہم بغیر سوچے سمجھے ایک ایسی رسم ادا کرتے ہیں جو کہ ایک گستاخ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں منائی جاتی ہے، کیا اس طرح ہم بھی نعوذ باللہ کہیں اس کے اس جرم میں شریک تو نہیں ہوجاتے؟

یہ تو اس کا ایک تاریخی پس منظر تھا اب اگر ہم اس کے نقصانات پر غور کریں تو ہولناک حقائق سامنے آتے ہیں-۔بسنت یا جشن بہاراں کے دوران پورے پنجاب اور بالخصوص لاہور میں بے تحاشہ ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ ہم مختصراً ایک جائزہ پیش کریں گے جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ یہ فضول رسم کس قدر نقصان دہ ہے۔

اخباری رپورٹز کے مطابق سال دوہزا چار میں بسنت کے دوران انیس افراد ہلاک اور دو سو سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔سال دو ہزار پانچ میں بائیس افراد ہلاک اور پانچ سو سے زائد زخمی، دو ہزار چھ میں چھبیس افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی اور ہلاک شدگان میں ایک ڈیڑھ سالہ اور ایک چار سالہ بچہ بھی شامل ہیں جوکہ اپنے والدین کے ساتھ موٹر سائیکل پر جارہے تھے کہ کیمکل والی قاتل ڈور نے ان کا گلا کاٹ کر ان کو ذبح کردیا،سال دو ہزار سات میں بائیس افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے،اس میں تین سگی بہنیں بھی شامل ہیں جن کے والدین گھر میں موجود نہیں تھے اور بسنت کے دور دھاتی ڈور کے باعث ٹرانسفارمر ٹرپ ہونے کے بعد علاقے کی بجلی منقطع ہوگئی تھی اور ان بچوں کے والدین گھر میں ایک موم بتی جلتی ہوئی چھوڑ کر کسی کام سے باہر گئے تو اس دوران موم بتی ان بچوں کے بستر پر گر گئی اور اس نے آگ پکڑ لی جس کے باعث یہ تین بچیاں ہلاک ہوئیں،اگرچہ یہ واقعہ براہ راست بسنت سے متعلق نہیں ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو ٹرانسفارمر دھاتی ڈور کی وجہ سے ٹرپ ہوا تھا اس لیے یہ ہلاکتیں بھی بسنت منانے والوں کے ذمہ ہیں۔

مندرجہ بالا ہلاکتیں کیمکل لگی ڈور گلے پر پھرنے،دھاتی ڈور کے باعث کرنٹ لگنے اور پتنگ لوٹنے کے دوران روڈ ایکسیڈنٹ کے باعث ہوئی ہیں۔سال دوہزار آٹھ میں محترمہ بے نظیر کی ہلاکت اور الیکشن کئی باعث یہ خونی تہوار باقاعدہ نہیں منایا جاسکا تھا اس لیے کوئی قابل ذکر ہلاکتیں بھی نہیں رپورٹ ہوئیں۔

پنجاب بھر میں بسنت کے تہوار کے دوران ٹرانسفارمرز ٹرپ ہونے کے باعث بجلی کی آنکھ مچولی جاری رہتی ہے اور اس دوران لاکھوں روپے کے قیمت برقی آلات جل جاتے ہیں اور اس کے باعث عوام کو مزید نقصان اٹھانا پڑتا ہے

سوچنے کی بات ہے کہ ایک ایسا فضول تہوار کہ جس کا پس منظر بھی گھناؤنا ہے اور جس میں چند دنوں میں عوام کروڑوں روپے ہوا میں اڑا دیتے ہیں اور ان سب کے ساتھ ساتھ قیمتی انسانی جانوں کا بھی ضیاع ہوتا ہے تو ایسی لاحاصل رسم کو منانے کا کیا فائدہ ہے۔اگرچہ لوگ اس کے خلاف احتجاج بھی کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً عدالتیں اس کے خلاف پابندی بھی عائد کرتی ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی پابندی اس وقت تک موثر نہیں ہوسکتی جب تک کہ عوام خود اس سے لاتعلقی کا اعلان نہ کردیں۔اور ان کی خدمت میں یہی عرض کریں گے کہ ،ع منائو جشن بہاراں اس عزم کے ساتھ - کسی چراغ کی لو سے کسی کا گھر نہ جلے ہیں
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520056 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More