گمنامی کی موت

گمنامی کی موت اور خیرات میں ملنے والا کفن نہیں چاہتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی کے اکسٹھ سال یہاں غیروں کی طرح گزار دیئے، زندگی کی سانسیں ٹوٹنے والی ہیں اور میں خیرات میں ملنے ولا کفن نہیں پہننا چاہتا یہ الفاظ تھے ستر سالہ محمد یسین کے جو قیام پاکستان کے وقت آٹھ سال کی عمر میں اپنے تایا زاد کا بازو پکڑے آزاد وطن کے تصور سے نا آشنا بٹوارے کی لیکر کو عبور کرکے پاکستان آیا اور پھر یہی کا ہو کررہ گیا۔

گلبرگ کے علاقہ گاندھی پارک کی گلیوں میں بے یارو مددگار گھومتا یہ شخص یہی ایک آدھ مرلے کے سٹور میں جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہا ہے۔” اکسٹھ سالوں میں کیا کمایا“ اس سوال کے جواب میں آنسوں سے تر آنکھوں کیساتھ محمد یسین نے ایک ٹوٹی پھوٹی چارپائی اور چند جوڑے پرانے کپڑے سامنے کر دیئے۔ محمد یسین نے ایکسپریس کو بتایا کہ جب وہ اپنے کزن کیساتھ یہاں آیا تو اسے نہیں معلوم تھا کہ پاکستان کیا ہے اور وہ لوگ کیوں وہاں جارہے ہیں، ہم لوگ ہشیار پور کے رہنے والے تھے لیکن میں اپنے کزن کیساتھ دہلی میں تھا جہاں وہ لوگ فروٹ کا کاروبار کرتے تھے۔ تقسیم ہند کے اعلان کیساتھ ہی ہمیں پاکستان آنیوالے قافلے کیساتھ پاکستان بھیج دیا گیا، حالات اس طرح کے تھے کہ ہم لوگ اپنے ماں باپ کے پاس نہیں جاسکتے تھے۔ اس کے بعد نہ ماں باپ ملے اور نہ ہی بہن بھائی۔ محمد یسین نے بتایا کہ اب اس کی صرف ایک بہن زندہ ہے تاہم دیگر رشتہ داروں کی کافی تعداد اب ہشیار پور میں موجود ہے ۔محمد یسین نے کہا کہ وہ اپنے رشتہ داروں کو دوبار ملنے جا چکا ہے ۔وہ لوگ اصرار کرتے ہیں کہ میں اب ان کے پاس ہی رہوں ۔ محمد یسین نے مزید بتایا کہ اس نے یہاں محنت مزدوری کر کے ایک مکان بنایا تھا جس پر ایک مقامی با اثر شخص نے قبضہ کرلیا۔ ہمارا یہاں کوئی رشتہ دار تو تھا نہیں اس لئے شادی بھی نہ ہوسکی۔ اب چونکہ میں بیمار رہتا ہوں لیکن یہاں دوائی دارو توایک طرف کوئی روٹی کھلانے والا بھی نہیں، میں نہیں چاہتا کھ میں اسی کباڑ خانے میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجاؤں اور مجھے خیرات کا کفن پہنایا جائے۔ اس نے کہا کہ اس کی حکومت سے اپیل ہے کہ اسی اپنے زندگی کی آخری سانسیں اپنے رشتہ داروں کے پاس گزارنے کے لئے اسے مستقل طور پر بھارت جانے کی اجازت دی جائے
Asif Faraz
About the Author: Asif Faraz Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.