رمضان المبارک کو پانے کی خواہش:
سب سے پہلا معمول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
رمضان المبارک کی آمد سے کئی ایام پہلے سے ہی اس کے پانے کی دعا کرتے رہتے
چنانچہ امام طبرانی کی اوسط میں اور مسند بزار میں ہے جیسے ہی رجب کا چاند
طلوع ہوتا تو آپ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعاء کرتے ’’اَللّٰہُمَّ بَارِکْ
لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَانَ‘‘ اے اللہ ہمارے
لئے رجب و شعبان با برکت بنا دے اور ہمیں رمضان نصیب فرما۔
آمد رمضان پر مخصوص دعاء کا معمول:
جب رمضان المبارک شروع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی
بارگاہِ اقدس میں مخصوص دعاء کیا کرتے ۔
کَانَ یَقُوْلُ اِذَا دَخَلَ شَہْرُ رَمَضَانُ اَللّٰہُمَّ سَلِّمْنِیْ مِنْ
رَمَضَانَ وَ سَلِّمْ رَمَضَانَ لِیْ وَ سَلِّمْہُ مِنِّی جب رمضان شروع ہو
جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعاء کیا کرتے اے اللہ مجھے رمضان کے لئے
سلامتی (صحت و تندرستی) عطا فرما اور میرے لئے رمضان (کے اول و آخر کو بادل
و غیرہ سے ) محفوظ فرما اور مجھے اس میں اپنی نافرمانی سے محفوظ فرما۔
رنگِ مبارک فق ہو جاتا:
جب رمضان المبارک آتا تو اس خوف کے پیشِ نظر کہ کہیں کسی مشکل کی وجہ سے اس
میں حقِ عبودیت میں کمی نہ ہو جائے ، آپ کا رنگِ مبارک فق ہو جاتا، ام
المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت تھی ’’اِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ تَغَیَّرَ
لَوْنُہٗ‘‘ جب رمضان المبارک شروع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ فق
ہو جاتا۔
اس کی حکمت امام منادی نے ان الفاظ میں بیان کی ہے ’’خَشْیَۃً مِّنْ اَنْ
یَّعْرِضَ لَہٗ فِیْہِ مَا یُقَصِّرُ عَنِ الْوَفَائِ بِحَقِّ
الْعُبُوْدِیَۃِ فِیْہِ‘‘ اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں کوئی ایسا عارضہ لاحق نہ
ہو جائے جس کی وجہ سے اس میں حقِ عبودیت میں کمی واقع ہوجائے ۔ (فیض القدیر
۵/۱۳۲)
د رمضان پر صحابہ کو مبارک باد دیتے :
جب یہ مقدس و مبارک ماہ اپنی رحمتوں کے ساتھ سایہ فگن ہوتا تو آپ صلی اللہ
علیہ وسلم اپنے صحابہ کو اس کی آمد کی مبارک باد دیتے ، امام احمد اور امام
نسائی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ کا مبارک معمول ان الفاظ
میں نقل کیا ہے ’’کَانَ النَّبِیُّ ا یُبَشِّرُ اَصْحَابَہٗ یَقُوْلُ
جَائَکُمْ شَہْرُ رَمَضَانُ شَہْرٌ مُّبَارَکٌ کَتَبَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ
صِیَامَہٗ تُفْتَحُ فِیْہِ اَبْوَابُ الْجِنَانِ وَ تُغْلَقُ فِیْہِ
اَبْوَابُ الْجَحِیْمِ وَ تُغَلَقُ فِیْہِ الشَّیَاطِیْنُ فِیْہِ لَیْلَۃٌ
خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ مَّنْ حَرُمَ خَیْرَہَا فَقَدْ حَرُمَ‘‘ حضور
صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو یہ کہتے ہوئے مبارک باد دیتے کہ تم پر
رمضان کا مہینہ آیا ہے جو نہایت با برکت ہے ، اس کے روزے تم پر اللہ نے فرض
فرمائے ہیں ، اس میں جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے
بند کر دئے جاتے ہیں ، شیطانوں کو باندھ دیا جاتا ہے ، اس میں ایک رات ہے
جو ہزار مہینوں سے افضل ہے ، جو اس سے محروم ہو گیا وہ محروم ہی رہے گا۔
امام جلال الدین سیوطی اور شیخ ابن رجب کہتے ہیں مسئلہ مبارکباد کے لئے یہ
حدیث بنیاد ہے ’’ہٰذَا الْحَدِیْثُ اَصْلٌ فِیْ تَھْنِیَۃِ شَہْرِ
رَمَضَانَ‘‘ رمضان المبارک کی مبارک باد پیش کرنے پر یہ حدیث اصل ہے ۔
(الحاوی للفتاویٰ، ۱!۱۹۳)
وہ ماہ مومن کے لئے کیوں مبارکباد کا سبب نہ ہو گا جس میں جنت کے دروازے
کھل جائیں ، شیطان پر پابندی لگ جائے اور دوزخ کے دروازے بند کر دئے جائیں
رمضان المبارک کو خوش آمدید کہتے :
صحابہ کو مبارک باد اور ان پر اس کی اہمیت واضح کرنے کے ساتھ ساتھ رمضان
المبارک کو خوش آمدید فرماتے ، کنز العمال اور مجمع الزوائد میں ہے ، آپ ا
فرماتے ’’اَتَاکُمْ رَمَضَانُ سَیِّدُ الشُّہُوْرِ فَمَرْحَباً وَّ
اَہْلاً‘‘ لوگو! تمہارے پاس رمضان تمام مہینوں کا سردار آ گیا، ہم اسے خوش
آمدید کہتے ہیں ۔ (مجمع الزوائد، ۳/۱۴۰)
آمدِ رمضان پر خطبہ ارشاد فرماتے :
جس دن رمضان المبارک کا چاند طلوع ہونے کی امید ہوتی اور شعبان کا آخری دن
ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں صحابہ کرام کو جمع فرما کر
خطبہ ارشاد فرماتے جس میں رمضان المبارک کے فضائل و وظائف اور اہمیت کو
اجاگر فرماتے تاکہ اس کے شب و روز سے خوب فائدہ اٹھایا جائے اور اس میں
غفلت ہرگز نہ برتی جائے ، اس کے ایک ایک لمحہ کو غنیمت جانا جائے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے اس اہم معمول کو اپنے ان
الفاظ میں بیان کیا ہے ’’لَمَّا حَضَرَ رَمَضَانُ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ا
قَدْ جَائَکُمْ رَمَضَانُ شَہْرٌ مُّبَارَکٌ‘‘ جب رمضان المبارک کا ماہ آتا
تو آپ فرمایا کرتے تمہارے پاس ایک مقدس ماہ کی آمد ہو گئی ہے ۔ (مسند احمد،
۳/۱۵۸)
استقبالیہ خطبہ کی تفصیل:
کتبِ احادیث میں رمضان المبارک کی آمد کے موقعہ پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم
ا کے فرمودہ خطبہ کی تفصیل بھی ملتی ہے جسے ہم نقل کر دیتے ہیں ۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ا کرم ا نے ہم کو
شعبان کے آخری دن خطبہ دیا، فرمایا اے لوگو!
٭ ایک بہت ہی مبارک ماہ تم پر سایہ فگن ہونے والا ہے ۔
٭اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض اور رات کے قیام کو نفل قرار دیا ہے ۔
٭جو شخص کسی نیکی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف قرب چاہے اس کو اس قدر ثواب
ہوتا ہے گویا اس نے دوسرے ماہ میں فرض ادا کیا۔
٭جس نے رمضان میں فرض ادا کیا اس کا ثواب اس قدر ہے گویا اس نے رمضان
کےعلاوہ دوسرے مہینوں میں ستر فرض ادا کئے ۔
٭وہ صبر کا مہینہ ہے ، اور صبر کا ثواب جنت ہے ۔
٭ وہ لوگوں کے ساتھ غمخواری کا مہینہ ہے ۔
٭ اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑ ھا دیا جاتا ہے ۔
٭جو اس میں کسی روزہ دار کو افطار کرائے اس کے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں
اور اس کی
گردن آگ سے آزاد کر دی جاتی ہے اور اس کو بھی اسی قدر ثواب ملتا ہے اس سے
روزہ دار کے ثواب میں کچھ کمی نہیں آتی۔
اس پر صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم میں سے
ہر ایک میں یہ طاقت کہاں کہ روزہ دار کو سیر کر کے کھلائیں ۔ اس پر آپ ا نے
فرمایا یہ ثواب تو اللہ اسے بھی عطا فرمائے گا جو ایک کھجور یا گھونٹ پانی
یا ایک گھونٹ دودھ پلا دے ۔
٭یہ ایسا مہینہ ہے جس کا اول رحمت ہے ، اس کے درمیان میں بخشش ہے اور اس کے
آخر میں آگ سے آزادی ہے ۔
٭جو شخص اس میں اپنے غلام کا بوجھ ہلکا کرے اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے
اور آگ سے آزاد کر دیتا ہے ۔
٭چار چیزوں کی اس میں کثرت کرو، ان میں دو ایسی ہیں جن سے تم اپنے رب کو
راضی کر سکتے ہو اور دو ایسی ہیں جن کے بغیر تمہارا گزارا نہیں ہو سکتا۔وہ
دو چیزیں جن سے اپنے رب کو راضی کرو، کلمہ کا ذکر اور استغفار و توبہ اور
وہ دو چیزیں جن کے بغیر بخشش نہیں اللہ تعالیٰ سے جنت مانگو اور دوزخ سے اس
کے دامنِ رحمت کی پناہ مانگو۔
٭جس نے کسی روزہ دار کو کو افطاری کے وقت پانی پلایا اللہ تعالیٰ (روزِ
قیامت) میرے حوضِ کوثر سے اسے وہ پانی پلائے گا جس کے بعد دخولِ جنت تک
پیاس نہیں لگے گی۔ |