آج ہم گناہوں سے آلودہ زندگیاں
بسر کر رہے ہیں۔ انسان کا من پہلے ہی آلودہ تھا، اخبارات، رسائل، کیبل اور
موبائل فون نے رہی سہی کسر نکال دی۔ شیطان جو وسوسے، تراکیبیں اور شرارتیں
انسان کے دلوں میں گمراہ کرنے کے لیے ڈالتا تھا، ان ذرائع ابلاغ نے ان سب
کو قابل عمل بنا کر ایک مسلمان کے لیے بچنے کے سارے راستے بند کر دئےے
ہیں۔یہ ذرائع خود برے نہیں البتہ انسان کے اندر چھپی ہوئی برائی کی کشش ان
ذرائع کے غلط استعمال سے برائیوں کا عام کر رہی ہے اور برائی کرنا آسان تر
ہو گیا ہے۔ انہی ذرائع کو استعمال کرکے لوگ دین کی دعوت بھی عام کر رہے ہیں
اور اصلاح معاشرے کا کام بھی لے رہے ہیں۔اس موقعہ پر صرف یہی عرض کرنا ہے
کہ اس ماہ مبارک سے کیسے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔
اس مہینے کی اہمیت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب
ہدایت قرآن کو اس ماہ مبارک میںنازل فرمایا گیا۔جو پوری انسانیت کے لیے
ہدایت اور راہنمائی کا سرچشمہ ہے۔اس ماہ کے آخری عشرے میں اللہ تعالیٰ نے
لیلةا لقدر بھی چھپارکھی ہے،جس ایک رات کی عبادت ہزار سالوں کی عبادت سے
افضل قرار دی گئی ہے۔یہ مہینہ ایک طرح سے نیکیوں کی لوٹ سیل کا مہینہ ہے۔
جب اللہ تعالیٰ ایک نیکی کے بجائے ستر نیکیوں کا اجر عطا فرماتے ہیں۔اس
مہینے کے روزے فرض کرتے ہوئے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اس طرح
مخاطب فرمایا ہے ” اے ایمان والو! تم پر رمضان کے روزے فرض کیے گئے ہیں، جس
طرح سابقہ امتوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیارکرسکو“۔حضور نبی
اکرم ﷺ نے اس ماہ مبارک کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جو مسلمان اپنے
والدین کو بڑھاپے میں پائے اور اپنی زندگی میں رمضان کا مہینہ پائے اور ان
سے مستفید نہ ہوسکے، اس سے زیادہ بدقسمت اور نااہل انسان کوئی نہیں
ہوسکتا۔رمضان میں ہی قرآن نازل فرما کر اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کی بنیاد
رکھی، اسی ماہ میں معرکہ بدر برپا فرما کر مسلمان کو پہلی فتح نصیب فرمائی
اور اسی ماہ مبارک میں فتح مکہ کی نوید سنا کر ایک عالمگیر اسلامی معاشرے
کی بھی بنیاد رکھی گئی اور دنیا بھر میں اسلام کے غلبے اور بالا دستی کا
پیغام دیا گیا۔ فتح مکہ کی بناءپر اس کائنات پر اللہ تعالیٰ کے پہلے گھر
خانہ کعبہ کو مشرکوں کے قبضے سے واگزار کیا گیا۔یہ ماہ مبارک مسلمانوں کو
انفرادی اصلاح حاصل کرنے اور اس تزکیہ سے حاصل قوت کے ذریعے انسانیت کو ہر
طرح کی غلامی، گمراہی اور بے بسی سے نجات دلاکر اسلام کے دامن عافیت
میںپناہ دینے کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے تیار کرنا ہے۔غزوہ بدر اور فتح مکہ
کے واقعات کا رمضان المبارک کے ماہ میں رونما ہونا اس طرف امت کی راہنمائی
کرتا ہے۔
مسلمان کی اصل قوت اس کا ایمان ہوتا ہے ، جو تقویٰ اختیارکرنے سے حاصل ہوتا
ہے۔ جب انسان اپنے نفس کو ہر طرح کی برائیوں سے پاک کرکے اپنے رب کے لیے
مخلص ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ جب وہ اپنے رب کے اتنے قریب ہوجاتا ہے کہ وہ
رب کے علاوہ نہ کسی کی عبادت کرتا ہے، اپنے رب کے دئےے ہوئے قانون (قرآن و
سنت ) کے علاوہ کسی قانون کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے، جب وہ اپنے
رب کے علاوہ کسی سے محبت اور عقیدت نہیں رکھتا ، جب وہ اپنے رب کے علاوہ
کسی سے خوف نہیں کھاتا اور جب وہ اپنے رب کے علاوہ کسی کو حاکم، فرمانرواہ،
مقتدر اعلیٰ تسلیم نہیں کرتا بلکہ وہ صرف اور صرف اپنے رب کی بات کو ہی
مانتا ہے اور رب کے علاوہ ہر ایک خدا، حاکم، مقتدر اعلیٰ کا کھلا انکار
کرتا ہے۔ یہ قوت اسے تقویٰ اور قرب الہی سے حاصل ہوتی ہے۔اس کے دل سے رب کے
علاوہ ساری عقیدتیں، محبتیں اور خوف حرف غلط کی طرح نکل جاتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس درجے کا تقویٰ کیسے حاصل ہو۔ اس ماہ مبارک میں
مسلمانوں کے اندر اسی درجے کا تقویٰ اور قرب الہی حاصل کرنے کی پریکٹس
کروائی جاتی ہے کہ وہ دنیا کی دیگر تمام آلائشوں سے پاک ہو کر اپنے رب کا
قرب حاصل کرسکے۔ قرب الہی حاصل کرنے کے لیے رمضان المبارک میں سب سے پہلا
کام جو فرض کیا گیا ہے وہ دن کو روزہ رکھنا ہے۔ روزہ ایک ایسا عمل ہے جو
انسان اور اس کے رب کے درمیان ہی ہوتا ہے۔ انسان مواقعہ دستیاب ہونے کے
باوجود خود کو کھانے، پینے اور نفسانی خواہشات سے محفوظ رکھے۔ جب کوئی
انسان اس درجے کی احتیاط کرلے کہ پوری احتیاط سے بھوک اور پیاس برداشت کرے
اور کسی بھی طور خیانت نہ کرے تو اس کے نتیجے میں اس کے اندر تقویٰ کا بیج
پروان چڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ جب تقویٰ کیفیت انسان اپنے اندر محسوس کرنے
لگے تو پھر وہ اسے تلاوت قرآن اور اس کے ترجمے و تفسیر سے اس بیج کی آبیاری
کرنے لگے۔ روزے کے دوران اور رمضان کی راتوںمیں جو انسان قرآن سے اپنا تعلق
قائم کرے گا، اس پر قرآن کریم نت نئے انکشافات کرتا ہوا نظر آئے گا۔ اس کے
اندر کی کیفیت تبدیل ہوتی جائے گی اور وہ براہ راست خدا کے کتاب سے کسب فیض
کر رہا ہوگا۔ ایسے میں وہ ہدایت کے وہ سارے راز پالے گا، جو اسے انفرادی
اور اجتماعی طور پر ترقی اور کامرانی کے لیے مطلوب ہیں۔بدقسمتی سے ہم
مسلمانوں نے قرآن کو ہدایت کے بجائے صرف برکت کی کتاب بنا لیا ہے۔ یہ پہلے
ہدایت اور راہنمائی کے لیے ہے اور بعد میں اس سے ہزار ہا رحمتیں اور برکتیں
بھی حاصل کی جاسکتی ہیں۔اسی طرح رمضان میں راتوں کو قیام کرنے، تراویح
پڑہنے اور رات کے آخری پہر میں اللہ سے لو لگانے سے انسان کی دل پر لگا ہوا
سارازنگ اتر جاتا ہے ۔ دل کی ویرانی نور میں تبدیل ہو جاتی ہے۔قرآن سے دلوں
کو منور کرنے کے لیے لازم ہے کہ اس پر کامل ایمان لایا جائے، اس کی ہر بات
کو مانا جائے اور جن کاموں سے اس نے روکا ہے، ان سے رکنے کا عزم کیا جائے۔
رمضان کا مہینہ صبرسے عبارت ہے۔ جس طرح بھوک، پیاس اور نفسانی خواہشات پر
انسان دن کے وقت صبر کرکے روزہ دار کہلاتا ہے اسی طرح اس ماہ مبارک میں ہر
طرح کی برائیوں، گمراہیوں اور لغویات سے پرہیز کرکے ہی انسان اس ماہ کی
برکات سے مستفید ہو سکتا ہے۔ اگر انسان روزہ رکھ کر فرقہ واریت کو بھی فروغ
دے، لسانیت اور نسلیت کو بھی اولیت دیتا رہے، جھوٹ، غیبت، چوری، رشوت اور
چور بازاری بھی جاری رکھے تو وہ روزہ دار نہیں کہلا سکتا بلکہ وہ محض بھو ک
اور پیاس کی اذیت ہی برداشت کر رہا ہے، اس کے نامہ اعمال میں کچھ بھی اضافہ
نہیں ہورہا۔ ماہ مبارک سے فائدہ اٹھانے کے لیے صبر کا دامن ہمیشہ پکڑے
رکھنا ہے۔ اپنی زبان، اپنے ہاتھ، اپنے دل و دماغ ، اپنے روئےے، اپنی اپروچ
اور کام کاروبار ہر ایک میں انصاف اور صبر سے کام لینے سے ہی انسان رمضان
کی برکات سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے۔
رمضان کو چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے نیکیاں کمانے کا ذریعہ
قرار دیا ہے۔ اس ماہ کے دوران جہاں بدنی عبادات کا اجر سال کے دو سرے
مہینوں سے ستر گنا زیادہ ہے ، اسی طرح مالی ایثار کا اجر بھی اسی اعتبار سے
سترگنا قرار دیا گیا ہے۔ رمضان المبارک کے دوران بھوک اور پیاس سے انسان کے
اندر غریب اور بے سہارا انسانوں کی مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس جذبے کو
ممیز دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس ماہ مبارک میں مالی ایثار کا بھی ستر
گنا اجر رکھا ہے۔ ضرورت مندوں کی حاجت پوری کرنے، روزہ داروں کو افطاری
کروانے ،یتیموں اور بے سہارا انسانوں کا سہارا بننے کا اجر بھی ستر گنا
زیادہ رکھا گیا ہے۔
الحمد اللہ ہمارے ہاں رمضان کے روزے رکھنے کا رجحان تو موجود ہے لیکن رمضان
کے ماہ مبارک سے بھرپور استفادہ کرنے کی وہ جدوجہد اور بھاگ دوڑ نظر نہیں
آتی۔ اگر ہم تھوڑی سی کوشش کرکے اس ماہ کی برکات سے آگاہی حاصل کرلیں تو
پھر کوئی بھی صاحب فہم انسان اس موقعہ کو ضائع نہیں کرے گا۔ رمضان کے بارے
میں لٹریچر عام بک سٹالوں سے بھی مل جاتا ہے اور مذہبی جماعتوں کے کارکنان
بھی بڑے مفید اور معلوماتی کتابچے مفت تقسیم کررہے ہوتے ہیں۔ روزہ کے حقیقت
اور مقاصد جاننے کے لیے سید ابواعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ کا کتابچہ ”روزہ“
اور اس ماہ مبارک سے استفادہ کرنے کے لیے محترم خرم مراد ؒ کا کتابچہ ”ہم
رمضان کیسے گزاریں“ کا مطالعہ بہت مفید رہے گا۔
آخر ی سطور میں یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ موجودہ دور میں اپنے روزے کو
محفوظ رکھنے کے لیے سب سے زیادہ احتیاط اپنی آنکھوں ، کانوں اور زبان کے
استعمال میں کرنا ہوگی۔ آج ہماری نگاہوں کو وہ سب کچھ دیکھنے کو ملتا ہے،
جو ایک صاحب ایمان کے لیے قابل برداشت نہیں، یہ فرعونی کلچر کا حصہ ہے اور
بدقسمتی سے ہم سب اس فرعونی کلچر کو تقریبا اپنا چکے ہیں۔ اس لیے آنکھوں کی
حفاظت پہلی شرط ہے اور دوسری اپنے کانوں کو لغویات (گانے، گالیوں، نغموں ،
غیبت اور فضول گفتگو) سے محفوظ رکھنا اور تیسری شرط اپنی زبان کو لغویات،
غیبت ،جھوٹ اور بدزبانی سے محفوظ رکھنا ہے۔ جو انسان ان تین چیزوں کی
پابندی کرلے گا وہ رمضان المبارک کی برکات سے استفادہ کرنے کی صلاحیت پیدا
کرسکتا ہے اور جو انسان یہ تین کام نہ کرسکے وہ رمضان المبارک کی برکات سے
اپنے لیے کوئی امید نہ رکھے۔ جو لوگ اس ماہ مبارک کو اپنی زندگی میں پانے
کی سعادت حاصل کر رہے ہیں، یہ ان کے لیے سنہری موقعہ ہے کہ وہ پوری تیاری
سے رمضان کے ایک، ایک لمحے ار استعمال میں لاکراپنے لیے خیرو برکت جمع
کریں۔ اپنے ایمان کو تازہ کریں، اس کی حلاوت اور مٹھاس کو محسوس کریں۔ دل
کی ویرانی کو قرآن اور روزے کے نور سے منور کریں اور اس ایمانی قوت سے سارا
سال اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرنے کی قوت پائیں اور اسی ایمانی قوت سے عالمی
استعمار کے شکنجے سے انسانیت کو نجات دلانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحتیں
صرف کریں تاکہ کرہ ارض کو ظلم و ستم سے نجات دلا کر انسانوں کو امن و اخوت
کا آزادانہ اور منصفانہ ماحول فراہم کیا جا سکے۔ اس دعا کے ساتھ رمضان
المبارک کا استقبال کیجیے کہ اے اللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہ مبارک سے استفادہ
کرنے کی ہمت اور توفیق عطاءفرمائے۔ |