یہ تو حضرت کی شجاعت کا مختصر سا
بیان تھا اب اصطفا کی دوسری شرط کو لیجئے یعنی علم۔ اس کا حال بھی سن لیجئے
سوائے امیرالمومنین علیہ السلام کس کے علم میں یہ زور تھا کہ منبر رسول پر
بیٹھ کر دعوی کرسکے :
"سلونِی قبل ان تفقِدونِی"۔پوچھ لو مجھ سے جو کچھ پوچھنا چاہو قبل اس کے کہ
تم مجھے نہ پا"۔
پھر فرمایا: واللہ! اگر میرے لئے مسند حکومت بچھا دی جائے اور میں اس پر
بٹھا دیا جاں تو میں اہل توریت کے درمیان توریت سے حکم کروں گا اور اہل
زبور کے درمیان زبور سے اور اہل انجیل کے درمیان انجیل سے اور اہل قرآن کے
درمیان قرآن سے یہاں تک کہ ہر کتاب اپنی زبان سے بول اٹھے گی کہ علی نے
میرے بارے میں وہی فیصلہ کیا ہے جو خدائی فیصلہ ہے۔
ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک شب حضرت علی نے مجھ سے سورہ فاتحہ کی تفسیر
بیان کی یہاں تک کہ صبح نمودار ہوئی۔ آپ نے فرمایا اے ابن عباس اگر رات اور
طولانی ہوتی تو میں اسی طرح بیان کرتا رہتا:
لوشِئت لا وقرت سبعِین بعیرامِن تفسِیرِفاتِحِ الکِتابِ۔
"اگر میں چاہوں تو تفسیر سورہ فاتحہ سے سو اونٹ لاددوں"۔
اے ابن عباس! آگاہ ہوکہ جو کچھ تمام قرآن میں ہے وہ سورہ فاتحہ میں ہے اور
سورہ فاتحہ میں ہے اور جو سورہ فاتحہ میں ہے وہ بسم اللہ میں ہے اور جو بسم
اللہ میں ہے۔ وہ نقطہ بائے بسم اللہ میں ہے:
"واناالنقط تحت ھذاالبآِ"۔
" اور میں وہی نقطہ ہوں جو اس ب کے نیچے ہے"۔
یعنی کل قرآن کا علم میرے سینہ میں ہے۔ آپ ہی کی وہ ذات ہے جس کی تعریف
قرآن میں یوں کی گئی ہے:
"ومن عِندہ عِلم الکِتبِ"۔
"جس کے پاس پوری کتاب کا علم ہے"۔(سورہ الرعد /)
انہی کی مدح سرائی یوں بھی کی گئی ہے:
"وکل شی احصینہ فِی اِمام مبِین"۔
"ہم نے ہر شے کا احاطہ امام مبین میں کردیا ہے"۔(سورہ یسین /)
امیرالمومنین علیہ السلام اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کرتے تھے:
ھذا سقط العِلمِ ھذا لعاب رسولِ اللہِ ھذامازقنِی رسول اللہ زقا"۔
"یہ علم کا صندوق ہے یہ لعاب رسول چوسنے کا اثر ہے یہ اس کا اثر ہے کہ رسول
اللہ نے مجھے اس طرح بھرایا ہے جیسے طائر اپنے بچے کو بھراتیہیں"۔آپ نے یوں
نہیں فرمایا کہ رسول اللہ نے مجھے علم اس طرح پلایا جیسے ماں بچہ کو دودھ
پلاتی ہے کیونکہ دودھ تو غذا سے بہت سے تغیرات کے بعد بنتا ہے اور طائر
اپنے بچے کو بجنسہ وہی غذا بھراتا ہے جو خود کھاتا ہے مطلب یہ تھا کہ
آنحضرت نے جو کچھ خدا سے لیا وہی بے کم وکاست مجھے دیا۔حضرت یہ بھی فرمایا
کرتے تھے مجھے حضرت رسول خدا نے ایک ہزار باب علم کے تعلیم کئے اور مجھ پر
ہر باب سے ایک ایک ہزار باب علم کے اور منکشف ہوگئے۔ حضرت نے یہ بھی فرمایا
کہ مجھے حضور نے اس طرح تعلیم دی۔ واِذاسئلتہ فانبنِی واِذسکت فابتد نِی"۔
"جب میں نے پوچھا تو حضرت نے جواب دیا اور جب میں چپ رہا تو اپنی طرف سے
بتانے کی ابتدا کی"۔
ابن عباس کہا کرتے تھے کہ علی ایسے عالم ہیں کہ ان کو رسول اللہ نے سکھایا
ہے۔ پس میرا اور تمام اصحابِ محمد کا علم، علی کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسے
ایک قطرہ سات سمندروں کے مقابل۔حضرت کے علم قرآن کا یہ حال تھا کہ جو کوئی
سوال بھی آپ سے کیا جاتا تھا آپ اس کا جواب فورا قرآن سے دے دیا کرتے تھے۔
ایک بار ایک شخص نے ازراہِ طنز کہا یاعلی ! آپ ہر بات کا جواب بے سوچے
سمجھے قرآن سے دیا کرتے ہیں۔ آپ کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ مبادا کہیں غلط
بیانی ہوجائے۔ حضرت نے فرمایا ذرا بتا تمہارے ہاتھ میں کتنی انگلیاں ہیں۔
اس نے فورا جواب دیا پانچ۔ آپ نے فرمایا تم نے اتنی جلدی جواب کیوں دیا؟اس
نے کہا میں اس میں سوچنے کی کیا بات تھی؟ ہاتھ میری نظر کے سامنے ہے
انگلیوں کا علم پہلے سے مجھے حاصل ہے۔ حضرت نے فرمایا اے شخص جس طرح یہ
پانچوں انگلیاں تیری نظر کے سامنے ہیں اوراِن کا علم تجھے ہے اسی طرح
کائنات کا ورق میری نظر کے سامنے ہے اور اس کے متعلق مجھے پہلے سے علم ہے۔
حضرت رسول خدا نے ایک روز صحابہ کے بھرے مجمع میں فرمایا:
"لا تعلِمواعلِیا فاِن عِندہ عِلم الا ولِین والاخِرِین"
"تم علی کو کچھ سکھانے کی کوشش مت کرو کیونکہ ان کے پاس اولین آخرین کاعلم
ہے"۔
ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے قضا یا فیصل کرنے میں علی سے زیادہ مشاق کسی
کو نہ پایا۔ ایک دن حضرت عمر کے سامنے یہ قضیہ آیا کہ دو عورتوں نے ایک ہی
وقت میں دو بچے جنے۔ ایک نے لڑکا اور دوسری نے لڑکی۔ رات کے وقت لڑکے والی
کو غافل پاکر لڑکی والے نے اس کا لڑکا اتھا کر اپنے پہلو میں رکھ لیا، اور
اپنی لڑکی کو اس کے پاس لٹادیاجب صبح ہوئی اور لڑکے والی نے پہلو میں لڑکی
دیکھی تو اپنے ساتھ والی سے کہنے لگی تم نے میرا لڑکا کیوں اٹھالیا اس نے
کہا تو دیوانی تو نہیں ہوئی لڑکا میرا ہے۔ غرض کہ اس بارے میں ان دونوں کے
درمیان نزاع ہوا اور یہ قضیہ حضرت عمر کے پاس آیا وہ متعجب ہوکر رہ گئے اور
کوئی حل سمجھ میں نہ آیا۔ آخر آپ نے تجویز کیا کہ اس کا حل امیرالمومنین سے
کرایا جائے۔جب وہ دونوں عورتیں امیرالمومنین کے سامنے آئیں تو آپ نے ایک
غلام کو حکم دیا کہ دو شیشیاں ایک ہی قدر اور ایک ہی وزن کی لائے اور ہر
ایک شیشی میں ایک ایک عورت کا دودھ بھرکے تولے جس کا دودھ وزنی ہو لڑکا اس
کو دے دیا جائے اور جس کا دودھ ہلکا ہو اس کو لڑکی، حضرت عمر نے دریافت کیا
کہ یہ فیصلہ آپ نے اپنی رائے سے کیا ہے یا قرآن حکیم سے ؟ فرمایا :قرآن
حکیم سے کیا تم نے یہ آیت نہیںپڑھی:
"لِلذکرِمِثل حظِ الا نثیینِ"۔
"مرد کا حصہ عورت سے دوگنا ہوتا ہے"۔(سورہ النسا /)
جب خدا نے میراث ہی میں لڑکے کا حصہ لڑکی سے دونا قرار دیا ہے تو ضرور ہے
کہ دودھ میں بھی اس کا لحاظ رکھا ہو۔
ایسے قضیئے حضرت نے بہت سے عہد ِحضرت عمرمیں فیصلہ فرمائے اور حضرت عمرکا
یہ کہنا :
لولاعلِی لھلک عمر"۔
"اگر علی نہ ہوتے تو عمر اپنے غلط فیصلے کی بنا پرہلاک ہوجاتا" اسی وجہ سے
تھا۔
آج تیرہ ماہِ رجب روز ولادت امیرالمومنین علیہ السلام ہے۔ ہم جتنی خوشیاں
منائیں کم ہے۔ آج دنیا میں اس ذات کا ظہور ہوا ہے جس کی زندگی رضائے خدا
کیلئے وقف تھی، جو خدا ہی کے گھر میں پیدا ہوا اور خدا ہی کے گھر میں مرا
اور اپنی زندگی کا تمام حصہ خدائی کاموں میں، دین اسلام کی خدمت میں صرف
کیا۔کیا ٹھکانہ ہے اس ذات کے فضائل کا جو بزمِ نور میں شریک ِنورِ رسالت
تھا۔ محفل وجود میں نفس ختمی مرتبت، جانشین شہنشاہِ نبوت، جس کے نفس کو
اللہ نے اپنا نفس کہا۔ کبھی رسول نے اپنا، جبرئیل نے جس کو اپنا
استادبنایا۔ رسول نے جس کو اپنے شانوں پر چڑھایا۔ منبر غدیر پر جس کو رسول
نے تمام مومنوں کا مولا بنایا، جو ہمیشہ شجاعت کا اسد اللہ الغالب تھا۔ جو
بلحاظِ فضائل و مناقب مطلوب، کل طالب تھا۔ یتیموں کا والی، بیواں کا وارث،
مصیبت زدوں کا مشکل کشا، پریشان حالوں کو عقدہ کشا، مومنوں کا امیر،
درماندوں کا دستگیر، رسول کا قوتِ بازو، اسلام کا محافظ و مددگار، متقیوں
کا سردار، سرکارِ الہی کا مختار، قسیم جنت و نار، اللہ کا ولی، میرا آقا
اور مولا علی ۔
علی امام من است ومنم غلام علی
ہزار جان گرامی فدائے نام علی
کعبہ آج خوشی میں پھولا نہیں سماتاکہ میرا مولود و امام المتقین سیدالوجہین
ہے اس میں خدائی صفات اس حد تک جھلکیں گی کہ بہت سے گمراہوں کو اس پر خدائی
کا دھوکا ہونے لگے گا، یہ وہ ذات ہے جس کی نسل سے گیارہ معصوم پیدا ہوں گے
اور وہ سب میرے اہل بیت کہلائیں گے۔ |