از قلم:حافظ وقاری مولانا محمد
شاکر علی نوری صاحب(امیر سنی دعوت اسلامی)ممبئی،انڈیا
اللہ رب العزت ارشاد فرماتاہے:اِنَّ اللّٰہَ لَایُغَیِّرُمَابِقَومٍ حَتّٰی
یُغَیِّرُوامَابِاَنفُسِھِم(سورہ الرعدآیت ۱۱) بے شک اللہ تعالیٰ کسی قوم
کی حالت نہیں بدلتاجب تک وہ لوگ اپنے آپ میں تبدیلی پیدانہ کریں۔
قوت فکر وعمل پہلے فنا ہوتی ہے
تب کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے
آج کادور فکری وعملی یلغار کا دور ہے، ہر چہار جانب سے امت مسلمہ کی
فکروعمل کو فرنگی تصورات وتخیلات سے گدلا کرنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے
اورنت آلات کی چکاچوندنے نسل نوکواپناگرویدہ بنالیاہے ،وہ بڑی تیزی کے ساتھ
فیشن اور ترقی کے نام پر مغربی ثقافت کی طرف کنچھی جارہی ہے،اسے اس سے کوئی
غرض نہیں کہ آیااس کاانجام کیاہوگا؟ اسلامی فکر، اورمذہبی اعمال کا جیسے
نوجوانوں میں فقدان نظر آتاہے بلکہ اب توافکارمیں اتنی تبدیلی آگئی ہے کہ
ہمارا نوجوان نفس کی پسند کو فوقیت دے رہا ہے ،مفاد پرستی اورذاتی منفعت نے
مسلمانوں کو صرف قوم کے مسائل سے ہی نہیں بلکہ اپنے حالات ومقامات کے ادراک
سے بے خبر کردیا ہے ،جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ نفع وضرر کی تمیز ختم ہوگئی ہے
،ہمیں حرام چیزوں میں منفعت اور خلاف شرع کاموں میں ترقی نظرآتی ہے۔
آج ملک کے مختلف صوبوں کے دیہاتوں کا دورہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کلمہ
پڑھنے والے بہت سے مسلمان غیر مسلموں کے رسم ورواج کے پابند ہیںبلکہ حد تو
یہ ہے کہ بعض علاقوں میں بتوں کو اپنے گھر میں جگہ دے رکھے ہیں،کچھ علاقوں
میں مسلم بچیاں غیرمسلموں سے شادیاں رچارہی ہیں،نہ جانے کیسی کیسی بدعات
وخرافات کاہمارامسلم معاشرہ شکار ہوچکاہے وہ اس چیز سے بالکل بے خبر ہیں کہ
شرک کیا ہے ، اسلام کیا ہے،اسلام کی بنیادی تعلیمات کیا کیاہیں؟ کیا ان تک
صحیح معنوں میں اسلام کے صحیح عقائدواعمال کا پہنچانا ہماری سب سے اہم ذمے
داری نہیں ہے، جس سمت دیکھو تاریکی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا،ہرسمت ایک
گھٹاٹوپ اندھیراہے ۔ یقین مانو !آج امت مسلمہ کے ہر فرد کو بےدار ہوجانے کی
اشد ضرورت ہے اور جہنم کے دہکتے ہوئے شعلوں سے مسلمانوں کو بچانے کاانتظام
کرنا ہے اور یہ بغیر غوروفکر کے ممکن نہیں، ہم رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم کی ولادت کے وقت کی دعا اور آپ کے احسانات کاتذکرہ لوگوں کے
سامنے پیش کرتے ہیں لیکن اس فکر امت کے درد کو سنت سمجھ کر اپنانے کی کوشش
نہیں کرتے۔ حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی امت کو جہنم
سے بچانے اور جنت کامستحق بنانے کے لیے ہر تکلیف کو گوارا فرمایا،اُمت کی
خاطر نہ جانے کتنے مصائب وآلام برداشت کیے،خودفرماتے ہیں :مجھے راہ خدا میں
جتنا ستایا گیا کسی نبی کو اتنانہیں ستایاگیا،فکراُمت کاعالم یہ تھاکہ شب
میں آنسوﺅں کے دریا بہا کر رب سے امت کی نجات کی دعا فرماتے رہے ، جیسا کہ
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ عرض کرتے ہیں
اللہ کیا جہنم اب بھی نہ سرد ہوگا
رورو کے مصطفی نے دریا بہادیے ہیں
خدارا!بیدارہوجاﺅ،بہت سوچکے ہم اور آپ ،غفلت کی دبیزچادراتارپھینکواور امت
کی اصلاح میں لگ جاﺅ، ہر غلام رسول اپنے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے
افکاروتعلیمات کو زندہ کرے اور اُمت مسلمہ کو زوال کی تاریک وادی سے نکال
کر عروج کی شاہراہ پر گامزن کرنے کی فکر پیدا کرے ، اس فکر کوعوام تک
پہنچانے کی ضرورت ہے ۔یہی فکر زندگی کی علامت ہے اور بے فکری موت کی علامت
ہے ۔اللہ مجھے اور آپ سب کو فکر امت مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عطا
کرے۔ |