رمضان اوربے ضمیر انسان

قارئین کرام! آپ تمام لوگوں کو آ مد رمضان کی بہت بہت مبارک ہو اللہ ہم سب کو اس رمضان کو اللہ پاک کی اطاعت میں گزارنے اور اللہ کے حضور اپنے گناہوں سے معافی مانگنے کی بھرپور ہمت دے اور اللہ پاک ہم سب پر اپنار حم فرمائیں اور ہمارے تمام صغیرا کبیرا گناہ معاف فرمائیں اور قارنین کرا م آپ پوری دنیا میں وفات پانے والے مسلمانوں کے لئے بھی اپنی دعاﺅوں میں ہاتھ اٹھائے گا تا کہ اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کو بھی جنت کاباغ بنا دیں اور شاید یہی عمل ہمارے لئے بھی مغفرت کا باعث بن جائے (آمین)

قارنین کرام رمضان کا آ غاز ہو چکا ہے ہر طرف گلی ،بازاروں میں ریل پیل نظر آ رہی ہے لوگوں میں وہ جستجو نظر آ رہی ہے جو اس کی آ مد کا پتہ دیتی ہے رمضان کی آ مد کے ساتھ ہی لوگوں میں وہ خوشیوں کی بر سات سامنے آ تی ہے کہ آ ج یہ رمضان ہماری زندگی میں پھر سے آ یا ہے اس کی فضیلتوں کو اپنی زندگی میں ہم استعمال کر یں اور ماہِ رمضان کا بھرپور احترام کر تے ہوئے روزے رکھیں عبادت کر یں اور اپنے اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر راضی کر لیں تا کہ ہمیں ایک طر ف تو جنت نصیب ہو جائے اور دوسری طرف ہماری دنیاوی مشکلات ختم ہو سکیں تا کہ دنیا وی زندگی میںبھی ہم اچھے اور بہترین انداز میں گزار سکیں اور آ خرت میں بھی کامیابی ہمارے قدم چومے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان بھی یہی ہے کہ روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک روزہ افطار کر تے وقت اور دوسرا مجھ سے ملاقات کے وقت ۔دوسرے ارشاد میں اللہ تعالی ٰ فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا غرض روزے دارکو روزہ رکھنے کے بدلے صرف بھوک اور پیاس نصیب نہیں ہو تی وقتی طور پر پانی کی ممانت اور کھانے کی وجہ سے بھوک نہیں ملتی بلکہ اللہ پاک کی وہ رحمت ملتی ہے جس کا کسی انسان کو کچھ بھی پتہ نہیں کہ وہ کیسی اور کتنی رحمت ہو گی اور اس کے ثمرات کیا ہو نگے او راللہ پاک روزے دار کو وہ خوشیاں عطا فرماتے ہیں جو ان کا حقیقی حق دار ہے اور روزے کی فضلیت بتانے کے لئیے بھی فرمان عالی ٰ شان ہے کہ روزے تم پر فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلی قوموں پر کئے گئے تھے غرض روزے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت ہر قوم ہر قبیلے ، ہر رنگ و نسل کے لوگوں پر فرض کر دی گئی تھی اور پوری دنیا کے لوگوں کا اولین فرض بھی یہی بنا دہا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں مگر اللہ تعالیٰ نے باقی قوموں پر تو روزے فرض کیئے مگر ان میں سے کسی کے ساتھ اجر والی بات نہیں کی بس یہ امت محمدی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے لئے فرمایا کہ روزے میرے لئے ہیں اور میں ہی اس کا اجر دوں گا غرض کامیابی کا راستہ اللہ تعالی ٰ ہمیں خود دکھا رہے ہیں اور کامیابی کی کنجی بھی عطا فرما رہے ہیں جن پو لوگ چل کر کامیابی حاصل کر تے جا رہے ہیں مگر اتنی رحمتوں مغفرتوں اور بخششوں والے مہینے میں بھی ہم مسلمانوں خصوصا اہل پاکستان کی عوام میں بے ضمیر لوگ اپنے ملک کی عوام کو پریشانی میں مبتلا کر کے اپنے لئے ناجائز منافع خوری کی مد میں وقتی فائدہ حاصل کر تے نظر آ تے ہیں آ پ کسی بھی مارکیٹ کسی بھی جمعہ بازار اتوار بازار میں چلے جائیں عام مارکیٹ میں چلے جائیں ا ٓ پ کو ماہ رمضان سے قبل ہی اس کی آ مد کا پتہ چلنا شروع ہو جاتا ہے عام دنوں میں جو چیز 60/کلو ملتی ہے وہ رمضان کی آ مد سے قبل 80/90روپے کلو تک با آسا نی پہنچ جا تی ہے آپ دالوں، گو شت ، سبزیوں، پھلو ں غر ض کسی بھی چیز کا نام لیں وہ مہنگائی کا منہ چراتی نظر آ تی ہے یہ ہماری قوم کی سب سے بڑی بد قسمتی ہے کہ ہمیں ا ٓ ج تک نہ تو کوئی مخلص لیڈر ملا اور نہ ہی بحیثیت قوم اپنی قوم کے لئے کوئی انسان ملا جو انسانیت کے دکھ کو اپنے دل میں محسو س کر سکے صر ف ہر طرف بھڑیئے ہی بھڑیئے ملے جو اس پاکستان کو اور اس کی عوام کو اپنے ہا تھوں سے نوچتے نظر آتے ہیں لیڈ ر ہیں تو وہ اپنے آباﺅ اجداد کے کارناموں پر سیا ست چمکائے ہو ئے ہیںاور اسی پر صبرو شکر کر تے نظر آ تے ہیں اور اپنے نام سے عوام کو کوئی سہولت دینا پسند نہیں کر تے اور اگر عام آ دمی ہیں تو وہ بھی اپنے پیٹ کے اندر کی امیری کی بھوک کو مٹانے کے لئے ناجائز منا فع خوری اور اچھی اشیاءکی قیمت لے کر خراب چیزیں دے کر پو ری کر تے نظرآ تے ہیں کیا یہی ان کاموں کے لئے یہ ٹکڑا (پاکستان )حاصل کیا گیا تھا کہ یہاں اسلام کے پیروکار قائدا عظم ، علامہ محمد اقبال اور ان کے رفقا ءکے ساتھ ہی چلے جائیں گے بعد میں آ نے والے صر ف اپنی ذاتی مفادات کے لئے اس کو ٹکڑے ٹکرے کر یںگے ان کو گروہوں اور قبیلوں میں تقسیم کر کے سیاست چمکائیں گئے ان کو صو بوں او ر زبانوں کی بنیا دپر تقسیم کر کے اپنے ہی ملک میں لسانی بنیادوں پر سیاست کر یں گے جب کہ سیا ست تو عبادت ہے مگر یہاں تو سیاست دان عبادت کی بجائے نفرتوں اور رنجشوں کے بیچ بوتے جا رہے ہیں جو کہ ایک محب وطن انسان اور پاکستانی کے لئے تکلیف دہ امر ہے ہم یہ شور تو بڑا کر تے ہیں کہ ہمارے لیڈ وں نے ملک امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا ہے امریکہ ہمارے ملک میں یہ کر گیا ہے وہ کر گیا ہے مگر ہم نے کبھی یہ بھی سوچا کہ ہم نے ملک کے ساتھ اس کی مٹی کے ساتھ اس کے لوگوں کے ساتھ جن کے آباو اجداد نے دین اسلام کی سر بلندی اور اسلام کے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزار نے کے لئے اپنی جانیں قربان کیں اپنی عزتیں اس ملک کی بنیادوں کو دیں اپنے جگر گو شوں کے خون کو اس کی جڑوں کو سیراب کر نے کے لئے دیا سے اچھا اور بہترین سلوک کر رہے ہیں ؟ نہیں نا تو پھر ہر کام کا تماشہ اور شور صرف امریکہ سے ہی خلاف کیوں اٹھا یا جا تا ہے چیزوں میں ملاوٹ اور مضوعی مہنگائی امریکہ سے تو نہیں کروائی جاتی لوگوں کو ایک نمبر چیز کے پیسے لے کر دو نمبر چیز بھی امریکہ کے کہنے پر تو نہیں دی جا تی اور سب سے بڑ ھ کر ماہ رمضان میں عوام کو مہنگی چیز یں وہ بھی امریکہ کے کہنے پر تو نہیں دی جا تیں یہ تو ہما رے ہی ملک کے بے ضمیر انسان ہیں جو اپنے دولت کی حوس کو اس نج پر لے جا چکے ہیں کہ وہاں انھیں اچھے اور برے کی تمیز ہی ختم ہو چکی ہے اور صرف دولت ہی دولت ا ن کا دین ایمان بن چکی ہے اور وہ اپنے دین کے اہم ارکان کو بھی اس میں بھول چکے ہیں ان کے لئے شعبان ، رمضان ، غرض تمام کے تما م ماہ صرف دولت کو اکٹھی کر نے اور ان کے انبار لگا نے والے ہیں اور یہی وہ بے حسی ہے جس کا عملی نمونہ ماہ رمضان میں یہ لوگ کر کے دکھا تے ہیں اور ہماری بے ضمیر حکومتیں بھی اس میں خامو ش تماشائی بن کر اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کر تی ہیں کیونکہ اگر حکومتیں وقت پر ان پر گرفت ڈالیں تو ان میں سے کسی بھی مائی کے لال کو یہ ہمت نہیں کہ وہ رمضان میں مضوعی مہنگائی بنائے اور اس سے اپنے لئے فائد ے حاصل کر ے مگر افسوس صد افسوس ! یہ حکومتوں کی بھی ناکامی ہے یا کوئی اور بات ہے کہ وہ اس ماہ میں بھی اپنی عوام کو ان بھیڑیوں سے نہیں بچا پاتیں اس لئے عوام کو اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے خود ہی خواب غفلت سے جاگنا ہو گا کیو نکہ ہماری اس دنیا میں کئی زندہ ضمیر قوموں کی مثالیں موجود ہیں کہ ان کے ملک میں اگر کوئی چیز مہنگی ہو ئی ہے تو انھوں نے اس چیز کا استعمال ترک کر دیا اور پھر ان ناجائز منافع خوروں کو وہ نقصان اٹھانے پڑ ے کہ وہ چیزیں سٹرکوں پر معمولی قیمت پر بھی بہت زیادہ مقدار میں ملیں لگیں اس لئے ہمیں سب سے پہلے اپنے آ پ سے شروع کر نا ہو گا ۔ دھی اگر مہنگی ہے تو اس کے بغیر بھی روزہ رکھا اور کھولا جا سکتا ہے اگر مصالحہ مہنگا ہے تو اس کے بغیر بھی کھا نا بن سکتا ہے اگر گو شت مہنگا ہے تو دال یا سبزی سے کا م چلایا جا سکتا ہے غر ض ہمیں اپنی زندگی میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کر کے اس منہ ضرور مہنگائی پر قابو پایاجا سکتا ہے اس کام میں عورت بہتر انداز میں اپنا فرض پورا کر سکتی ہیں اگر وہ کفایت شعاری سے اپنے گھر کا بجٹ بنائے تو اس مضوعی مہنگائیپر قابو پایا جا سکتا ہے جوچیزیں گھر میں بن سکتی ہیں وہ گھر میں بنانی چاہیئں۔ جو زیادہ مقدار میں اشیاءضرورت ہیں ان کو ایک ہی بار میںخرید کر بھی تھوڑی بہت بچت کی جا سکتی ہے اور جمعہ اتوار بازاروں سے بھی خریداری کر کے بچت کی جا سکتی ہے اور سب سے آ خر میں ہم عوام کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پلیز اپنی ضروریات اور آسائشوں میں فرق کر یں کیونکہ ہم نے اپنی زندگی میں کئی ایسی اشیا ءکو جگہ دے دی ہے جو بعد میں ہمیں مہنگائی کے عذاب سے دوچار کر تی ہیں ان پر قابو پائیں سادہ زندگی گزاریں ضرورت کی چیزیں خریدیں اور اپنے بچوں کو بھی کفایت شعاری کا درس دیں حکومت کو بھی چاہیئے کہ وہ بے حسیکی چا در اتار کے پھینکے اور پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو منظم کر ے وہ جگہ جگہ چھاپے ماریں اور مضوعی مہنگائی پیدا کر نے والے لوگوں کو جرمانے کر یںاور عوام کو اس مہنگائی سے نجات دلائیں ٭
Muhammad Waji Us Sama
About the Author: Muhammad Waji Us Sama Read More Articles by Muhammad Waji Us Sama: 118 Articles with 130320 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.