حوا کی بیٹی کے نام

مرزا اسد اللہ غالب کے نام سے تقریباََ تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگ شناسائی رکھتے ہیں۔اُن کا ایک شعر بہت یاد آتا ہے۔
کعبہ کس منہ سے جاﺅ گے غالب؟
شرم تم کو مگر نہیں آتی
مجھے حیرت ہوتی ہے اُن مسلمانوں پر جنہیں ”رسو“ کی ڈیمو کریسی ”ملٹن“ کی لبرلزم اور ”مارکس کا سوشلزم تو پسند ہے لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کا لایا ہوا قانون پسند نہیں۔ پھر بھی ہم مسلمان ”شرم تم کو مگر نہیں آتی“ بات مذہب کی ہو یا معاشرے کی بنیاد کی اس میں عورت کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ زمانہ نبوت میں عورت کو نہ صرف اُس کے خاص مقام پر نہ فائض کیا گیا بلکہ اُسے اُسکے حق کی پہچان کرائی گئی۔ لیکن پھر بھی مجھے یہ کہنے میں کسی قسم کی قباہت نہیں کہ آج معاشرے کی بد حالی کی سب سے زیادہ ذمہ داری عورت ذات پر ہی آتی ہے۔جھوٹ بولنا،غیبت کا رستہ اختیار کرناایسا گناہ ہے جس سے دعا قبول نہیں ہوتی۔ رحمت کے فرشتے گھر میں نہیں آتے ۔تنگدستی جنم لیتی ہے۔مصیبت پر مصیبت جنم لیتی ہے اور ایمان متزلزل ہو نے لگتا ہے۔جو عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے ،جھوٹ نہ بولے، غیبت نہ کرے اور چغلی کھانے سے اجتناب کرےاسکے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں رہتامرد کو سال ہا سال کی مسلسل ریاضت و عبادت سے جومقام حاصل نہیں ہوتا تاریخ شاہد ہے کہ عورت کو وہ مقام چوبیس گھنٹہ میں حاصل ہوا ہے۔مستجاب الدعا لسٹ میں اسکا نام لکھ دیا جاتا ہے ۔ جو جائز دعا کرتی ہیں مقبول ہوتی ہے لیکن افسوس کہ عورت اپنی قدر و منزلت بھولتی جا رہی ہے اور چادر چاردیواری کی زینت بننے کی بجائے عزت و عصمت کی بکتی ہوئی تتلیاں بن کر زینت بازار بننا بہت پسندیدہ ہے۔ آج کی عورت سوشلزم اور ڈیموکریسی آڑ میں اتنے چاک و چوبند اور پورے ڈیڑھ گز سے تیا ر کردہ لباس جس میں سے جسم ایسی نیم برہنہ تصویر پیش کرتا ہے کہ یہ نہ چاہتے ہوئے بھی لاکھوں شیطانی امنگوں کی آس بن جاتی ہیں۔زمانہ جاہلیت میں گو کہ پردہ کا تصور نہ تھا لیکن اُس زمانہ کی عورتیں ایسا لباس پہنتی تھی کہ انکی پشت تو ڈھکی رہتی تھی لیکن سینہ کھلا رہتا تھا جبکہ آج کی جدت پسند عورت اُن سے بھی دو گز آگے ہے کہ انکی پشت بھی ننگی ہے۔ جب کسی معاشرے کی عورت خود کو گمراہی کے حوالے کر دیتی ہے توجسے وہ چاندنی سمجھ کر گلے لگاتی ہے وہ در اصل ایسی اندھیری رات ہے جس کو طلوع نصیب نہیں اور بلاخر اس تعلق اور دوستی کی انتہا ایسے گناہ پر ہوتی ہے جس کے بارے سنتے ہی دل کانپ جاتا ہے اور پھر زانی کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی ۔اُس پر آسمان کی بجلی قہر بن کر گرتی ہے۔اسلام میں اس امر کی ممانعت سخت الفاظ میں آئی ہے۔زنا ہماری زندگی کا معمول بنتا جا رہاہے اور ہم اسلامی اقدار کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ہم اسلامی تہذیب و تمدن کو چھوڑ کر بحیثیت مسلمان ان گناہوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا رہے ہیں۔مغربی افکا ر اور و نظریات ہماری زندگی کا حصہ بنتے جا رہے ہیںاور ہم بھی ان مغربی افکا ر کے دلدادا ہوتے جا رہے ہیں۔اور فیشن کی آڑ میں مذہب سے اتنا دور ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ ہمیں زمانہ کی خبر نہیں جبکہ زمانہ کی نظر یں ہم پر گڑی ہوئی ہیں۔ورنہ اسلام نے خواتین کو وہ مقام دیا ہے کہ جس کا اندازہ کرنا ناممکن لگتا ہے اور اگر کسی معاشرے کی عورت کو اپنے مقام کی پہچان ہوجائے تو آدم ؑسے عیسیٰؑ تک کے نبیوں کی عزت امام الامبیا حضرت محمد ﷺپاک سیّدہ حضرت بی بی فاطمتہ الزہرہ سلام اللہ علیہا کے قدموں میں بچھاتے نظر آتے ہیں۔امام محمد بن سیرینؒفرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم!جب میری والدہ محترمہ گھر میں موجود ہوتی تو میں گھر کی چھت پر بھی نہ چڑھتا کہ کہیں میں اُن سے اُونچا نہ ہو جاﺅں۔ یہی حال امام احمد بن حنبلؒ وہ اپنی والدہ کو کھانا خود بنا کر کھلاتے۔ کپڑے خود دھوکر دیتے۔اور اُن میں اور ایک تابعدار ملازم میں فرق محسوس کرنا مشکل ترین عمل ہے۔”مسند امام احمد“یہ حدیث نقل ہے کہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ بن جاہمہؓرسول اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول میں جہاد پر جانا چاہتا ہوںاور آپ ﷺ کی
خدمت میں مشورہ طلب کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ رسول اکرم ﷺ نے دریافت کیا کہ ” کیا تیری ماں زندہ ہے “ حضرت معاویہ بن جاہمہؓ نے عرض کی ”جی ہاں“۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ” اپنی ماں کی خدمت کر کیونکہ تیری جنت اسکے قدموں کے نیچے ہے۔ ام قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا اُن عزیم المرتبت خواتین میں سے ہیں جنہوں قدسی نفوس لوگوں کے شانہ بشانہ اسلام قبول کیاا ور دشمنانِ اسلام کے مظالم کو برداشت کیا۔ جب ایذا رسانی میں مشرک حد سے بڑھ گئے تواہل ایمان کو ہجرت کی اجازت مل گئی۔بنو غنم بن دودان اہل اسلام کے تمام مرد و زن رسول اللہ ﷺکے ہمراہ ہجرت پر روانہ ہوئے۔ اُن کے قبیلے کے مردوں میں عبداللہ بن حجش ان کا بھائی ابو احمد عکاشہ بن محصررضی اللہ تعالی عنہ تھے اور خواتین میں سے حجش کی بیٹیاں زینب، حمنہ اور اُمِ حبیب کے علاوہ امِ قیس بن محصن رضی اللہ تعالی عنہا بھی تھی۔حضور نبی اکرم ﷺ کے دور میں بہت سی خواتین ایسی تھی جو احادیث کی روایت کرتی تھیں اور خواتین کی علم میں دلچسپی لینا اورحدیث کی روایت کرنا کوئی تعجب اور حیرت کی بات نہیںآپ اپنا موازنہ خود کرلیںکہ آپ کیا ہیں کیو ں ہیں کسی سے سیکھنے کی ضرورت نہیں بس قرآن پڑھ کر سمجھ لیں اس پر عمل کریں اور اسکو الماریوں کی زینت نہ بنائیں ۔مسلمان جس کے نام سے دشمن کانپ جاتے تھے آج وہ ہمارے سینہ پر سوار ہیںجن کو اسلام نے تہذیب سکھائی آج وہ ہمیں تہذیب سکھا رہے ہیںجن کے ہم حکمران تھے آج ہم انکے محکوم ہیں۔
Ali Gilani
About the Author: Ali Gilani Read More Articles by Ali Gilani: 2 Articles with 1873 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.