زندگی کیسے پرسکون بنائی جائے؟

راحت ،عزت ،دولت اور شہرت کی تمنا انسانی فطرت میں داخل ہے ۔ہر شخص چاہتا ہے کہ زندگی کی چند ساعتیں پرسکون انداز میں گزارے ۔اس زندگی کو پر سکون بنانے کے لیے انسان کئی جتن اٹھاتا ہے ،مصائب جھیلتا ہے ،مشقتیں بر داشت کرتاہے لیکن نظام قدرت ہے کہ دنیا میں انسانی خواہشات کبھی پوری نہیں ہوسکتیں ،کیونکہ دنیا دارالامتحان اور دارالمصائب ہے ۔دنیا کے امتحان میں وہ بندہ کامیاب ہو جاتاہے جو اسلام پر چلے ،شریعت مطہرہ کو راہبر وراہ نما سمجھے اور نبی آخرالزمان ﷺکی سیر ت کو اپنائے کیونکہ اسلام ایک ایسامذہب ہے جو زندگی کو پرسکون بنانے کے لیے ہرموڑ رپر ساتھ دیتاہے ،معاشرت ہو یا معیشت ،والدین کے حقوق ہوں یا بیوی بچوں کے حقوق تمام مراحل پر اسلام انسان کی راہنمائی کرتاہے ۔یہ حقیقت ہے جو اسلام کے سایہ تلے آگیا وہ اپنی زندگی کو کامیاب اور پرسکون بنا گیا۔عصر حاضر میں انسان جس کیفیت سے دو چار ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھا ۔ہرشخص راحت ،سکون کو ترس رہا ہے ،پر امن معاشرہ ایک خواب بن کر رہ گیا ہے ۔ناامیدی کے بادل ہر چہرے پر چھائے ہوئے ہیں ۔اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا ہے ،انسانیت کی توہین کی جارہی ہے ۔بے حیائی کے کلچر کو اتنا عام کردیا گیا ہے کہ معاشرے میں زندگی گزارنا مشکل ہوگیا ہے۔سر عام دین اسلام کا مذاق اڑایا جارہاہے ۔بے دینی اوراللہ سے بغاوت کے اس سیلاب میں ایک معصوم مسلما ن بھی بہے جارہاہے ۔ایک عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ ان حالات میں کیا کیا جائے ؟اس سیلاب کے آگے کیسے بندھ باندھا جائے ؟اللہ کی ناراضگی کو کیسے ختم کیا جائے ؟بہت کم لوگ ہیں جو ان برائیوں کے کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے سنجیدہ ہیں اور اس سیلاب کو روکنے کے لیے مزاحمتی جدوجہد کررہے ہیں ۔

غور کیا جائے تو بے سکونی ،پریشانی اور یکے بعد دیگر ے پریشان کن مسائل کے جنم لینے کی وجہ دین سے دوری اور قرآن واحادیث سے روگردانی ہے ۔شریعت سے خیانت اور بے مروتی بھی ایک بڑی وجہ ہے ۔افسوس کی بات ہے کہ ہم مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں مگر اسلامی احکام سے پہلوتہی ہماراشیوہ بن چکا ہے۔تمام بنیادی ارکان کلمہ، نماز،روزہ،حج ،زکوةسے ہم غافل ہوگئے ہیں ۔کتنے لوگ ہیں جو نماز نہیں پڑھتے ؟نا پڑھنے والوں کی تعداد پڑھنے والوں کی بنسبت زیادہ ہے ۔یہی حال باقی ارکان کا ہے ۔ماہ ِمقدس کی آمد کا تقاضاتو یہ تھا کہ ہم اس کا استقبال اورقدر کرتے ۔استقبال کا یہ مطلب نہیں کہ گھروں میں مسجدوں میں چراغاں کیے جائیں بلکہ اس مہمان کی خوب آﺅ بھگت کرتے ،اس کے لوازمات اورمعمولات کا خیال رکھتے ،تمام ناپسندید ہ چیزوں سے اس کو بچاتے ،جس قدر ہوسکتا ہم پہلے کی بنسبت اس مبارک مہینے میں عبادات کرتے ۔زکوٰةو صدقات کی ریل پیل ہوتی ،تمام گناہوں سے توبہ تائب ہوتے ،ناجائز معاملا ت کو ترک کرتے ،لیکن مخصوص طبقہ ہے جو ان سب باتوں کا اہتمام کرتاہے ۔ورنہ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو صدقات و زکوٰة سے کتراتے ہیں اور سودی معاملات کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے دل مردہ ہوگئے ہیں ۔نا ختم ہونے والے مسائل جنم لے رہے ہیں ،بے دینی اور اللہ سے بغاوت بڑھ رہی ہے ۔حضرت مولنا احمد علی لاہوریؒ فرماتے تھے کہ” میں نے بصیر ت اورتجربے سے دیکھا اور غورکیاکہ لوگوں کی بے دینی او راللہ سے بغاوت کے اسباب کیا ہیں ؟تو میں نے اسی فیصد قابل عیب بات یہ پائی کہ لوگ سودی مال سے نہیں بچتے ،حلا ل وحرام کی تمییزنہیں کرتے اوردس فیصد سبب یہ ہے کہ بے نمازی کے ہاتھ کا کھاتے ہیں اور دس فیصد سبب یہ ہے کہ نیک لوگوں کی صحبت میں نہیں بیٹھتے،اللہ والوں سے تعلق قائم نہیں کرتے“ ۔

سود ایک ایسی لعنت اور متعدی مرض ہے جو پو رے جسم کو سرانڈ کر دیتی ہے معاشر ے کے معاشرے تباہ جاتے ہیں ،راحت اورعزت غارت ہوجاتی ہے ۔سب سے بڑھ کر اللہ اور رسول کے خلاف اعلان بغاوت کی ہمت ہوجاتی ہے جو دین سے دوری کا سبب بنتاہے ۔ قرآن وحدیث میں اس کی صراحة ممنوعیت آئی ہے ۔ارشاد ہے احل البیع وحرم الربوٰ(اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کوحرام کیاہے )دوسری جگہ فرمایا”یاایہاالذین آمنواتقواللہ وذرو مابقی من الربوٰ“(اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سود سے جو باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔۔۔۔۔۔اگر تم ایسا نہیں کروگے تو اللہ اوررسول کے ساتھ اعلان جنگ کے لیے تیار ہوجاﺅ )یہ بہت بڑی وعید ہے سود خوروں کے لیے۔اسی طرح اللہ فرماتے ہیں یمحق اللہ الربو ویربی الصدقات (اللہ سود کو مٹاتے ہیں اورصدقات وخیر ات کو بڑھاتے ہیں )مطلب یہ ہے کہ سود خورکامال آخرت میں کچھ کام نہ آئے گابلکہ اس پر وبال جان بن جائے گااور صدقہ ،خیرات والوں کا مال آخرت میں ابدی نعمتوں اور راحتوں کا ذریعہ بنے گا۔سود کے اثرات آخرت کے اعتبار سے تو نقصان دہ ہیں ہی مگر کچھ آثار دنیاوی اعتبار سے بھی قابل عبرت ہیں ۔سود جس مال میں شامل ہوجاتاہے بسااوقات وہ مال خودہلاک ہوجاتاہے اور پچھلے مال کو بھی ساتھ لے جاتاہے ۔سود اور سٹے کے بازاروں میں اس کا مشاہدہ آئے روز ہوتارہتاہے ۔بڑے بڑے کروڑ پتی دیکھتے ہی دیکھتے دیوالیہ اور فقیر بن جاتے ہیں ۔تجربہ سے ثابت ہے کہ سود کامال فوری طور پر کتنا ہی بڑھ جائے مگر عموما وہ پائیدار اورباقی نہیں رہتا ۔اگر ظاہری طور پر مال ضائع نہ بھی ہو تو اس کے فوائد وبرکات سے محرومی تو یقینی ہے ۔

ظاہرکی آنکھ سے دیکھا جائے تو قرآن کا یہ فلسفہ سمجھ نہیں آتا لیکن حقیقت یہی ہے جو قرآن نے بیان کی ۔ظاہر میں یہ نظر آتاہے کہ سودخوروں کو عزت وراحت حاصل ہے ،کوٹھیوں ،بنگلوں کے مالک ہیں ،عیش وآرام کے سارے سامان مہیا ہیں ،کھانے پینے اور رہنے سہنے کی ضروریات بلکہ فضولیات بھی حاصل ہیں ،نوکر چاکر اورشان وشوکت کے تمام سامان موجود ہیں لیکن غور کیاجائے توہر شخص سمجھ لے گا کہ سامانِ راحت اور راحت میں بڑا فرق ہے ۔سامان راحت تو فیکڑیوں ،کارخانوں میں بنتا ہے اور بازاروں میں بکتا ہے ،وہ سونے چاندی کے عوض حاصل ہوسکتاہے لیکن جس کانام راحت ہے وہ نہ کسی فیکڑی میں بنتی ہے نہ کسی منڈی میں بکتی ہے وہ تو ایک ایسی رحمت ہے جو براہ راست حق تعالی کی طر ف سے دی جاتی ہے ۔وہ بعض او قات ہزاوں سامان کے باوجود حاصل نہیں ہوسکتی ۔ایک نیند کی راحت کو دیکھ لیجیے !اس کو حاصل کرنے کے لیے یہ تو کرسکتے ہیں کہ سونے کے لیے مکان بہتر ہو ،ہوا اور روشنی کا نظام معتدل ہو ،چارپائی اور گدے حسبِ منشاءہوں لیکن کیا نیند کا آنا ان سامانوں کے مہیا ہونے پر لازمی ہے ؟ ہزاروں انسان اس کا جواب نفی میں دیں گے ۔امریکہ جیسے متمدن ملک میں 75فیصد لوگ خواب آور گولیوں کے بغیرسو نہیں سکتے ۔ان حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی کہ سود خوروں کے پاس سامان راحت ہے مگر راحت نہیں ،عزت کے حصول کے لیے مال ودولت کے انبار ہیں لیکن عزت نہیں ہے ۔چونکہ یہ لوگ سخت دل اور بے رحم ہوتے ہیں ،ان کا پیشہ مفلسوں کی مفلسی سے فائدہ اٹھا نا اور ان کا خون چوسنا ہوتاہے اس لیے ممکن نہیں کہ لوگوں کے دلوں میں ان کی عزت اور وقا ر ہو۔

اس کے باالمقابل صدقہ وخیرات کرنے والوں کو راحت بھی حاصل ہے اور عزت بھی ،ان کے پاس اگر چہ سامان ِراحت کم ہی کیوں نہ ہولیکن سامان والوں سے زیادہ اطمینان اور سکون قلب جواصلی راحت ہے ان کو حاصل ہے ،دنیا میں ہر انسان انہیں قدرکی نگاہ سے دیکھتاہے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ صدقہ خیر ات کرنے والوں کا مال بڑھتا ہے اگرچہ ہمیں بڑھتا ہوا نظر نہیں آتا ،کیونکہ اللہ فرماتے ہیں ”ہم صدقات کو بڑھاتے ہیں“۔اس قضیہ کو ایک مثال کے ذریعہ باآسانی سمجھا جاسکتاہے ،جیسے ایک کسان جب زمین میں ایک دانہ ڈالتاہے تو ظاہری آنکھ سے یہ نظر آتاہے کہ وہ اس دانہ کوضائع کر رہاہے لیکن اللہ اس دانہ کی حفاظت فرماتے ہیں اور ایک دانہ سے ہزاروں دانے پید اکردیتے ہیں ۔اسی طرح جب انسان اللہ کی راہ میں ایک روپیہ خرچ کرتاہے تو ظاہری طور پر اس کا نقصان ہوتاہو ا نظر آتاہے مگر اللہ اس ایک روپیے سے ہزاروں روپیے بنادیتے ہیں ۔اسی حقیقت کو حدیث پاک میں بھی بیان کیا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ” :جب ایمان والا اللہ کی را ہ میں ایک کھجور خرچ کرتاہے تو اس کا ثواب احد پہاڑ کے برابر ملتاہے“۔معلو م ہو ا صدقہ سے مال بڑھتاہے۔

اگر ہم بھی راحت وسکون اور عزت سے زندگی گزارنا چاہتے ہیں ،پر امن اورخوشحال معاشرہ دیکھنا چاہتے ہیں ،دنیا میں امن و سلامتی کا عَلم بلند کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ضر ور قرآن و حدیث کو عملی طو ر پر اپنی زندگیوں میں لاناہوگا،گناہوں سے توبہ تائب ہوناہوگا،ناجائز معاملات کا بائیکاٹ کرناہوگا۔آج امت مسلمہ جن آفات کا شکار ہے اس کی وجہ صر ف اور صرف قرانی احکامات سے روگردانی ہے ۔شریعت مطہرہ پر عمل پیرا ہونا وقت کی ضرورت ہے ۔بے دینی اوراللہ سے بغاوت کے اسباب کی روک تھام کے لیے ہم میں سے ہرفر د کو اس کے خلاف علم جہاد اٹھانا ہوگا۔سود جیسی متعدی مرض کے علاج کے لیے امت مسلمہ کو عموما اورچیف جسٹس آف پاکستان کو خصوصا عملی اقدامات کر نے ہوں گے ۔چیف جسٹس جہاں دیگر مقدمات کا ازخود نوٹس لیتے ہیں وہیں اللہ کے حضور سرخروئی کے لیے اس ناسو ر کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے تاریخی فیصلہ دیناہوگا ۔پاکستان میں ہزاروں دردمند، اسلام پسند ہیں جنہوں نے اس متعدی مرض کے علاج کے لیے عدالت عالیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کسی فورم پر بھی ان کی شنوائی نہیں ہوئی ۔اگر کبھی سنا گیا تو محض وقتی جج پینل تشکیل دے کر عوام کے غم وغصہ کو ٹھندا کردیا گیا یا پھر اس پینل کے امانت دارججوں کوبرطرف کردیاگیا۔اب بھی وقت ہے کہ عدلیہ او ر مقننہ اس مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرے اور اس کے لیے باقاعد ہ قانو ن مرتب کر ے اوراس پر عمل کروائے، اس فعل میں ملوث لوگوں کی سرزنش کرے ۔حکومت کو چاہیے! کہ من چاہے قوانین رائج کرنے کی بجائے اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے عدلیہ سے تعاون کرے ،عدلیہ سے ”محاذآرائی “ختم کرکے اپناامیج بحال کرے اور قوم کوپرسکون زندگی گزارنے کے لیے پرامن معاشرہ دے ۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 45 Articles with 38226 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.