تحریر : احمد شاہ ورانوی
کم ہمتی
بعض لوگ بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ نہیں رکھتے، پوچھنے پر بتاتے ہیں کہ ہم
سے پورا نہیں ہوسکے گا، بعض کہتے ہیں ہمیں کسی نے جگایا نہیں تھا۔ یہ دونوں
عذر لنگ ہیں جس کا منشائ ہے دل کا اللہ تعالیٰ کی عظمت سے خالی ہونا۔ اس کا
علاج یہ ہے کہ یہ سوچ کر فوراً روزہ شروع کردیا جائے کہ روزہ اللہ تعالیٰ
کا حکم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ حکیم ہیں ایسا کوئی حکم نہیں دیتے جو کسی سے
پورا نہ ہوسکے جسے عربی میں تکلیف مالایطاق کہتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے حکم
دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں پورا کرسکوں گا لہٰذا اللہ تعالیٰ کا
نام لے کر کل سے شروع کر ہی دیتا ہوں۔ ان شائ اللہ، اللہ تعالیٰ توفیق دیں
گے۔ اور اگر تھوڑی بہت مشقت پیش آئی تو وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہوگی، اس سے
میرے نفس کی صفائی ہوگی، میں بہت گناہگار ہوں، سیاہ کار ہوں، اگر کچھ مشقت
پیش آئی تو میرے رب کو میرے اوپر کتنا پیار آئے گا۔ اور اللہ نہ کرے اگر
کوئی ناقابل برداشت تکلیف پیش آئی جس سے جان جانے کا خطرہ ہو تو ایسی صورت
میں ویسے بھی روزہ توڑنے کی گنجائش ہے اس لئے اللہ کے نام پر شروع کرتا ہوں
توفیق اللہ تعالیٰ دیں گے۔ ان شائ اللہ
یہ سوچ کر روزہ شروع کرے ان شائ اللہ روزہ پورا ہوگا۔ حکیم الأمت مولانا
اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے ایک شخص کو دیکھا
تھا جس نے عمر بھر کبھی روزہ نہیں رکھا تھا وہ اسی بلا میں گرفتار تھا کہ
مجھ سے پورا نہیں ہوگا، میں نے کہا کہ تم بطور امتحان ہی رکھ کر دیکھو،
چنانچہ رکھا اور پورا ہوگیا اور پھر اس کی ہمت بندھ گئی اور رکھنے لگا۔
روزے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی توفیق ہر خاص و عام کے مشاہدے کی بات
ہے۔ بہت سے ناتواں و کمزور لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ مسلسل بلاناغہ روزہ
رکھتے ہیں۔ خود راقم سطور کی والدہ کا یہ حال ہے کہ ان سے ایک گھنٹہ بغیر
پانی پئے نہیں رہا جاتا، لیکن رمضان میں ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ بغیر کسی
خاص مشقت کے تمام روزے رکھ لیتی ہیں، آج تک کوئی روزہ نہیں چھوڑا۔ روزے میں
تلاوت، گھریلو کام کاج کے علاوہ بیمار کی عیادت وغیرہ بھی کر لیتی ہیں۔
افغانستان کے ٹھنڈے علاقوں سے آئے ہوئے افغانی نہ صرف پاکستانی گرمی میں
روزے رکھتے ہیں بلکہ اپنے پُر مشقت، بھاری کام بھی جاری رکھتے ہیں۔ یہ سب
اللہ تعالیٰ کی توفیق اور ہمت کی برکت ہے۔
ایسے لوگ جو کم ہمتی کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتے وہ یہ سوچیں کہ اگر ان کو
کوئی ڈاکٹر کہہ دے کہ میں آپ کو یہ دوائی دے رہا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ آج
دن بھر کھائوگے، پیوگے نہیں، ورنہ کوئی بھی مہلک بیماری ہوسکتی ہے تو یہ
کیا کریں گے؟ ظاہر ہے کہ وہ احتیاط ایک دن کیا ڈیڑھ بلکہ دو دن تک کھانے
پینے سے دور رہیں گے کہ کہیں مہلک بیماری نہ لگ جائے لیکن افسوس ہے کہ اللہ
تعالیٰ کے حکم کی وقعت ڈاکٹر کی بات کے برابر بھی نہیں، بیماری سے بچنے کے
لئے تو اتنی مشقت، مگر عذاب سے بچنے کے لئے کچھ نہیں۔ انا للہ و انا الیہ
راجعون۔
ہمیں روزے کی ضرورت نہیں
بعض بزعم خویش تہذیب یافتہ و تعلیم یافتہ حضرات یوں گل افشانی کرتے ہیں کہ
روزے کا مقصد ہے اصلاح نفس اور قوت بہیمیہ کا اعتدال پر آنا، اور مذکورہ
مقصد ہماری تعلیم و تہذیب کی بدولت ہمیں حاصل ہے اس لئے ہمیں روزے کی ضرورت
نہیں۔
اس مختصر سی بات میں وہ کئی خطرناک غلطیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پہلی یہ کہ
اپنی تعریف خود کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’فلاتزکوا انفسکم
ہو اعلم بمن اتقیٰ‘‘ ترجمہ: تم اپنے آپ کو پاکیزہ نہ ٹھہرائو، وہ خوب جانتا
ہے کہ کون متقی ہے۔
اپنی تعریف خود کرنا عام حالات میں بھی منع ہے اور پھر جب اللہ تعالیٰ کے
کسی حکم کے مقابلے میں ہو تو بات حدکفر تک پہنچ جاتی ہے جیسا کہ حضرت
تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے آگے آجائے گا۔ ان شائ اللہ
اس کے علاوہ انہوں نے روزے کا مقصد اپنی طرف سے متعین کردیا اور یہ بھی کہ
اگر یہی مزعومہ مقصد حاصل ہوجائے تو روزے کی ضرورت ہی نہیں۔ حالانکہ یہ بات
غلط ہے۔ روزہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اسے بہرصورت پورا کرنا چاہئے کوئی
تقویٰ کے کتنے ہی اعلیٰ مرتبے تک پہنچ جائے۔ انبیائ اللہ تعالیٰ کے احکام
کے پابند تھے، انبیائ سے بڑھ کر بھی کوئی مہذب ہوسکتا ہے؟
یہ جو انہوں نے دعویٰ کیا ہے تو یہ محض دعویٰ ہی ہے حقیقت سے اس کا کوئی
تعلق نہیں۔ قوت بہیمیہ کے آثار یعنی تکبر، خود پسندی، دوسروں کی تحقیر، ظلم
اور سخت دلی وغیرہ جتنے ان تہذیب یافتہ لوگوں میں ہوتے ہیں دوسروں میں ان
کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا۔
اور بعض گستاخ کہتے ہیں ’’روزہ وہ رکھے جس کے گھر اناج نہ ہو‘‘ یا یہ کہ
’’بھائی ہم سے بھوکا نہیں مرا جاتا‘‘۔
ان لوگوں کا شرعی حکم
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
’’یہ دونوں فریق﴿یعنی تہذیب یافتہ اور غیر مہذب گستاخ﴾ بوجہ انکار فرضیت
روزہ کے زمرۂ کفار میں داخل ہیں۔ پہلے فریق ﴿مہذب﴾ کا قول﴿کہ روزے کا مقصد
قوت بہیمیہ کا اعتدال اور اصلاح نفس ہے جو ہمیں ہماری تعلیم کی وجہ سے حاصل
ہے لہٰذا روزے کی ضرورت نہیں﴾ محض ایمان شکن ہے، اور دوسرے﴿گستاخ﴾ فریق کا
قول﴿کہ روزہ وہ رکھے جس کے گھر اناج نہ ہو﴾ ایمان شکن بھی اور دل شکن
بھی۔﴿اصلاح انقلاب امت ص۹۳۱﴾
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کا خلاصہ یہ ہے کہ چونکہ یہ دونوں فریق
روزے کو فرض نہیں مانتے اس لئے کافر ہیں، والعیاذ باللہ
بظاہر تو غیر مہذب اور گستاخ فریق کا قول سخت ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو
تہذیب یافتہ فریق کی بات زیادہ خطرناک ہے کیونکہ ان کی بات میں دھوکہ، دجل
اور تلبیس زیادہ ہے جبکہ دوسرے فریق کی بات واضح طور پر باطل معلوم ہوتی
ہے۔
جب خدا کی چوری نہیں تو.
روزہ نہ رکھنے والے بھی دو قسم کے ہیں، بعض علانیہ کھانے پینے سے شرماتے
ہیں اور حتی الوسع اپنے اس عیب کو چھپا کر رکھتے ہیں۔ اور بعض بے شرم و بے
حیا علانیہ کھاتے پیتے ہیں اور ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں جب
خدا کی چوری نہیں تو بندے کی کیا چوری؟ حالانکہ یہ بات غلط ہے، شیطنت پر
مبنی ہے اللہ تعالیٰ سے تو کسی گناہ کو چھپایا نہیں جا سکتا، جن سے چھپا
سکتے ہو ان سے چھپائو۔ اللہ تعالیٰ سے چھپانا ناممکن ہے اور مخلوق سے
چھپانا ممکن ہے تو ممکن کا قیاس ناممکن پر کیسے ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ ہر گناہ کا حکم یہی ہے کہ پہلے تو کوشش ہونی چاہئے کہ گناہ سے
دور رہیں۔ اگر گناہ سرزد ہوگیا تو اب اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہوتا ہے کہ
فوراً توبہ کرو اور اپنے گناہ کو چھپائو، گناہ کرنا ایک گناہ، اور گناہ کو
ظاہر کرنا یا ظاہر کرکے کرنا ڈبل گناہ ہے۔
امساک کی پرواہ نہ کرنا
اگر کوئی مسافر دن کو سفر سے واپس آجائے جبکہ سفر میں اس کا روزہ نہیں تھا
تو بقیہ دن اس کا روزہ داروں کی طرح رہنا واجب ہے یعنی کھانے پینے سے گریز
کرے۔ اسے امساک کہتے ہیں لوگ اس کا خیال نہیں کرتے۔ یہی حکم اس عورت کا ہے
جو دن میں حیض یا نفاس سے پاک ہوجائے کہ وہ بقیہ دن کا امساک کرے گی مگر
عورتوں کو یہ مسئلہ معلوم نہیں یا غفلت کرتی ہیں۔
٭.٭.٭ |