گزشتہ ایک سال سے وزیرِاعلٰی
پنجاب شہباز شریف صاحب ہونہار طالب علموں کو بڑے طمطراق اور جوش و جذبے سے
لیپ ٹاپ تقسیم کر رہے ہیں اور اسے اپنی حکومت کا ایک بڑا کارنامہ گردانتے
ہیں۔ بعض جگہوں پر لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کے اخراجات بھی کڑوروں میں آئے ہیں
جیسے پنجاب یونیورسٹی۔ اس بات سے قطع نظر کہ لیپ ٹاپ پر کیسی سیاست ہو رہی
ہے ہم اسے مستقبل کے سود و زیاں اور حا ل کے زمینی حقائق کو مدِنظر رکھ
کرتجزیہ کرتے ہیں۔
لیپ ٹاپ بذاتِ خود ایک مشین ہے جس سے ہم مثبت اور منفی دونوں قسم کے کام لے
سکتے ہیں مگر کسی بھی منصوبے کے خالقین منصوبہ بناتے وقت یہ سوچتے ہیں کہ
اس منصوبے پر عمل کرنے والے اس سے کتنا فائدہ اٹھائیں گے۔ منصوبے کو فوائد
کی کسوٹی پر کیسے پرکھا جائے گا؟ اعدادو شمار کے ساتھ ان تمام امور کا
جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے ورنہ کو ئی منصوبہ خیرات کی طر ح کوئی چیز باٹنے
جیسا ہو گا۔ لیپ ٹاپ کے اس منصوبے میں بھی سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ تقسیم کے
بعد کوئی طریقہ کار ایسا وضع نہیں کیا گیا جس سے یہ پتہ چلے کہ کس طالب علم
نے لیپ ٹاپ کو تحقیقی اور تخلیقی مقاصد کے لیے استعمال کیا اور کس نے اخلاق
باختگی اور بے راہ روی کے فروغ کے لیے استعمال کیا ۔ایسا منصوبہ جس کے
نتائج کا علم نہ ہو سکے اسے ہوائی منصوبہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں کو
لیپ ٹاپ تقسیم کیے گے ان سے دو سال بعد میں ان کے تحقیقی اور مثبت کام کی
رپوٹ طلب کی جائے تو شاید حکومتِ پنجاب کے سارے دعوے دیوانے کی بڑ ثابت
ہوں۔یہ نوجوان نسل جس کوکوئی پختہ اخلاقی تربیت بھی نہیں دی گئی ہے اور نہ
ہی رٹے بازی کے علاوہ کوئی تحقیقی کام پیشِ نظر ہے ۔وہ کیوں کر اس کے ذریعے
مثبت کام کرے گی؟ بے راہ روی اورہیجان انگیز ماحول میں پرورش پانے والی یہ
نسل برائی کے بحرِ بیکراں میں غوطے لگاتی رہے گی اور اپنی نفسیاتی اور
نفسانی الجھنوں کے بے سمت صحراؤں میں بھٹکتی رہے گی۔ جہاں انٹر نیٹ کے
شترِے بے مہار اورارزاں رسا سہولت ان کی کچی اور خام سوچ ا وائل عمری کا
فائدہ اٹھاتی رہے گی ۔ اگر اپنی آنکھوں سے لیپ ٹاپ کے استعمال کے مناظر کا
چشم دید مشاہدہ کرنا چاہیں تو کسی بھی یونیورسٹی میں جا کر کر لیجیے آپ کو
طلبہ اور طالبات کی ٹولیاں اور جوڑے درختوں اور کینٹینوں پر اپنے خرمنِ
اخلاق کو جھلسانے میں مصروف ہوں گے۔ یہاں پر اس خاتون وزیر کا بیان بھی
قابلِ ذکر ہے جو ضلع پاک پتن میں تقریبِ تقسیمِ لیپ ٹاپ کے موقع پر فرماتی
ہیںِ۔ ہم نے نوجوانوں کو دنیا مسخر کرنے کی ٹیکنالوجی دے دی ہے ،،یہ جملہ
اخبارات اور کم وبیش تمام ٹی وی چینلوں پر پٹی کی صورت میں چلتا رہا ہے۔ اس
مضحکہ خیز جملے کی صداقت کا ہم سب انتظار کرتے ہیں ۔ہاں یہ بات اس وقت درست
ہوتی جب ہمارے خادمِ اعلی لیپ ٹاپ خود بنانے کے لیے کوئی فیکٹر ی لگاتے یا
اس ضمن میں کوئی ابتدائی قدم بھی اٹھا لیتے ۔مگر افسوس کہ مانگے کے چراغوں
کے عارضی اجالے کو دنیا تسخیر کرنے سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔بلکہ کثیر ز رِ
مبادلہ خرچ کر کے دوسروں کی معیشت کو مضبوط کرنے کا نام اگر ترقی ہے تو
تنزلی نہ جانے کس بلا کا نام ہے ؟آئیے تسخیرِ کائنات کی اس زلف کے سر ہونے
کا بذر یعہ لیپ ٹاپ انتظار کر تے ہیں۔
ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے۔ کہ جن طلبہ اور طالبات کو لیپ ٹاپ دیے گئے کیا
تمام اس کے مستحق ہیں ؟ بہت سے امیر کبیر بچوں کو بھی لیپ ٹاپ دیے گئے جن
کے لیے لیپ ٹاپ خریدنا کوئی مشکل نہیں ۔ بہت سے بچوں کے پاس اپنے کمپیوٹر
اور لیپ ٹاپ موجود تھے اور تعلیم وتدر یس میں جتنی معاونت در کار تھی وہ
حاصل کر رہے تھے۔ قومی خزانے سے ضروت مندوں اور غیر ضرورت مندوں کا امتیاز
ختم کر کے پیسہ خرچ کرنا نہ کوئی سیاسی بصیرت ہے ۔نہ ہی قومی منصوبہ سازی
کے اصولوں کے مطابق ۔ ہاں نمبروں کے لحاظ سے یا اعلی کارکردگی کے حامل طلبہ
اور طالبات کو چند گنے چنے انعامات تو دیے جا سکتے ہیں مگر اس بنیاد پر
لاکھوں کی تعداد میں لیپ ٹاپ تقسیم کرنا کوئی عقل مندی نہیں ۔ اگر خادمِ
اعلی صاحب اپنے لیپ ٹاپی ارادوں کا اظہار وسیع تر مشاورت کے طور پر عوام
الناس کے سامنے کرتے ۔ تو یقینی طور پر ان کو بہتر متبادل راستے مل جاتے ۔مثال
کے طور پر اگر وہ اس طرح لیپ ٹاپ تقسیم کرنے کی بجائے پنجاب کے ہر ضلعے میں
ایک تحقیقی مرکز قائم کرتے جہاں چالیس سے پچاس تک کمپیوٹر انٹرنیٹ کے ساتھ
لیس کر کے رکھے ہوتے ۔ان پر کام کرنے کی اجازت صرف ان لوگوں کو ہوتی جو
تعلیمی اور تحقیقی کام کرنا چاہتے ہوں۔ آسان نگرانی کے اس عمل سے یہ
کمپیٹوٹر تقریبا مثبت اور مفید مقاصد کے لیے ہی استعمال ہوتے۔ اس سے ہزار
گنا پیسے کم خرچ کر کے کئی ہزار گنا فائدہ زیاد ہ اٹھایا جا سکتا تھا۔مگر
اس کے لیے گہری سوچ دو ر رس نظریں احساسِ سود و زیاں ، جمہوری مزاج اور
وسیع تر مشاورت کی خوبی جیسے اوصافِ حکمرانی در کار ہیں۔
اس وقت قوم توانائی کے سنگین ترین بحران کا شکار ہے۔لوگ بجلی ، پانی، گیس
اور دیگر بنیادی اشیائے ضرورت کو ترس رہے ہیں ۔کارخانے اور فیکٹریاں بند
ہونے کی وجہ سے بے روز گاری کا ایک بہت بڑا سیلاب آیا ہوا ہے جس سے نمٹنے
کی بجائے لیپ ٹاپ جیسے منصوبوں پر اربوں روپے بہا دینا بدانتظامی اور
منصوبہ سازی کے شعور کے فقدان کی بدترین مثال ہے ۔ عام کمپیوٹر ہوں یا لیپ
ٹاپ اسکو چلانے اور چارچ کرنے کے لیے بجلی کی ضرورت ہے۔حیرت ہے کہ بنیادی
چیز موجود نہیں ہے اور ثانوی چیزوں پر بے دریغ رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ حکومتِ
پنجاب کے لیے پنجاب کے سکولوں میں ساڑھے چار ہزار کمپیوٹر لیباٹریاں باعثِ
عبرت ہونی چاہیے تھیں جو گزشتہ دو سالوں میں بجلی کے بدترین بحران کی وجہ
سے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے لوڈ شیٖڈنگ ہوتی رہی اسکی وجہ سے پورے سال میں
زیادہ سے زیادہ بیس سے تیس پیریڈ ہی پڑھائے جاسکے۔اس لحاظ سے ان لیباٹریوں
کے کمپیوٹر عملا بے کار اور بند ہی رہے ۔اور آئندہ بھی ان لیباٹریوں کی
تباہی کے آثار واضح نظر آرہے ہیں کیونکہ بجلی کا مستقبل ابھی تک بے یقینی
کا شکار ہے۔ یہیں سے لیپ ٹاپ کی تقسیم کے منصوبے کی افادیت کا بھی اندازہ
ہو جاتا ہے ۔بات سیدھی سی ہے کہ یہ تمام منصوبے ہوائی منصوبے کہلائے جانے
کے قابل ہیں ان سے فائدے کی بجائے الٹا نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔اگر پنجاب نے
سستی روٹی سکیم ، دانش سکولوں، مفت کتابوں ،پیلی ٹکسی سکیم ،آشیانہ ہا ؤسنگ
سکیم اور لیپ ٹاپ کے منصوبوں کے پیسوں سے بجلی پیدا کی جاتی توپنجاب میں
ایک لمحہ بھی لوڈ شیڈنگ نہ ہوتی۔اور مذکورہ تمام منصوبوں کے مجموعی فوائد
سے ہزاروں گناہ زیادہ قوم کو فوائد ملتے ۔
بات ہم لیپ ٹاپ کی کر رہے تھے ۔لیپ ٹاپ کی عمر اور کار کردگی زیادہ سے
زیادہ دس سال تک ہو سکتی ہے ۔اس عمر کو پہنچنے سے پہلے بہت سے ناکارہ ہو جا
ئیں گے اور بہت سے بازارو ں میں پہنچ کر اونے پونے بیچ دیے جائیں گے ۔ اگر
فقط لیپ ٹاپ کے پیسوں سے پنجاب کے صرف دس بڑے شہروں میں ترجمہ مراکز قائم
کیے جاتے جہاں جدید علوم و فنون کو قومی زبان کے سانچے میں ڈھالا جاتا تو
ہزاروں کتابیں لکھی جا سکتی تھیں جو صدیو ں تک آنے والی نسلوں کی رہنمائی
کرتیں۔ اگر ا نہی پیسوں سے حکومتِ پنجاب تعلیم و تدرس پر سینکڑوں سافٹ ویر
تیار کرواتی جو جدید علوم و فنون کی بابت آسان فہم ہوتے اور پچیس تیس روپے
کی سی ڈی کی صورت میں دستیاب ہوتے تو لاکھوں طلبہ اور طالبات کو فائدہ ہوتا
جو رٹے ، ٹیوشن ، مشکل نصاب اور مہنگی تعلیم کی وجہ سے تعلیم کو خیر باد
کہہ رہے ہیں ان سب گھمبیر مسائل سے نمٹنے کی بجائے لیپ ٹاپ تقسیم کرنا اور
اس کے ذریعے اربوں روپے پانی کی طرح بہانا تعلیم کے حقیقی مسائل سے چشم
پوشی کے مترادف ہے ۔ اس پر اللہ تعالی ان حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی
توفیق عطا فرمائے اور پیسے کے عمل دخل کے ساتھ ساتھ عقل وشعور کا عمل دخل
بھی بڑھانے کی توفیق دے۔آمین |