5 /جولائی2012 بروز جمعرات ہائیر
ایجو کیشن کمیشن کے مرکزی دفتر واقع اسلام آباد میں ہائیر ایجو کیشن کمیشن)
حکومت پاکستان) اور اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے مابین مذاکراتی میٹنگ
ہو ئی ۔اس میٹنگ میں جو امور زیر بحث آئے وہ چونکہ عوامی نوعیت کے ہیں اور
ہزاروں لوگوں کے معاملات ان سے وابستہ ہیں اور ان امور کے حوالے سے لاکھوں
لوگ عرصے مدارس کی نمائندہ تنظیموں اور حکومتی اداروں بالخصوص ہائر
ایجوکیشن کمیشن پر نظریں لگائے بیٹھے ہیں ۔اب چونکہ اس حوالے سے کم از کم
گفتگو ،ملاقاتوں اور مذاکرات کا تو آغاز ہوا جو خوش آئند ہے اس لیے ان
مذاکرات کی تفصیل قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے ۔
اتحاد تنظیمات مدارس کے وفد کی قیادت صدر اتحاد تنظیماتِ مدارس کے معاون
خصوصی ، ترجمان اتحاد تنظیمات اور وفاق المدارس کے جنرل سیکر ٹری مو لانا
محمد حنیف جا لند ھری فرما رہے تھے ان کے ساتھ وفاق المدارس السلفیہ کے
مولانامحمد یسین ظفر ،وفاق المدارس العربیہ کے مولانا عبدالقدوس محمد ی اور
تنظیم المدارس کے مولانا حافظ محمد رمضان سیالوی بھی موجود تھے جبکہ ہائیر
ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر جاوید لغاری کی سربراہی میں کمیشن کے پانچ
ذمہ داران موجود تھے ۔
میٹنگ کا باقاعدہ آ غاز تلاوت کلام پاک سے ہوا مولانا محمد حنیف جالندھری
نے تلاوت کلام پاک کی سعادت حاصل کی بعد ازاں شرکاءکا تعارف ہوا اور ڈاکٹر
جاویڈ لغاری نے مدارس دینیہ کے نمائندگان کا اپنے قیمتی مشاغل میں سے وقت
نکال کر ایچ ای سی آنے پر خیر مقدم بھی کیا اور ان کا شکریہ بھی ادا کیا
مدارس دینیہ کی طرف سے مولانا محمد حنیف جالندھری نے دینی مدارس کی اہمیت
کااعتراف اور فضلاءمدارس دینیہ کے مسائل ومشکلات کا احساس کرتے ہوئے مشاورت
اور مذاکرات کا اہتمام کرنے پر ڈاکٹر لغاری اور ان کے رفقاءکا شکریہ ادا
کیا اور اس بات کی ضرورت پر زور دیا کہ ملاقاتوں اور مذاکرات کا سلسلہ سال
بھر جاری رہنا چاہیے ۔
اجلاس کے آغاز میں عالمیہ کی سند کے ایم اے اسلامیات اور ایم اے عربی کے
مساوی تسلیم کیے جانے کے لیے معادلہ سرٹیفکیٹ کا معاملہ زیر بحث آیا ۔
ہائیر ایجو کیشن کمیشن کے ذمہ داران نے معادلہ سر ٹیفکیٹ کے حصول کے نظام
کو آن لائن کر نے کے لیے ملٹی میڈیا پر و جیکٹر پر بریفنگ دی اور شرکا ءکو
بتایا گیا کہ آ ئندہ سے مدارس دینیہ کے فضلاءکے لیے بھی کوائف کے اندراج
اور دیگر جملہ تفصیلات کی فر اہمی کا سلسلہ آ ن لائن ہو گا ۔اس مو قع پر و
فاق المدارس کے جنرل سیکرٹری مولانا محمد حنیف جالندھری نے کہا کہ ہم ایچ
ای سی کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سالا نہ نتا ئج
کا گزٹ HECکو مہیا کر دیا کریں گے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایچ ای سی معادلہ
سرٹیفکیٹ کی مکمل فیس اپنے پاس نہ رکھے بلکہ وفا قوں سے جب وہ دفتری معاونت
اور افرادی قوت کے تعاون کاطلبگا ر ہے تو آ دھی فیس بھی مدارس دینیہ کے
نمائندہ بورڈ ز کے سپرد کر ے۔
اس مو قع پر اصولی طور پر معادلہ سسٹم کو کمپیوٹر ائز ڈ اور آن لائن کر نے
پر اتفاق ہوا اور یہ طے پایا کہ آئندہ دو ماہ تک HECفنی طور پر جملہ
انتظامات مکمل کر نے کے بعدمدارس کی نمائندہ تنظیموں کو آ گا ہ کیا جائے گا
اور پھر ان سے نمائند ے طلب کیے جائیں گے جنہیں ٹریننگ دی جائے گی اور اس
کے بعد باقاعدہ طور پر اس سسٹم کے نفاذ و اجراءکا اعلان کر دیا جائے گا
۔متعلقہ وفاق یا تنظیم کی طرف سے آ نے والے کوائف کی مزید و یریفکیشن کی
ضرورت نہیں ہو گی تا ہم متعلقہ وفاق یا تنظیم ازخود مکمل چھان پھٹک اور
تحقیق کے بعد کو ائف بھیجے گا اور اگر کو ئی طالب علم انفرادی طور پر
معادلہ سر ٹیفیکٹ کے حصول کے لیے در خواست دائر کر کے آن لائن فارم پر کرنا
چاہے تو وہ بھی کر سکے گا۔
اس مو قع پر دینی مدارس اور HEC کے مابین چند دیگر امور بھی زیر بحث آ ئے
٭....مڈل سر ٹیفکیٹ کے بارے میں HECسے کہا گیا کہ جب دیگر اداروں سے مڈل سر
ٹیفکیٹ کا تقاضا نہیں کیا جا تا تو صرف مدارس کے فضلاءکو کیوں مڈل سرٹیفکیٹ
پیش کر نے پر مجبور کیا جاتا ہے جس پر HECنے کہا کہ HECکو 16سالہ تعلیمی
دورانیہ ، اس کا ریکارڈ اور ثبوت مطلوب ہو تے ہیں اس لیے اس کا کو ئی حل
نکالا جا نا چاہےے جس پر بحث وتمحیص کے بعد یہ طے پایا کہ حفظِ قرآ ن کر یم
کے تین بر سوں کو مڈل کے مساوی تعلیم تسلیم کیاجائے گا اور اس کے لیے اگر
حفظ کی سند میں کو ئی قانونی یا فنی تبدیلی کر نی پڑ ی تو وہ بھی کی جائے
گی جس پر اتحاد تنظیمات مدارس نے اتفاق کیا ۔تاہم غیر حافظ بچوں کو مڈل کا
سر ٹیفکیٹ پیش کر نا ہو گا ۔
٭....اس مو قع پر تحتا نی اسناد کی حیثیت کا معاملہ بھی زیر بحث آ یا کہ
صرف عالمیہ ہی نہیں بلکہ ثانو یہ عامہ(میٹرک) ،ثانویہ خاصہ(ایف
اے)،عالیہ(بی اے) کی اسناد کو میٹرک ،ایف اے او ر بی اے کے برابر تسلیم کیا
جائے اس مطالبہ پر HEC نے یہ اصولی موقف اپنایا کہ اس پر HECکو تو کو ئی
اعتراض نہیں تاہم اس حوالے سے I.B.C.Cکو بھی اعتماد میں لیا جائے گا کیونکہ
میٹرک اور ایف اے کی اسناد کی منظوری ہائیر ایجو کیشن کمیشن کے دائرہ
اختیار سے باہر ہے تا ہم اس کے لیے اتحاد تنظیمات مدارس کی طرف سے تحریر ی
مطالبہ آنے کے بعد اس پر ضروری قانونی اور دفتری تقاضے پورے کیے جائیں گے
اور اس کا باقاعدہ اعلان کیا جائے گا۔
٭....اس مو قع پر دینی مدارس کی فاضلات اور عالمات کی اسناد کی حیثیت اور
ان کے تعلیمی دورانیے کا معاملہ بھی زیر بحث آ یا جس پر وفاق المدارس سمیت
دیگر نمائندہ تنظیموں نے HEC کو بتایا کہ HECکے اصولوں کے مطابق طالبات کی
تعلیم کا دو رانیہ بڑھا دیا گیا ہے ۔تاہم ایسی ہزاروں طالبات جو اعلیٰ
تعلیمی مراحل طے کر چکیں اور برسوں سے تدریسی فرائض بھی سر انجام دے رہی
ہیں ان کی اسناد کے معاملے میں یہ طے پایا کہ اس معاملے کو باہمی افہام و
تفہیم سے حل کر لیا جائے گا اور کو ئی در میانی راستہ نکالنے کی کو ششں کی
جائے گی۔
٭....اس مو قع پر NTSکا معاملہ بھی زیر غور آ یا ۔اس حوالے سے دینی مدارس
کے نمائندگان نے زوردے کر کہاکہ NTSکا معاملہ سرے سے ناقابل فہم ہے اور اس
حوالے سے عوامی تا ثریہ ہے کہ شاید N.T.S مدارس کے خلاف امتیازی سلوک اور
مدارس کے فضلاءکے لیے اعلی تعلیم کے دروازے بند کرنے کی کو شش ہے جس کی
ڈاکٹر جاوید لغاری اور ان کے رفقا ءنے سختی سے تردید کر تے ہوئے و ضاحت کی
کہ ایسی کو ئی بات نہیں ۔اس پر ان سے مطالبہ کیا گیا وہNTSسے یا تو مدارس
کے طلباءکو استثناءدے دیں یا اگر ضروری سمجھیں تو ان مضامین پر مشتمل ٹیسٹ
لیا جائے جو مدارس کے طلباءنے گزشتہ سولہ سالہ تعلیمی دور میںپڑھے ہوں ۔اس
پرHECکے ذمہ داران نے اصولی طور پر اتفاق کیا اور کہا کہ اگر ہمیں تحریری
طور پر اتحاد تنظیمات مدارس کی طرف سے درخواست دی جائے تو NTSکو سبجیکٹ
ٹیسٹ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔
اس مو قع پر اتحاد تنظیمات مدارس کے نمائندہ گان نے HECکے ذمہ داران کے
حقیقت پسندانہ رویہ اور معاونت و مفاہمت پر مبنی حکمت عملی کو سراہتے ہوئے
ان کا شکر یہ ادا کیا اور اس عزم کا اظہار کیاکہ اگر معاندانہ اورمخالفانہ
طرز عمل اور امتیازی سلوک کے بجائے اسی طرح کا خیر خواہانہ اور مفاہمانہ
انداز اختیار کیا جائے تو بہت سے مسائل کے حل میں مدد مل سکتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ مذاکرات اور ملاقاتیں صرف نشستن ،گفتن اور
برخاستن تک ہی محدود نہ رہیں بلکہ اس پر عملی طور پر پیش رفت ہو اور اس
میٹنگ میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے افسران کا جو خلوص دیکھنے میں آیا وہ
کہیں بیوروکریسی کے روایتی ہتھکنڈوں کی نظر نہ ہو جائے ۔ |