23 جولائی کو ایک بار پھر
شمالی وزیرستان میں ایک گھر پر ڈرون حملہ کیا گیا جس میں 11 افراد جان بحق
ہو گئے۔ ڈرون حملے اب اس تو اتر سے ہوتے ہیں کہ نہ تو اب کسی کو تاریخیں
یاد ہیں نہ ہلاکتوں کی تعداد ۔ یہ حملے پاکستان کی سرحدوں کے اندر پاکستانی
شہریوں پر ہوتے ہیں، اُن شہریوں پر جو کبھی پاکستان کے بازوئے شمشیرزن
سمجھے جاتے تھے۔ قبائلی جو ہماری تھرڈلائن فورس تصور ہوتے تھے ہمارے بغیر
تنخواہ کے محافظ۔ اگر با لفرض ان ہلاک شدگان میں کوئی دہشت گرد ہو بھی تو
ایک دو ہونگے، دو چار ہونگے سارے کے سارے تو نہیں ہوسکتے تو پھر ہماری
حکومت ان حملوں کے خلاف سخت رویہ کیوں نہیں اپناتی ۔کیوں نہیں امریکہ کو
ایک یا دوسرے طریقے سے مجبور کرتی کہ وہ یہ درندگی چھوڑ دے، ہماری خود
مختاری کا احترام کرے، ہماری سرحدوں کی تعظیم کرے، ہماری جانوں کو بھی
امریکی جانوں کی طرح محترم جانے اور اپنی وہ روش ترک کرے جو اس نے ہمارے
خلاف اپنائی ہوئی ہے۔ ایبٹ آباد ، سلالہ ، میران شاہ باجوڑ آخر اُس کی بد
فطرتی سے ہماری کوئی جگہ محفوظ کیوں نہیں اور ہم بڑے ضبط سے اُسے کیوں
برداشت کیے جا رہے ہیں کیا یہ جرم ضعیفی کی سزا ہے یا بے حمیتی کی انتہائ ،چاہے
جو بھی ہے ہم خود بھی غلط ہیں۔ ہم آخر ہر بار امریکہ سے دب کیوں جاتے ہیں۔
یہ مانا کہ ہم اُس جیسی طاقت نہیں رکھتے کیونکہ اُس کے کارخانے دن رات نئے
سے نیا جنگی اسلحہ ڈھال رہے ہیں دعویٰ انسانیت دوستی کا اور عمل انسان کشی
کا ۔ ہم وہ ٹیکنالوجی اور وسائل و ذرائع نہیں رکھتے جو اُس کے پاس ہیں لیکن
اس بات کو وہ بھی مانتا ہے کہ علاقے میں ہماری اہمیت کیا ہے اور وہ یہاں
ہمارا کتنا محتاج ہے، اس کا اندازہ نیٹو سپلائی کی صرف سات ماہ کی بندش میں
وہ لگا چکا ہے جس کے لیے اُس نے ہر حربہ آزما یا۔ وہ مانے یا نہ مانے اُس
نے سرحد کے پار افغان علاقے سے پاک فوج کے دستوں اور پاکستانی علاقوں میں
سول آبادی پر خود حملے کرائے ورنہ کیا وہ اتنی طاقت اور ٹیکنالوجی کی
موجودگی میں مولوی فضل ا للہ کو روک نہیں سکتا۔ وہ یہی ڈرون ٹیکنالوجی اس
کے خلاف کیوں استعمال نہیں کرتا جو وہ بڑی با قاعدگی اور درندگی سے
پاکستانی علاقوں میں استعمال کرتا ہے اگر وہ پاکستان کو اپنا اتحادی کہتا
ہے اور اس سے کسی بھی امریکی سے زیادہ امریکہ کے لیے وفاداری کی توقع رکھتا
ہے تو خود وہ کسی بھی فرض سے مبرائ کیوں ہے۔ وہ جب انتہائی بر بریت سے ڈرون
حملے کرتا ہے اور دس پندرہ قبائیلیوں کو بھون کر رکھ دیتا ہے تب اُس کے
انسان دوست شہری کیوں خاموش رہتے ہیں۔ اس کی انسانی حقوق کی تنظیموں کو چپ
کی بیماری کیوں لگ جاتی ہے۔ یہ سارے اعتراضات ہونے کے باوجود حقیقت یہ ہے
کہ امریکہ اپنے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے تو ہماری حکومت کس مرض کی دوا ہے۔
کیا اُس کا ہر شہری اس کے لیے اتنا ہی معتبر نہیں جتنا صدر یا وزیراعظم یا
ان کے اہل خانہ ہیں بلکہ یہ لوگ تو اپنی حفاظت کے ساتھ ہر شہری کی حفاظت کے
ذمہ دار ہیں ان کے بھی جو وزیرستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں ایک مشکل ترین
زندگی گزارتے ہیں جو اس ملک کے وسائل و ذرائع کو اتنا استعمال نہیں کرتے
جتنا دوسرے کرتے ہیں تو کیا اُن کی زندگی بھی بے وقعت ہے۔ آج اگر یہ ڈرون
ادھر تک آتے ہیں تو کل کو خدانخواستہ مزید پیش قدمی ہو سکتی ہے جس کی کئی
مثالیں میں شروع میں بیان کر چکی ہوں اور جس پر انتہائی افسوس کے ساتھ لیکن
تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہماری حکومت نے انتہائی کمزوری کا ثبوت دیا اور اپنے
ملک سے زیادہ امریکہ کی حفاظت کو اپنا فرض جانا۔یہ سو چنا کہ ابھی تک
امریکہ اگر پاکستان کے خلاف کھلی اور وسیع جارحیت نہیں کر سکا تو اس میں
کسی اعلیٰ حکومتی پالیسی کو دخل ہے توسچ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس
رکاوٹ کی وجہ وہ ایٹمی قوت ہے جس کو حاصل کرنے سے روکنے کے لیے امریکہ نے
ہر حربہ آزمایا تھا اور اب بھی اس کی مکمل کوشش ہے کہ خدانخواستہ کسی نہ
کسی طرح ان اثاثوں تک پہنچ جائے اور آئے روز ان کے غیر محفوظ ہونے کا
پروپیگنڈا اس کا معمول ہے کہ یہ غیر محفوظ ہیں جبکہ وہ جانتا ہے کہ یہ ایک
مربوط اور محفوظ نظام کے تحت اللہ کے فضل سے انتہائی محفوظ ہیں۔ ہماری
حکومت کو کم از کم اپنی اسی پوزیشن کا فائدہ اٹھا لینا چا ہیئے اور امریکہ
سے ڈرون حملوں پر دو ٹوک انداز میں بات کر لینی چا ہیئے اور اسے یہ باور
بھی کرا دینا چاہیے کہ ہم اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ اگران
علاقوں میں کوئی دہشت گرد ہے بھی تو اُس کے خلاف کا روائی کا حق صرف حکومت
پاکستان کو ہے امریکہ کو نہیں ۔ امریکہ کے لیے یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ وہ
افغانستان خالی کردے اور واپس ہزاروں میل دور اپنے گھر کو لوٹ جائے تاکہ یہ
خطہ ایک بار پھر پُرامن اور محفوظ ہو جائے کیونکہ ادھر فساد کی جڑ ہی
امریکہ ہے اور جب تک یہ علاقے میں موجود ہے تب تک یہاں قیام امن کی کوئی
کوشش سود مند ہو ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ جس طرح کسی بھی ملک کی سرحدیں اور اس
کے شہری قابل احترام ہیں ا یسے ہی پاکستانی اور پاکستانی سرحدیں بھی قابل
احترام ہیں۔لہٰذا امریکہ کو بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی روک دینی
چاہیئے اور ایسا کرے تو اُسے بھی کہیں تو جوابدہ ہونا چاہیئے ۔ کیا اقوام
متحدہ صرف باقی دنیا کے لیے ہے۔ |